27اکتوبر1958 سے 27 اکتوبر1967 تک کا عشرہ پاکستانی سیاست
کا ایسا عرصہ ہے جس کے بارے میں جسٹس کیانی کہا کرتے تھے کہ ایوب کا آئین
لائلپور کا گھنٹہ گھر ہے جو ہر بازار سے برابر نظر آتا ہے،ایسے ہی آئین
اٹھا کر اگر دیکھا جائے تو دستور کے ہر صفحہ پر ایوب خان کا نام ہی نظر آئے
گا،بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس آئین میں وضع کردہ صدر ایوب کے
اختیارات کے بارے میں تویہ بھی کہا جاتا تھا کہ آئین ِ پاکستان کی رو سے
صدر ایوب کے پاس اتنے اختیارات ہیں کہ وہ جس عورت کو مرد اور جس مرد کو
چاہیں عورت ڈکلیر کر دیں اسے کوئی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔رہی سہی کسر EBDO
AND PRODA نے پوری کردی۔گویا ایوب خان اور بیس خاندانوں نے پاکستان کی
معیشت اور دس کروڑ کو اپنی مٹھی میں اس طرح مقید کررکھا تھا کہ یہ خاندان
جب چاہتے اپنی مٹھی کھولتے تو عوام اور معیشت کی سانس میں سانس آتی۔لیکن
تاریخ کے صفحات اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ جہاں فرعون نے خدائی دعویٰ کیا
وہاں قدرت نے ایک موسیٰ ؑ کو ضرور پیدا کیا۔ارم ذات العماد کا جب بھی تذکرہ
ہوگا تو حضرت ھود ؑ اور قدرت کی طرف سے چیخ کے عذاب کا تذکرہ قدرتی بات
خیال کی جاتی ہے،ایسے ہی جب اکتوبر 1967 میں ایوب دورِ حکومت کی کامیابی کا
جشنِ عشرہ کامیابی منایا جا رہا تھا تو ایک باغی شاعر کی صدا نے ملک کی
سہمی ہوئی سیاست اور حکومت کے ایوانوں میں بیٹھے افراد کے پیرہن کو اپنے
اشعار کی مدد سے تار تار کردیا کہ
بیس گھرانے ہیں آباد اور کروڑوں ہیں ناشاد
ہم پر اب تک جاری ہے،کالی صدیوں کی ہے داد
صدر ایوب زند ہ باد
بیس روپے من ہے آٹا،اس پر بھی ہے سناٹا
گوہر،سہگل،آدم جی بنے ہیں برلا اور ٹاٹا
ملک کے دشمن کہلاتے ہیں،جب ہم کرتے ہیں فریاد
صدر ایوب زندہ باد
یہ حبیب جالب کی نہیں دس کروڑ عوام کی صدا ،للکار اور پکار تھی جس نے دس
سال تک بے صدا رہنے والے عوام کے منہ میں زبان دی۔گویا جالب نے عوام کے منہ
میں انگارے بھر دیے اب یہ آواز صرف ایک مرد حر یا آدم قلندر کی نہیں بلکہ
دس کروڑ جنہیں جالب خود بھی جہل کا نچوڑ کہہ کر پکارتے تھے ان کے دل کی
دھڑکن بن گئی تھی۔ایوب خان کا چونکنا عین فطرتی تھی لہذا انہوں نے مغربی
پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان کے ذریعے شراب اور پستول کے الزام میں
پس ِ دیوارِ زنداں ڈال دیا۔بعدازاں صدر پاکستان کے پریس سیکرٹری الطاف گوہر
کے ذریعے جالب کی رہائی کو ممکن بنایا گیا ،لیکن جالب کی آواز اور خیالات
کو دبایا نہ جا سکا بلکہ ان کے اشعار کا یہ مصرعہ زبان زدِ عام ہو گیا کہ
بیس روپے من ہے آٹا،اس پر بھی ہے سناٹا
انسانی معاشروں میں انسانی رویوں کی تبدیلی،سماجی انقلابات اور عوامی
زیردستیوں پر ہمیشہ ہی ادیبوں،شعرا اور اہل فکر ودانش نے اپنا اپنا اہم
کردار ادا کیا ہے،اگر میکسم گورکی،ٹالسٹائی،چیخوف اور شولو خوف اپنا اپنا
قلم استعمال نہ کرتے تو انقلاب روس کبھی بھی کامیابی سے ہمکنار نہ
ہوتا۔والٹئیر اور روسو نے صدیوں سے غلام معاشرہ کو نئی جہت،فکر،سوچ ، فلسفہ
اور حرمت انسانیت سے روشناس کرایا اوراس طرح انقلاب فرانس نے فکر کے نئے
دھارے دنیا کے سامنے پیش کئے۔
حالیہ حکومت نے جب سے زمام اقتدار سنبھالا ہے نت نئے چیلنجز،مسائل اور بلیک
میلنگ کا سامنا رہا ہے ،کبھی مہنگائی،کبھی یو ٹرن،کبھی قرضے،کبھی ٹیکس اور
اب آٹا کی قیمت کا بڑھ کر ستر روپے فی کلو کا ہو جانا۔اگرچہ پیٹی آئی حکومت
نے چند روز قبل ہی یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے سے دالیں،گھی اور چاول کے سستے
ہونے کی نوید کو عوام کو سنائی تھی لیکن آٹی کی قیمت میں اضافہ نے حکومت کے
اس فعل پر پانی پھیر دیا،دوسری بات یہ کہ پورے ملک میں یوٹیلیٹی سٹورز کا
نیٹ ورک اتنا نہیں ہے کہ عوامی امنگوں،ضروریات اور طلب پر پورا اتر سکے
جیسے کہ اگر ایک شہر کی آبادی اگر چار لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور اس میں
حکومت کے صرف ایک یا دو سٹورز ہوں تو کبھی بھی ان میں موجود اشیا عوام کی
طلب اور ضروریات کو پورا کر سکنے کا باعث ہو سکے گی۔مجھے یوں محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے عمران خان تو چاہتا ہے کہ ملک کی تقدیر بدلی جائے لیکن کچھ غیر
مرئی طاقتیں شائد ایسا ہونے نہیں ہونے دے رہیں۔خان صاحب کو مہنگائی کی
عفریت اور جن پر قابو پانے لئے ٹھوس اور عملی اقدام کرنا ہوں گے،فلور ملوں
کی بندش،سٹور پر چھاپے،دکانیں بند کروانا اور ضروریات زندگی کا مہنگے سے
مہنگے ہوتے جانا حکومت کی ناکامی کی طرف دھکیل رہی ہے،اور پی ٹی آئی حکومت
کو مہنگائی کے اس جن کو سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ مخلص نمائندوں کے تعاون
سے قابومیں کرنا ہوگا،وگرنہ بیس روپے من آٹا سے اگر حکومت گر سکتی ہے تو
ستر روپے کلو کا نعرہ اور عوامی صدا بھی حکومت کے لئے مشکلات کا باعث بن
سکتی ہے۔اس لئے خان صاحب اس عوامی مسئلہ کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کا
سوچیں وگرنۃ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ
توں کیہہ جانے یار امیرا
روٹی بندہ کھا جاندی اے |