تعلیمی نصاب کی حقیقت

تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے۔ جس کے چار بنیادی عنا صر ہیں جو کہ مقاصد تعلیم، نصاب ،طریقہ ہائے تدریس اور جائزہ ہیں۔ ان سب میں اہم ترین عنصر ’’نصاب ‘‘ کو تسلیم کیا جاتا ہے جو تعلیم کا دِل بھی کہلاتا ہے۔دراصل نصاب وہ آلہ ہے جس کے تحت کوئی تعلیمی ادارہ اپنا فرض بجا لاتا ہے اور قومی مقاصد تعلیم حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ مقاصد تعلیم اگر نشان منزل یا منزل کی حیثیت رکھتے ہیں تو نصاب اس منزل کاراستہ ہے جس پر کوئی شخص چل کر اپنی منزلِ مقصود پالیتا ہے۔نصاب ’’لاطینی ‘‘ زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں، وہ راستہ جس پر چل کر ایک شخص اپنی منزلِ مقصود پالیتا ہے۔ طلباء کے نزدیک نصاب سے مراد وہ اسباق ہیں جو ایک استاد کمرۂ جماعت میں پڑھتا ہے۔تعلیمی مفکرین نے مختلف انداز میں اپنا اپنا مفہوم بیان کیا ہے۔ بعض نے اس کو وسیع معنوں میں استعمال کیاہے، یعنی نصاب ایک ایسی جدو جہد کا نام ہے جو تعلیمی مقاصد کے حصول کے لئے مدرسہ ، کمرۂ جماعت ، لائبریری ، لیبارٹری یا کھیل کود کے میدان میں کی جاتی ہے۔ اور جب کہ بعض مفکرین نے اس کو محدود انداز میں استعمال کیا ہے، یعنی وہ تعلیمی مواد جس کو ہفتہ وار یا ٹرم وائز یا سمسٹر وائز تقسیم کیا جائے۔نصاب کے بارے میں مفکرین کے خیالات و نظریات بالکل اس طرح مختلف ہیں جس طرح نابینا اشخاص کی رائے ہاتھی کے مختلف حصوں کو چھو کر مختلف ہو سکتی ہے۔وہ نابینا شخص جو ہاتھی کی سونڈ پکڑے، اُس کے خیال میں ہاتھی سانپ کی مانند ہوتا ہے۔جو ٹانگ کو پکڑے ، وہ کہے گا کہ یہ ایک درخت ہے۔ جو اُس کے کان چھوئے، تو وہ پنکھا سمجھے۔ اور کوئی ایک ہاتھی کے دانتوں کو نیزوں سے تشبیہ دے۔ماہرین تعلیم نے نصاب کی تعریف کچھ یوں بیان کی ہے۔ الزبتھ ماشیا کے مطابق نصاب تدریسی مواد کو کہتے ہیں۔ جارج پائن کچھ یوں بیان فرماتے ہیں۔ ’’نصاب اساتذہ اور منتظمین مدرسہ کو میسر اُن جملہ حالات و مواقع کا نام ہے جن کے ذریعے مدرسہ میں آنے والے بچوں اور نوجوانوں کے کردار میں تبدیلیاں پیدا کی جاتی ہیں ‘‘۔بلونڈ کے نظریے کے مطابق نصاب ایک طالب علم کے تمام تجربات پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں اسے مدرسہ کی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔الغرض نصاب سے مراد مدرسہ کی وہ مکمل جدوجہد ہے جو مدرسے کے اندر اور مدرسے سے باہر اپنے متعین مقاصد کے حصول کے لئے کی جاتی ہے۔

نصاب کی تیاری کئی مدارج پر مشتمل ہوتی ہے۔یہ معاشرتی ضروریات کے تجزیے اور مقاصد کے مدارج سے شروع ہو کر تعلیمی مواد ،طریقہ ہائے تدریس اور جائزہ کے عمل سے گزر کر تکمیل تک پہنچتی ہے۔نصاب کی تیاری کوئی ساکن و جامد عمل نہیں ہے بلکہ معاشرے کی ضروریات کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے۔آخری مدارج میں اس کاجائزہ پہلے سے منتخب شدہ مقاصد کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ اگر مقاصد کا حصول نہیں ہو رہا تو پھر نئے سرے سے یہ عمل شروع کرنا ہوتا ہے۔پس نصاب کی تبدیلی ایک ایسا مضمون ہے جو کئی مدارج پر مشتمل ہے۔ مثال کے طور پر نصاب میں تبدیلی کا عمل مواد کو یکجا کرنے کے مرحلے میں ہے تویہ معاشرتی ضروریات کے تجزیے اور مقاصد کے مدارج سے گزر چکا ہوگا۔نصاب میں تبدیلی کوئی ایسا عمل نہیں ہے کہ آپ آئیں اور اپنا حصہ ڈال کر چلے جائیں۔اور نہ ہی کوئی ساکن عمل ہے کہ اس نے تبدیلی کے بعد رُک جانا ہے۔آخری مدارج میں اس کا تجزیہ پہلے سے منتخب شدہ مقاصد کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔ اگر مقاصد کو حصول نہیں ہو رہا تو پھر نئے سرے سے یہ عمل شروع کرنا ہوگا۔

نبی اکرم ﷺ کے چشمہ فیض سے پھوٹنے والے نظام تعلیم کی بنیاد قرآن پاک تھی۔ قران کریم کی قرأت وکتابت کے ساتھ ساتھ دیگر علوم بھی نصاب میں رفتہ رفتہ شامل ہوتے رہے۔ جیسا کو صرف و نحو، شعر وادب، تفسیر وحدیث ، فقہ واصول فقہ، تاریخ وجغرافیہ ، کیمیاء و حیاتیات ، فلسفہ و منطق، طب ونجوم اور ریاضی واقلیدس وغیرہ۔ علماء حضرات اپنی دینی سوچ اور بصیرت سے ان علوم کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگ کرتے رہے۔ اگر ہم مسلمانوں کی قدیم درسگاہوں اور خود علماء کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں۔ تو ہمیں یہ بات واضح طور پر دکھائی دے گی۔ کہ ہر دور میں دنیاوی علوم کو اسلامی نصاب کا جزو قرار دیا گیا۔ امام غزالی ؒ پہلے مسلمان مفکر ہیں جنہوں نے دنیاوی علوم کو اسلامی نصاب میں شامل کیا ۔آپ کے نقطہ نظر میں نصاب اس طرح ہونا چاہیے۔ کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں کیلئے مفید ہو۔ آپ نے فرض عین اور فرض کفایہ دونوں کو نصاب میں شامل کیا۔ ابن خلدون نے علو م کو طبعی اور غیر عقلی علوم کے د و گروپوں میں تقسیم کیا ہے۔ سر سید احمد خان نے اسلامی تعلیم اور مغربی علوم میں امتزاج یعنی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ آپ کی آرزو تھی کہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو، اور دوسرے ہاتھ میں جدید علوم اور سر پر لا الہ الا اﷲ کا تاج۔ علامہ اقبال ؒ خود تعلیم کو اور حصول تعلیم کو مقصد حیات قرار دیتے ہیں۔ آپؒ کے خیال میں اسلامی اقدار کا احیاء اور پھیلاؤ اور اسلامی اصولوں کی پاسداری تعلیم کا اولین مقصد ہے۔ آپ کے خیال میں تعلیم کا اصل مقصد خودی، اپنی روایات کا پاس اور اپنی بقا ہے۔ اور تعلیم اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔ آپؒ فرماتے ہیں۔
شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روح انسانی

دور قدیم میں مسلمانوں کی درسگاہوں میں بھی دینی علوم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم کی تعلیم کا سلسہ جاری رہا۔ نظامیہ اور المستنصریہ دو عظیم ترین درس گاہیں تھیں ۔ان میں علم کی تقسیم کا کوئی تصور نہ تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ مختلف علوم ان درس گاہوں کے نصاب میں شامل ہوتے رہے۔ جیسا کہ زراعت، شہریت، سیاست ، تعمیرات وغیرہ۔ دارالعلوم دیوبند کے نصاب میں بے شمار علوم شامل ہیں۔اس کا پس منظر کچھ یوں ہے ۔ 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کی آزادی کی تحریک میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ اس سلسلے میں کئی جنگیں بھی لڑی گئیں، جن میں جنگ پلاسی ، میسور کی لڑائیاں ، احمد شاہ ابدالی کا حملہ اور سید احمد شہید کا جہاد قابلِ ذکر ہیں۔یہ وہ دور تھا جب حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ کی تعلیمی تحریک بام عروج پر پہنچ چکی تھی۔ جو مسلمانوں کی اخلاقی ، مذہبی اور سیاسی پہلوؤں سے کردار سازی کر رہی تھی۔یہی وجہ تھی کہ آنے والی تمام تحریکات میں حضرت شاہ ولی اﷲ ؒ کے افکار نمایاں طور پر پائے جاتے ہیں۔جب آپ ؒ نے تعلیمی تحریک کا آغاز کیا تو اُس وقت ہندوستان پر مسلمانوں کی حکمرانی برائے نام رہ چکی تھی اور جب کہ مسلمانوں کا نظام تعلیم عملی طور پر رائج تھا۔ لیکن 1857 ء کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی تھی، کیوں کہ انگریز مکمل طور پر ہندوستان پر قابض ہو گئے تھے اور انہوں نے مسلمانوں کے نظام تعلیم کو نہ صرف منسوخ کرکے انگریزی تعلیم نافذ کر دیا تھا بلکہ سرکاری ملازمتوں کو نئے نظام تعلیم کے ساتھ مشروط کر دیا ۔اس ساری صورت حال سے ہندوؤں نے پورا فائدہ اُٹھایاپہلے وہ مادی فائدے کے لئے عربی اور فارسی پڑھتے تھے۔ اَب وہ انگریزی تعلیم حاصل کرکے زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں پر برتری حاصل کرتے جا رہے تھے۔دوسری جانب مسلمان طبقہ پریشانی کا شکار ہوگیا تھا۔کچھ اہلعلملوگوں کا خیال تھا کہ حالات سے سمجھوتہ کرلیا جائے لیکن مسلمانوں کاایک بڑا طبقہ اس کے مخالف تھا ۔ جو یہ سمجھتا تھا کہ اسلامی ورثے کی بقا میں ہی دین و دنیا کی فلاح ہے۔ اس صورت حال میں دینی علوم کے تحفظ اور بقا کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جانے لگا تا کہ مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کی صحیح اسلامی خطوط پر تعلیم و تربیت کی جا سکے اور مغرب کی لا دینی یلغار کا مقابلہ کیا جاسکے۔اس سلسلے میں سہارن پور کے قصبہ دیوبند کی مسجد چھتہ مشاورت کا مرکز بن گئی۔ جہاں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اپنے رفقاہائے کار کے ساتھ مقیم تھے۔آخر 30 مئی 1866 ء کو مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے انار کی ٹہنیوں کے درخت کے نیچے دارالعلوم دیوبند کا آغاز کیا۔جس کے پہلے سربراہ مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ تھے۔جو اس سے پہلے انگریز حکومت کے محکمہ تعلیم میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔اس کے مدرسین اور منتظمین نے اپنی مستقل مزاجی ، محنت ، خلوص اور جذبے سے کسی بھی مشکل اور رکاؤٹ کو آڑے آنے نہیں دیا۔ دارلعلوم دیوبند کا انتظامی ڈھانچہ مجلس شوریٰ ، ورکنگ کمیٹی اور اکیڈیمک کمیٹی پر مشتمل تھا۔ ابتداء میں مستقل آمدنی نہ ہونے کی وجہ سے عام مسلمانوں سے روابط کا سلسلہ جوڑا گیا، یوں دارالعلوم کا تعارف دور دور تک پھیل گیا اور اس ادارے نے ایک عظیم جامعہ کا مقام حاصل کیا۔ اس درس گاہ نے مولانا محمود الحسن ، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا عبید اﷲ سندھی ، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا احمد علی لاہوری ، مولانا مفتی محمود ، مولانا عبداﷲ درخواستی اور مولانا مفتی شفیع جیسی علمی شخصیات پیدا کیں اور آج کل برصغیر کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے متعدد مدارس کا الحاق دارالعلوم دیو بند کے ساتھ ہے۔دارالعلوم دیوبند کے قیام کے وقت اسلامی مدارس میں عام طورپر ’’درس نظامی‘‘ رائج تھا۔ مگر دیو بند نے اپنے تعلیمی نصاب کو دو درجوں میں تقسیم کیا۔ پہلا درجہ جو علوم عالیہ کے نام سے موسوم تھا جس میں قرآن حکیم کی تفسیر ، اصول تفسیر ، فقہ ، اصول فقہ ، تصوف اور علم عقائد و کلام وغیرہ شامل تھے۔ جب کہ دوسرا درجہ علوم الہٰیہ کے نام سے جانا جاتا تھاجس میں ادب ، عربی ، حساب ، علم ہندسہ ، فلسفہ ، مناظرہ ، ہیئت ، اور تجوید و قرآن وغیرہ شامل تھے۔ اس کا بنیادی مقصد موجود نصاب کی تصحیح کرنا اور مسلمانوں کو بیک وقت دینی اور دنیاوی علوم ‘ اسلام کے مقرر کردہ دائرے کے اندر فراہم کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے نصاب میں دینی اور دنیاوی دونوں علوم شامل تھے۔ اس نصاب کی تکمیل بالعموم 9 سالوں میں ہوتی تھی۔دارالعلوم دیوبند کی تعلیمی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ آج بھی اس کا شمار اسلامی دنیا اور برصغیرکی بڑی درس گاہوں میں ہوتا ہے۔ جو اسلامی اور عصری علوم کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کررہی ہے اور جہاں اسلامی علوم کے ورثے کی بقا اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور عروج کو اپنا نصب العین سمجھا جاتا ہے۔

دارالعلوم ندوۃ العلماء کا بنیادی مقصد موجودہ نصاب کی تصحیح کرنا اور مسلمانوں کو بیک وقت دینی اور دنیاوی علوم اسلام کے مقرر کردہ دائرے کے اندر فراہم کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی۔ کہ اس نصاب میں دینی اور دنیاوی دونوں علوم شامل تھے۔ جس میں قرآن ، تفسیر، حدیث، تاریخ ، اور شہریت کے ساتھ ساتھ جدید علوم اردو، ہندی اور انگریزی پڑھائی جاتی تھی۔

افسوس کہ ہماری موجودہ نظام تعلیم میں دینیات کو ایک الگ مضمون کی حیثیت دی گئی ہے۔ اور باقی مضامین کو اسلامی تصور سے دور رکھا گیا ہے۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ایک مکمل نصاب ہوتا جس میں عصری علوم کے اندردینی علوم کو ضم کیا جاتا۔تاکہ افراد کی تعلیم و تربیت اسلامی عقائد و نظریات کے زیر سایہ ہوتی۔ اور اُن میں رو حانی اقدار پیدا ہوکرمعاشرے کے بہترین اور مفید شہری ثابت ہوتے۔ لہٰذا موجود نصاب کو صحیح خطوط پر استوار کر نے کی اشد ضرورت ہے۔ کہتے ہیں کہ انگریزہندوستان کے کسی ریلوے سٹیشن پر چائے پی رہا تھا۔ کہ اتنے میں ریل گاڑی آگئی۔ اس نے چائے ادھوری چھوڑنا مناسب نہ سمجھا اور چائے ٹھنڈی کرنے کی غرض سے برف کی ڈلی منگوائی۔جب ہوٹل کی انتظامیہ اور لوگوں نے انگریز کو چائے میں برف ڈالتے دیکھا۔ تو انہوں نے بھی چائے کے ساتھ برف استعمال کرنا شروع کردی۔ اور یہ بات مشہور کردی کہ برف ڈالنے سے چائے کے نقصانات کم ہوجاتے ہیں۔ یہ بات یہاں تک محدود نہیں ہے۔ اہل مشرق خصوصاً مسلمانوں نے خوراک ، لباس اور رہن سہن میں مغرب کی بے سوچے سمجھے تقلید شروع کردی۔ بلکہ اپنی تعلیم اور تعلیمی نصاب کو بھی مغرب کی بے عقیدہ سوچ کے مطابق بنا لیا ہے۔ہم مغرب کی تحقیق اور ایجادات کو استعمال کرتے ہیں، یعنی اُن کے فروٹ کو صرف کھاتے ہیں اور ہم اُن کی جڑوں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے۔مثال کے طور پر مغرب نے کافی تحقیق کے بعدکہا کہ مدرسوں میں مار پٹائی کی بجائے پیار سے پڑھنا اچھے نتائج دیتا ہے۔اَب اُن معاشروں میں مدرسوں میں مار پٹائی پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ہم نے بھی اُن کے فروٹ کو کھانا شروع کردیا اور مدرسوں میں ’’مار نہیں پیار‘‘ کا نعرہ لگا دیا۔میرے کہنے کا مقصود یہ ہے کہ اُنہوں نے اگر مار پٹائی پر پابندی لگائی ہے تو انہوں نے ضرور اس کے متبادل طریقے بھی بتائے ہوں گے کیوں کہ اُنہوں نے اس پر تحقیق کی ہے۔ اور ہم نے صرف مارپٹائی پر پابندی عائد کردی۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی و خوشحالی امت مسلمہ سے روٹھ گئی ہے۔ پس یہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نصاب کو اسلامی عقائد، اصولوں اور نظریات کے مطابق بنا لیں۔ اور ہمیں ایک ایسا نصاب تشکیل دینا ہوگا۔ جو فرد کی دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے تعمیر و تشکیل کریںَ اگر ہم آپﷺ کی تعلیمات کو اپنے سامنے رکھیں۔ تو ہمیں یہ بات معلوم ہو گی کہ معلم انسانیت حضرت محمد ﷺ نے نہ صرف دینی تعلیم پر توجہ دی۔ بلکہ دیگر مفید دنیوی علوم کے سیکھنے پر بھی خاص توجہ دی۔ حضرت زید بن ثابت ؓ نے آپؐ کے حکم سے عبرانی زبان سیکھی۔ اور جبکہ حضرت عروہ بن مسعود ؓ اور حضرت غیلان بن مسلم ؓ منجنیق کی صنعت سیکھنے کیلئے جرش نامی علاقے کو گئے۔آپؐ نے نظام تعلیم کی بنیاد قرآن کریم کی تعلیمات پر رکھی۔ بعد میں قرآن کریم کی قرأت و کتابت کے ساتھ ساتھ دیگر علوم صرف و نحو، تفسیر و حدیث ، فقہ و اصول فقہ، تاریخ و جغرافیہ ، کیمیاء ، حیاتیات، فلسفہ و منطق ، طب ونجوم اور ریاضی واقلیدس بھی نصاب کا حصہ بنتے رہے۔

پس نصاب کا اولین مقصد یہ ہونا چاہیے کہ طلبہ میں ان کے دین اور نظر یہ حیات کی آگاہی پیدا کرے۔ ا س کا مطلب یہ ہے کہ افراد کو زندگی کا مفہوم اور مقصد دنیا میں انسان کی حیثیت ، توحید ورسالت اور آخرت کے زندگی پر اثرات اور اخلاقیات کے اسلامی اصول سے آگاہ کیا جائے۔ نصاب میں یہ قوت موجود ہوکہ وہ ایسے افراد پیدا کریں۔ جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے بارے میں اسلامی نظریات پر بھر پور یقین رکھتے ہوں اور اسی یقین کی روشنی میں زندگی کے ہر میدان میں وہ اپنا راستہ خود بنا سکیں۔ قرآن حکیم کا فرمان ہے کہ اہل علم، حق اور سچائی کے گواہ ہیں ۔
 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 226 Articles with 301477 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.