حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا بلال
رضی اللہ عنہ مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگو تم نے کہیں رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو،، حضور محسن
انسانیت علیہ الصلوٰة و السلام کی جدائی اور چہرئہ اقدس کو نادیدنی کا صدمہ
ان کے لئے ناقابل برداشت بن چکا تھ پھر کہنے لگے کہ اب مدینے میں میرا رہنا
دشوار ہے، اور شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ کئی مہینے مدینے لوٹ کر نہیں
آئے،، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی ، آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :
’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری
ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘
خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر لبیک! یا سیدی یا رسول اﷲ!
کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ۔7دن اور 7راتیں سوائے نماز اور
حاجت کے آپ کہیں نہیں رکے، چل سو چل.. چل سو چل.. جب مدینہ منورہ میں داخل
ہوئے تو سب سے پہلے مسجدِ نبوی پہنچ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نگاہوں
نے عالمِ وارفتگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔
کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اور عرض
کیا : یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ، غلام حلب سے بہرِ
ملاقات حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر انوار کے پاس گر
پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ
مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان،
مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے کہ بلال! ایک دفعہ وہ اذان
سنا دو جو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔ آپ
رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جب اذان پڑھتا تھا
تو اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت
سے مشرف ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو
ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے
سفارش کروائی جائے، جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے کہیں گے
تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی
اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :
’’اے بلال! ہم آج آپ سے وہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ (ہمارے ناناجان)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مسجد میں سناتے تھے۔‘‘
اب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو انکار کا یارا نہ تھا، لہٰذا اسی مقام پر
کھڑے ہوکر اذان دی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں
دیا کرتے تھے۔ بعد کی کیفیات کا حال کتبِ سیر میں یوں بیان ہوا ہے :
’’جب آپ رضی اللہ عنہ نے (بآوازِ بلند) اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہا، مدینہ منورہ
گونج اٹھا (آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا)، جب
أشهد أن لا إلٰه إلا اﷲ کے کلمات ادا کئے گونج میں مزید اضافہ ہو گیا، جب
أشهد أنّ محمداً رسول اﷲ کے کلمات پر پہنچے تو تمام لوگ حتی کہ پردہ نشین
خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں، (رقت و گریہ زاری کا عجیب منظر تھا)
لوگوں نے کہا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ سب کو
زمانہ نبوت یاد آ گیا اور مسجد نبوی بھر گئی ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے وصال کے بعد مدینہ منورہ میں اس دن سے زیادہ رونے والے مرد و زن نہیں
دیکھے گئے۔
ہر طرف کہرام مچ گیا آپ محبت رسولؐ میں بے ہوش ہو کر گرگئے اور بعد میں
مدینہ منورہ چھوڑ گئے اور واپس شام چلے گئے۔ 20 ہجری میں آپ کا وصال ہوا
اور آپ کو دمشق میں باب الصغیر کے قریب دفن کیا گیا جب آپ کے وصال کی
خبرسیدنا فاروق اعظمؓ کو ملی تو آپ روتے روتے نڈھال ہو گئے آپ روتے جاتے
تھے اور کہتے جاتے تھے کہ آہ ! ہمارا سردار بلالؓ بھی ہمیں جدائی کا داغ دے
گیا آپ وہ عاشق رسولؐ تھے جب یار کو دیکھا تو سب برداشت کر لیا مگر دامن
مصطفیؐ نہ چھوڑا ۔ علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ اذانِ بلال رضی اللہ عنہ کو
ترانۂ عشق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اُس کے نظارے کا اک بہانہ بنی ❣️
اللہ کریم آپ کے عشق کا ایک ذرہ ہم سب کو بھی عطا فرمائے اورسیدنا حضرت
بلال حبشیؓ جیسے عظیم صحابی رسول کے صدقے امت مسلمہ کی بخشش فرمائے۔
|