|
جیسا کہ ان دنوں سوشل میڈیا پر اس حوالے سے پوسٹ گردش کررہی ہے کہ ماں باپ
کو طلاق یافتہ بیٹی کو قبول کر لینا چاہیے اس سے قبل کہ بیٹی مر جائے- اس
پوسٹ کے سامنے آنے کے بعد سے لوگوں کی جانب سے مختلف نظریات سامنے آرہے ہیں-
کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ اس طرح سے طلاق کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں
آئے گا مگر اس بات پر تنقید کرنے سے قبل کچھ معاملات ایسے ہیں جن کا جان
لینا ضروری ہے-
ماضی میں جب ماں باپ بیٹی کو رخصت کرتے تھے تو رخصتی کے وقت بیٹی کو رخصت
کرتے ہوئے کہا جاتا تھا کہ اب تمھارا سسرال ہی تمھارا آخری گھر ہو گا اور
ڈولی میں جا رہی ہو مگر اس گھر سے تمھارا جنازہ نکلنا چاہیے ۔ اور مشرقی
بیٹیاں ماں باپ کی اس نصیحت کو پلو سے باندھ کر ساری زندگی سسرال کے ظلم و
ستم کا سامنا کرتی تھیں اور صابر عورت کا میڈل سینے پر سجا کر ایک دن قبر
میں اتر جاتی تھیں-
|
|
مگر اب جب کہ لڑکیاں ماضی کے مقابلے میں زیادہ باشعور اور تعلیم یافتہ ہیں
اب وہ اپنے گھر والوں کے لیے معاشی لحاظ سے بوجھ نہیں ہیں- بلکہ بیٹوں کی
ہی طرح نوکری کر کے اپنی گزر بسر کر سکتی ہیں تو ایسی صورتحال میں وہ اس
بات کی خواہشمند ہوتی ہیں کہ سسرال میں ان کے ساتھ ظلم وستم نہ کیا جائے -
عام طور پر ماضی میں جب بھی لڑکی اپنے سسرال کے حوالے سے یا شوہر کے حوالے
سے کوئی بھی شکایت کرتی تھی جس میں شوہر کی مار پیٹ کی شکایت شامل ہوتی تھی
جس پر ماں باپ بیٹی کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کرتے تھے کہ یہ تو شوہر کا
حق ہے کہ وہ بیوی کو مار سکتا ہے- مگر اب حالیہ دور میں جب ایسے قوانین بن
چکے ہیں جس کے مطابق شوہر کا بیوی پر ہاتھ اٹھانا قابل سزا جرم ہے ایسی
صورتحال میں لڑکیاں ماضی کی طرح شوہروں کے ہاتھوں پٹنے کے لیے تیار نہیں
ہیں-
ایسی صورتحال میں والدین کو بھی اپنے نقطہ نظر میں تبدیلی پیدا کرنی چاہیے
اور لاڈ پیار سے پالی ہوئی بیٹیوں کو رخصت کرنے سے پہلے اچھی طرح جانچ
پڑتال کر لینی چاہیے اور بیٹی کی شکایت کو سن کر اس کے حوالے سے تحقیق کرنی
چاہیے-
|
|
اگر غلطی بیٹی کی ہو تو اس کو سمجھانا چاہیے اور اگر غلطی اس کے شوہر کی ہو
تو اس کو بھی اس کی غلطی کے بارے میں بتانا چاہیے ۔
اس بات سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کہ داماد کے سامنے سچی بات کرنے کے صورت
میں کہیں بیٹی کو طلاق نہ مل جائے ۔ اس خوف کا خاتمہ کرنا ضروری ہے تاکہ اس
کو بنیاد بنا کر کوئی آپ کی بیٹی کے اوپر ظلم کے پہاڑ نہ توڑ سکے- |