بسم اﷲ الرحمن الرحیم
’’موسم گرما‘‘ کی بہ نسبت ’’موسم سرما‘‘ اِس لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے
کہ اس میں انسان بہت سارے ایسے نیک کام جو گرمی کی تیزی اور حرارت کی شدت
کی وجہ سے اُس طرح سے انجام نہیں دے پاسکتا،جیسا کہ موسم سرما میں خوب دل
جمعی اور یک سوئی کے ساتھ انجام دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر موسم گرما کا
روزہ گرم اور سخت ہونے کے ساتھ ساتھ 14 سے 16گھنٹوں جیسے طویل دورانیے پر
محیط ہوتا ہے، جب کہ اُس کی بہ نسبت موسم سرماکا روزہ سرد اور نرم ہونے کے
ساتھ ساتھ 11 سے 12 گھنٹوں جیسے قصیر دورانیے پر محیط ہوتا ہے۔
اسی طرح موسم گرما میں انسان گرمی کی شدت اور حرارت کی تیزی کی وجہ سے اُس
وقت تک کامل خشوع و خضوع کے ساتھ نمازِ پنج گانہ صحیح طرح سے ادا نہیں
کرسکتا جب تک کہ اُس کے لئے گرمی اور حرارت سے بچاؤ( مثلاً کسی درخت یا
عمارت کی چھاؤں،پنکھا، ائیر کولر،اور ائیر کنڈیشن وغیرہ) کا کامل بند و بست
نہ ہوسکے۔ جب کی اُس کی بہ نسبت موسم سرما میں سردی کی شدت اور ٹھنڈک کی
تیزی سے بچنے کی یہ تدابیر انسان بآسانی اپنے لئے مہیا کرسکتا ہے کہ کسی
مسجد یا کمرے میں داخل ہوکر دروازہ بند کرلے یا کسی کونے گوشے میں جاکر گرم
ہوکر اپنی نماز خوب توجہ اور دھیان کے ساتھ ادا کرلے۔
موسم سرما کے دنوں کو اِس طرح مفید اور کار آمدبنایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ
زندگی میں (مرض، سفر، کاہلی و سستی یا کسی اور وجہ سے) انسان کے ذمے اگر
روزوں کی قضاء باقی ہو یا ویسے ہی وہ نفلی عبادت کے طور پر روزے رکھنا
چاہتا ہے تو موسم سرما میں یہ عبادت بڑی سہولت اور آسانی کے ساتھ ادا کی
جاسکتی ہے۔ خاص طور پر اُن خواتین کے لئے (جن کے روزے اکثر ماہواری یا بچہ
کی پیدائش کی وجہ سے رہ جاتے ہیں) یہ موسم انتہائی اہمیت اور نعمت غیر
مترقبہ کا حامل ہے کہ وہ اِس میں اپنے گزشتہ روزوں کی قضاء بجا لاسکتی ہیں۔
اور موسم سرما کی راتوں کو اِس طرح نفع بخش و سود مند بنایا جاسکتا ہے کہ
رات کو آدمی جلدی سوجائے اور شب کے پچھلے پہر بیدار ہوکر اپنے خالق حقیقی
کے سامنے راز و نیاز کے لئے کھڑا ہوجائے۔ پھر نمازِ تہجد کی حسبِ توفیق چند
رکعات ادا کرے۔اُس کے بعد خوب گڑ گڑاکر انتہائی لجاجت اور سماجت کے ساتھ
بارگاہِ ایزدی میں اپنے ہاتھ دُعاء کے لئے اُٹھائے اور اپنی ذات کے لئے
اپنے والدین اور اساتذہ کے لئے اور تمام اُمت مسلمہ کے لئے اﷲ تعالیٰ سے
اُس کے فضل و رحم کا سوال کرے ، اُس سے سب کے لئے دُنیا و آخرت کی بھلائیاں
اور اچھائیاں طلب کرے ۔ ضرورت مندوں اور محتاجوں کی مطلب برآری کے لئے
دُعاء کرے۔
چناں چہ حضرت عبد اﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور اقدس صلی اﷲ
علیہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو لوگ آپ صلی اﷲ علیہ مدینہ کی طرف دوڑنے لگے
اور کہنے لگے کہ حضور صلی اﷲ علیہ مدینہ تشریف لائے ہیں ، میں بھی لوگوں کے
ساتھ آیا تاکہ دیکھوں (کہ واقعی آپ صلی اﷲ علیہ مدینہ نبی ہیں یا نہیں)میں
نے آپ صلی اﷲ علیہ مدینہ کا چہرہ مبارک دیکھ کر کہا کہ یہ چہرہ جھوٹے شخص
کا نہیں ہوسکتا، وہاں پہنچ کر جو سب سے پہلا ارشاد حضور صلی اﷲ علیہ مدینہ
کی زبان سے سناوہ یہ تھا کہ لوگو! آپس میں سلام کا رواج ڈالو اور (غرباء
کو) کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو اور رات کے وقت جب سب لوگ سوتے ہوں (تہجد
کی) نماز پڑھا کرو، تو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔‘‘(قیام
اللیل)حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ مدینہ نے
ارشاد فرمایا کہ جنت میں ایسے بالا خانے ہیں (جوآبگینوں کے بنے ہوئے معلوم
ہوتے ہیں ) اُن کے اندر کی سب چیزیں باہر سے نظر آتی ہیں۔ صحابہ رضی اﷲ
عنہم نے عرض کیا یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ مدینہ! یہ کن لوگوں کے لئے ہیں؟
حضور صلی اﷲ علیہ مدینہ نے فرمایا جو اچھی طرح سے بات کریں، اور (غرباء کو)
کو کھانا کھلائیں اور ہمیشہ روزے رکھیں اور ایسے وقت میں رات کو تہجد پڑھیں
جب کہ لوگ سو رہے ہوں۔‘‘(ترمذی، ابن ابی شیبہ)حضرت بلال حبشی رضی اﷲ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ مدینہ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’تم رات کے
جاگنے کو لازم پکڑو کیوں کہ یہ تم سے پہلے صالحین اور نیک لوگوں کا طریقہ
ہے اور رات کا قیام اﷲ تعالیٰ کی طرف تقرب کا ذریعہ ہے اور گناہوں کے لئے
کفارہ ہے، اور گناہوں سے روکنے اور حسد سے دُور کرنے والی چیز ہے۔‘‘(قیام
اللیل)حضرت ابو سعدی خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ
مدینہ نے ارشاد فرمایاکہ: ’’ تین قسم کے آدمیوں سے حق تعالیٰ شانہ بہت خوش
ہوتے ہیں، ایک اُس آدمی سے جو رات کو ( تہجد کی نماز کے لئے) کھڑا ہو،
دوسرے اُس قوم سے جو نماز میں صف بندی کرے، اور تیسرے اُس قوم سے جو جہاد
میں صف بنائے (تاکہ کفار سے مقابلہ کرے)۔‘‘(قیام اللیل)
علماء نے لکھا ہے کہ فرض عبادات کے ساتھ ساتھ آدمی کے پاس فرض عبادات کے
علاوہ نفلی عبادات کا ذخیرہ بھی ہونا چاہیے، تاکہ اگر کل قیامت کے دن فرض
عبادات میں کوئی کمی کوتاہی وغیرہ نکل آئے تو نفلی عبادات کے ذریعہ اُس کو
پورا کیا جا سکے۔ چناں چہ ایک حدیث میں آتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ
فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا
ہے کہ قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب کیا جائے
گا۔ اگر نماز اچھی نکل آئی تو وہ شخص نجات اور فلاح پانے والا ہوگا۔ اور
اگر نماز فاسد نکلی تو وہ شخص نقصان اور خسارے میں ہوگا۔ اور نماز میں کچھ
کمی پائی گئی تو اﷲ رب العزت فرمائیں گے کہ دیکھو میرے بندے کے پاس کوئی
نفلی عبادات بھی ہیں جن سے فرائض کو پورا کیا جاسکے؟ اگر نکل آئیں تو اُن
سے فرائض کی تکمیل کردی جائے گی۔ اِس کے بعد پھر اسی طرح باقی اعمال روزہ
زکوٰۃ وغیرہ کا حساب کیا جائے گا۔ (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
اِس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے پاس فرضی عبادات کے علاوہ نفلی عبادات کا
ذخیرہ بھی ضرور ہونا چاہیے، تاکہ اگر کل قیامت کے دن اُن میں کوئی کمی
کوتاہی رہ جائے تو اسے نفلی عبادات کے ذریعہ پورا کیا جاسکے ۔ اور اِس کے
لئے سب سے بہترین اور اچھا وقت موسم سرما کا ہے۔ ورنہ اگر نفلی عبادات کا
ذخیرہ پاس کچھ بھی نہیں ہوگا اور فرضی عبادات میں بھی کمی کوتاہی ہوگی تو
ایسے آدمی سے اﷲ تعالیٰ سخت ناراض ہوں گے اور اسے عذاب میں مبتلا کریں گے۔
لہٰذا موسم سرما کے اِن قیمتی لمحات کے ایام کوقضاء و نفلی روزوں کے ذریعے
مفید و کار آمد بنایا جائے۔ اور اِن کی راتوں کو قضاء و نفل نمازوں تہجد
وغیرہ کے ذریعے نفع بخش و سود مند بنایا جائے۔
|