خُلع کا عادلانہ نظام

 دینِ اسلام کی رو سے نکاح ایک ایسا پاکیزہ رشتہ ہے ، جسے ایک بار قائم ہونے کے بعد ہمیشہ باقی رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنا لازم و ضروری قرار دیا گیاہے ۔ تفریقِ زوجین خواہ کسی طریقے سے ہو‘ اسلام میں شدید ضرورت کے تحت مشروع ہے اور اگر زوجین میں ناچاقی اس حد تک بڑھ جائے کہ تفریق کا اندیشہ ہونے لگے ، اس سے قبل باہم مصالحت کی ہر ممکن کوشش کی ہدایت قرآن مجید میں موجود ہے ۔اس کے باوجود اسلامی نظامِ طلاق و خلع وغیرہ پر جو چو طرفہ چے می گوئیاں کی جاتی ہیں، انتہائی نامناسب اور اعتدال سے پَرے ہیں۔ اسی کے پیشِ نظر راقم الحروف نے ’خلع کا نظام‘ کے عنوان سے تقریباً ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ایک مدلل و محقق کتاب تصنیف کی ہے ، جس کے چند اقتباسات افادۂ عام کی غرض سے ہدیۂ قارئین کیے جارہے ہیں۔

پورے معاشرے کی ذمّہ داری
ارشادِ ربانی ہے :وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَا، اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُمَا، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا۔اور اگر تمھیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو تو(ان کے درمیان فیصلہ کروانے کے لیے) ایک منصف‘ مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف‘ عورت کے خاندان میں سے بھیج دو، اگر وہ دونوں(منصف) اصلاح کرانا چاہیں گے تو اﷲ دونوں (شوہر و بیوی)کے درمیان اتفاق پیدا فرما دے گا، بے شک اﷲ کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے۔[النساء]

اس آیت میں خطاب عام امتِ اسلامیہ کو ہے اور حکام اور اہلِ حل وعقد کو بدرجۂ اولیٰ۔’بینھما‘یعنی میاں بیوی کے درمیان،’شقاق‘یعنی ایسی کشمکش جسے وہ باہم نہ سلجھاسکیں۔ امت اور افرادِ امت کا ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہے ، افراد کے باہمی اور خانگی مناقشوں سے معاشرۂ اسلامی کا دامن بالکل الگ اور بے تعلق نہیں کہ افراد ہی کی صالحیت پر امت کی صالحیت کا مدار ہے ۔ آیت میں اس کی تعلیم ہے کہ افراد کی خانگی نزاعوں کو امت اپنا ہی معاملہ سمجھے ۔ ’ان خفتم‘خوف یہاں بھی علم کے معنی میں ہے ۔’فابعثوا‘ یعنی تصفیے کی غرض سے ان دو حکموں کو ان میاں بیوی کے پاس بھیجو۔میاں بیوی میں نزاع ہونے میں یہ ہرگز نہ ہونا چاہیے کہ فوراً طلاقم طلاق ہوجائے یا اور کسی ایسی ہی شدید کاروائی کی نوبت آجائے ، بلکہ پہلے یہ کوشش مصالحت ومفاہمت کی کرلی جائے ۔ رشتۂ ازدواج ایک اہم ترین رشتہ ہے ، اس پر بے پروائی سے ضرب نہیں لگائی جاسکتی۔ فقیہِ تھانوی رحمہ اﷲ نے لکھا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا واجب ہے ‘ اگر زوجین حکام سے رجوع کریں، اور دوسروں کے لیے مستحب ہے ۔ اور من اھلہ واھلھا کی قید سب کے لیے مستحب ہے ۔(تفسیرِ ماجدی)

خلع کے اصطلاحی معنی
شریعت کی اصطلاح میں خلع کے معنی ہیں ’ملکیتِ نکاح کو مال کے عوض میں لفظِ خلع کے ساتھ زائل کرنا‘ یا ملکیتِ نکاح ختم کرنے کے لیے لفظِ خلع کے ساتھ اپنی بیوی سے مال لینا، جس کی توضیح یہ ہے کہ اگر میاں بیوی میں اختلاف اس حد تک پہنچ جائے کہ دونوں میں کسی طرح نباہ نہ ہو سکے اور مرد طلاق بھی نہ دیتا ہو تو عورت کے لیے جائز ہے کہ مہر معاف کرکے یا کچھ مال وغیرہ دے کر اس سے نجات حاصل کرلے ۔ جیسے اپنے شوہر سے یوں کہے کہ اتنا روپیہ لے کر یا جو مہر تمھارے ذمّے ہے اس کے عوض مجھے خلع دے دو اور اس کے جواب میں شوہر کہے کہ میں نے خلع دے دیا، تو اس سے عورت پر ایک طلاقِ بائن پڑجائے گی اور دونوں میں جدائی ہوجائے گی۔(مرقاۃ)

اسلام میں اولین خلع
امام ابن جریر نے حضرت عکرمہؒ سے روایت کیا ہے کہ ان سے دریافت کیا گیا؛خلع کی اصل کیا ہے ؟انھوں نے فرمایا:حضرت ابن عباسؓ فرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں پہلا خلع عبد اﷲ بن ابی کی بہن کا تھا، وہ رسول اﷲﷺ کے پاس آئیں اور (اپنے شوہر کے متعلق) عرض کیا: اے اﷲ کے رسول! میرا سر اور ان کا سر کبھی جمع نہیں ہو سکتے ۔میں نے پردہ اٹھایا تو میں نے انھیں مَردوں کے ایک گروہ میں آتے ہوئے دیکھا، وہ تمام لوگوں سے زیادہ سیاہ اور کوتاہ قد اور بد صورت تھے ۔ انھوں نے آکر عرض کیا:اے اﷲ کے رسول!میں نے اسے (بہ طور مہر) اپنا بہترین مال دیا تھا یعنی اپنا باغ، کیا یہ وہ باغ واپس کریں گی؟رسول اﷲﷺ نے ان سے پوچھا:تم کیا کہتی ہو؟انھوں نے کہا:وہ باغ بھی واپس کر دوں گی اور اگر چاہیں تو کچھ زیادہ بھی دے دوں گی۔راوی کہتے ہیں کہ آپﷺ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کروا دی۔(الدر المنثور)

خدائی ضابطے
ارشادِ ربانی ہے : وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ شَیْئًا اِلَّا اَنْ یَّخَافَآ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ،فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ، تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْھَا،وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔(البقرۃ) تمھارے لیے یہ بات حلال نہیں کہ بیبیوں کو چھوڑنے کے وقت ان سے کچھ بھی لوگو وہ لیا ہوا اس مال میں سے کیوں نہ ہو جو تم ہی نے ان کو مہر میں دیا تھا، مگر ایک صورت میں البتہ حلال ہے ، وہ یہ کہ کوئی میاں بی بی ایسے ہوں کہ دونوں کو احتمال ہو کہ اﷲ تعالیٰ کے ضابطوں کو جو دربارۂ ادائے حقوقِ زوجیت ہیں قائم نہ کرسکیں گے ، سو اگر تم لوگوں کویعنی میاں بی بی کو یہ احتمال ہو کہ وہ دونوں ضوابطِ خداوندی کو قائم نہ کرسکیں گے تو دونوں پر کوئی گناہ نہ ہوگا اس مال کے لینے دینے میں، جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے بہ شرط یہ کہ مہر سے زیادہ نہ ہو، یہ سب احکام خدائی ضابطے ہیں، سو تم ان سے باہر مت نکلنا اور جو شخص خدائی ضابطوں سے باہر نکل جائے ، سو ایسے ہی لوگ اپنا نقصان کرنے والے ہیں۔(بیان القرآن)

اسلام کی رحمت و شفقت
اس آیت میں شرعی عذر کی بنا پر خلع لینے والی عورتوں کے لیے ’لا جناح‘ کہہ کر اﷲ تعالیٰ نے انھیں سماج کے طعنوں سے نجات دے دی اور پندرہ سو سال قبل انھیں وہ حق فراہم کیا جو بعض قوموں میں آج تک حاصل نہیں کہ جب ازدواجی زندگی میں نباہ نہ ہو سکے تو شوہر کو فدیے پر راضی کر کے خلاصی حاصل کر لی جائے ۔(تفسیر المنار) افسوس کہ اس کے بعد بھی نظامِ اسلام میں ترمیم کی رائیں دی جاتی ہیں۔

طلاق علی المال کی دو صورتیں
عورت سے مال ٹھہرا کر چھوڑنا ‘ اس کی دو صورتیں ہیں؛ ایک خلع، دوسرا طلاق علی المال۔ خلع یہ ہے کہ عورت کہے کہ تو اتنے مال پر مجھ سے خلع کر لے اور مرد کہے مجھ کو منظور ہے ۔ اس کے کہتے ہی گو لفظِ طلاق نہ کہے ، طلاقِ بائن واقع ہو جائے گی اور اسی قدر مال عورت کے ذمّے واجب ہو جائے گا۔ طلاق علیٰ مال یہ ہے کہ مرد عورت سے کہے کہ تجھ کو اس قدر مال کے عوض طلاق ہے ، اس کا حکم یہ ہے کہ اگر عورت منظور نہ کرے تو طلاق واقع نہیں ہوتی اور اگر منظور کر لے تو منظور کرتے ہی طلاقِ بائن واقع ہو جائے گی اور اس قدر مال عورت کے ذمّے ادا کرنا واجب ہو جائے گا۔(بیان القرآن)

عورتوں کا استحصال
شریعتِ اسلامی اور اس کے مزاج سے صحیح واقفیت نہ رکھنے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ فدیے کے بدلے میں عورت کو رشتۂ ازدواج سے آزاد کرنا عورتوں کا استحصال کرنا ہے ، جب کہ خلع عورتوں کے حق میں ایسی بڑی نعمت ہے جس پر جتنا غور کیا جائے ‘ اس کی معنویت کا اندازہ ہوتا چلا جائے گا۔ تھوڑے بہت فدیے کے عوض بھی کسی انسان کو ظلم سے نجات مل جائے ، اس کے حق میں اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے ۔جب کہ علماے اسلام نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ عورتوں کو تکلیف پہنچانے کی غرض سے تھوڑا مال لینا بھی ہرگز درست و جائز نہیں۔علامہ طبریؒ نے لکھا ہے کہ شوہر کا اپنی بیوی سے اکراہ و زبردستی کے ساتھ تکلیف پہنچانے کی غرض سے مال لینا، تاکہ وہ اسے کچھ دے کراس سے علاحدگی حاصل کر لے ‘ حرام ہے ، خواہ وہ جَو کے ایک دانے کے برابر ہو یا اس سے زیادہ۔(تفسیرِ طبری)

خدائی ضابطوں کا لحاظ
یہاں اﷲ تعالیٰ نے نکاح و فراق کے احکام بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ارشاد فرمایاہے : تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْھَا،وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔یہ خدائی ضابطے ہیں، سو تم ان سے باہر مت نکلنا اور جو شخص خدائی ضابطوں سے باہر نکل جائے ، سو ایسے ہی لوگ اپنا نقصان کرنے والے ہیں۔(البقرۃ)جس طرح روزے کی تحریمات کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے : ’تلک حدود اﷲ، فلا تقربوھا‘ اور حدود کو دو قسموں میں تقسیم کر دیا ہے ، ان میں سے ایک وہ حدودالامر ہیں‘ جن کی پیروی لازم ہے اور دوسری حدود النہی ہیں‘ جن سے اجتناب لازم ہے ۔ اس کے بعد خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ومن یتعد حدوداﷲ فأولٰئک ہم الظالمون۔ جو شخص خدائی ضابطوں سے باہر نکل جائے ، سو ایسے ہی لوگ اپنا نقصان کرنے والے ہیں۔ (القرطبی)اﷲ تعالیٰ ہم سب کو مکمل نظامِ اسلام کو سمجھنے اور اسے اپنی زندگیوں میں اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے ، آمین۔

Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347143 views (M.A., Journalist).. View More