کیا جہیز تعلیم کی کمی کو پورا کر سکتا ہے؟ - ایک مرد ایک کہانی

image


لیبر روم کے باہر کھڑے ہوئے احمد بار بار بند دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ جیسے ہی دروازہ کھلا وہ تیزی سے دروازے کی جانب بڑھے ڈاکٹر نے ان کی گود میں ایک نوزائيدہ بچی کو ڈالتے ہوئے ان کو بیٹی کی پیدائش کی خوشخبری کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ ان کی بیوی کی زندگی کو بچانے کے لیے ان کو کچھ فیصلے کرنے پڑے اور ان کی بیوی اب ماں نہیں بن سکیں گی ۔

ڈاکٹر کی یہ بات سنتے ہی احمد صاحب کی آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا اور وہ بے ساختہ پاس پڑی بنچ پر بیٹھ گئے ۔ ان کی چار سالہ بیٹی انوشہ نے باپ کی حالت سے بے خبر ان کی گود میں موجود چھوٹی بہن کو پیار کرتے ہوئے احمد صاحب کو مخاطب کیا تو وہ ہوش میں آگئے اور انہوں نے انوشے کو گلے سے لگا لیا ۔ ان کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آگئے جو نہ جانے بیوی کی زندگی بچ جانے کی خوشی میں تھے یا ایک اور بیٹی کی پیدائش کے تھے یا اولاد نرینہ سے محرومی کے تھے ۔ اس پل احمد صاحب نے ایک فیصلہ کیا کہ کیا ہوا جو اللہ نے مجھے بیٹے سے نہیں نوازا میں ان بیٹیوں کی پرورش بھی بیٹوں کی طرح ہی کروں گا-

چھوٹی بیٹی کا نام انہوں نے علیزے رکھا اور اس دن کے بعد سے ان بچیوں کی بہترین پرورش میں جت گئے ان کی بیوی کبھی بیٹا نہ ہونے کا خدا سے گلہ بھی کرتیں تو وہ ان کو یہ کہہ کر چپ کروا دیتے کہ میری بیٹیاں بیٹوں سے بھی بڑھ کر ثابت ہوں گی-

وقت اپنی رفتار سے گزرتا جا رہا تھا ۔ احمد صاحب نے دن میں تین تین جگہ نوکریاں کر لی تھیں تاکہ ان کی بیٹیوں کی تعلیمی ضروریات میں کسی بھی قسم کی کمی نہ ہو ۔ ان کی بیوی کہا کرتی تھیں کہ بیٹیوں کی تعلیم پر اتنا خرچہ کرنے کے بجائے یہی پیسہ ان کے جہیز کے لیے جمع کیا جائے تو کم از کم ان بچیوں کے رشتوں میں آسانی ہو جائے گی مگر احمد صاحب ان کی اس بات کو ہنسی میں اڑا دیا کرتے تھے کہ میری بیٹیاں نہیں ہیں بیٹے ہیں تم ان کی شادی کے لیے پریشان نہ ہو-

انوشے نے ڈاکٹری کا امتحان پاس کر لیا تھا جب کہ علیزے کا داخلہ اب انجنئيرنگ کالج میں ہو گیا تھا ۔ اسی دوران احمد صاجب کی زندگی کی ساتھی ان کو خدا حافظ کہہ کر اللہ تعالیٰ کے بلاوے پر لبیک کہہ کر تنہا چھوڑ گئیں۔ انوشے کی ہاؤس جاب چل رہی تھی احمد صاحب کو بیوی کی موت کے بعد محسوس ہوا کہ ان کی بیوی ایک بڑا کام ادھورا چھوڑ گئی ہیں اور وہ ہے ان بچیوں کی شادی-
 

image


احمد صاحب کو اب کام پر جاتے ہوئے ان بچیوں کی فکر بھی پریشان کیۓ رہتی تھی مگر ان کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ ان کی شادیوں کے لیے کیا کریں ۔ اریب قریب کے لوگوں کو بھی انہوں نے بیٹیوں کے رشتوں کا کہہ رکھا تھا مگر کوئی مناسب رشتہ ان کو نہیں مل رہا تھا ۔ جو بھی لوگ آتے تھے ان کو ان کی پڑھی لکھی بیٹی کے ساتھ ایک لمبی لسٹ جہیز کی بھی چاہیے ہوتی تھی مگر احمد صاحب کے پاس تو جو کچھ بھی تھا انہوں نے بچیوں کی پڑھائی پر لگا دیا تھا- ان کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ لوگوں کی ان ڈیمانڈز کو کیسے پورا کریں -

جو بھی آتا لڑکی کو دیکھتا ، باتوں باتوں میں اپنی خواہشات بتاتا اور انکار پر پلٹ کر دوبارہ شکل نہ دکھاتا ۔ احمد صاحب کو اب محسوس ہونے لگا تھا جیسے انہوں نے اپنی بیوی کی بات نہ مان کر بہت بڑی غلطی کی ہے انہیں بچیوں کو تعلیم کے زيور سے آراستہ کرنے کے بجائے جہیز کے زیور سے آراستہ کرنا چاہیے تھا تاکہ ان کے رشتے آسانی سے ہو جاتے-

اسی دوران انوشے کے ایک کلاس فیلو کا رشتہ اس کے لیے آیا جو خود بھی ڈاکٹر تھا اور انوشے کو پسند کرتا تھا ۔ احمد صاحب کو وہ لڑکا بہت پسند آیا مگر اس کے گھر والے کچھ لالچی لگے مگر لڑکے کی پسند کے سبب چپ تھے احمد صاحب نے اس رشتے کو قبول کرنے میں دیر نہ لگائی اور اس کے لیے ہاں کر دی
نکاح کی تقریب سادگی سے ارینچ کی گئی- جس میں لڑکے والوں کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ اگر آپ جہیز نہیں دے رہے ہیں تو کم از کم اپنا مکان ہی بیٹی کے نام کر دیں جس پر احمد صاحب سے کہا کہ پورا مکان تو وہ ایک بیٹی کے نام نہیں کر سکتے ہیں البتہ وہ آدھا مکان انوشے کے نام کر سکتے ہیں- مگر اس کے سسرال والوں کو یہ بات پسند نہ آئی اور وہ بارات واپس لے گئے-

اس دن احمد صاحب کو دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا اب اس گھر میں انوشے اور علیزہ تنہا رہتی ہیں ۔ دونوں بہنیں نوکری کرتی ہیں انہیں مالی اعتبار سے کسی بھی قسم کی پریشانی نہیں ہے مگر اس محلے کے لوگوں نے ان کو دیکھتے ہوئے اپنی بیٹیوں کو اعلی تعلیم دلوانے سے اجتناب برتنا شروع کر دیا ہے اور اس کی جگہ پر ان کا جہیز جوڑنا شروع کر دیا ہے-

YOU MAY ALSO LIKE: