آج کل چند لوگ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں میں بد
عقیدگیاں پیدا کر رہے ہیں اور مسلمانوں میں اس بات کو عام کر رہے ہیں کہ
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی نبی آجائے تو محمد صلی اللہ علیہ
وسلم کی نبوت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور یہ لوگ قرآن کی ایک آیت کا سہارا
لے کر مسلمانوں کے ایمان کے ساتھ کھیلتے ہیں۔
اللہ تعالی قرآن پاک میں ارشاد فرما تا ہے:
ترجمہ: محمدصلی اللہ علیہ وسلم تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، بلکہ
وہ اللہ کے رسول اور نبیوں کی مہر (یعنی آخری نبی) ہیں اور اللہ سب جانتا
ہے۔ (سورۃالا حزاب،آیت :40)
ان لو گوں کا کہنا ہے کہ اس آیت میں ضروری نہیں کہ آخری نبی کا مطلب تعداد
کے اعتبار سے آخری ہو،جیسے: کسی کی تقریر سے متا ثر ہو کر ہم یوں کہہ دیتے
ہیں کہ ان کی یہ تقریرآخر ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ یہ تقریر
تعداد کے اعتبار سے آخری ہے، بلکہ صفات کے اعتبار سے یہ آخری ہےیعنی اِن
صاحب نے صفات کے لحاظ سے ایسی تقریر کبھی نہیں کی۔ایسے ہی اللہ نے محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کوصفاتی طور پر آخری نبی بنا یا ہے، یعنی ایسی صفات اللہ نے
کسی کو عطا نہیں کیں،لہذا یہاں آخری نبی صفاتی طور پر مُراد ہیں ، تعداد کے
اعتبار سے نہیں۔
الجواب: اللہ عالمُ الغیب ہے، اس نے قرآن میں ایسے الفاظ ہی استعمال نہیں
کئے جن میں کچھ شک و شبہ کی گنجائش ہو۔اللہ نے اس آیت میں "خا تم " کے لفظ
کا چُناؤ کیا ہے جس کا معنیٰ "مہر لگانا" ہے۔
مہر دو(2) طرح کی ہوتی ہے: اسٹیمپ (Stamp)اورسِیل (Seal)
عمومًا مہر کی ان اصطلاحات سے لوگ نا واقف ہیں اور دونوں قِسم کی مہروں کو
اسٹیمپ ہی کہہ دیتے ہیں۔
اسٹیمپ(Stamp) وہ مہر ہوتی ہے جو تصدیق(Verification) کیلئے لگائی جاتی ہے،
جیسے: کسی ادارے میں داخلے کیلئے اپنے تعلیمی اور شہری کاغذات کو اٹیس
(Attest)کراتے ہیں جس میں گورنمنٹ آفیسر تصدیق کرتا ہے کہ یہ کاغذات درست
ہیں۔
سیل (Seal) وہ مہر ہوتی ہے ، جوکام مکمل ہو جانے کے بعد لگائی جا تی
ہے،جیسے: ہم فارم(Form) اور تصدیق شدہ کاغذات (Attested Documents) کو کسی
ادارے میں جمع کراتے ہیں، اگر سب کاغذات درست ہوتے ہیں تو ادارے کی مہر لگا
کر انہیں جمع کر لیا جاتا ہے۔ یہ مہر ظاہر کرتی ہے کہ داخلے کی ساری
ضروریات (Requirements)مکمل ہیں۔
اب اگر اس آیت میں مہر بامعنیٰ اسٹیمپ ہے، تو اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ محمد
صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کی تصدیق ہیں۔ یعنی اِس معنیٰ کے تحت اب اگر کوئی
شخص نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو اُس کو اپنی نبوت ظاہر کرنے کیلئے نبی پاک
صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق لانی ہوگی، جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم
نے صاف ارشاد فرمایا:
خُتِمَ بِیَ الرُّسُل
ترجمہ: رسولوں کا سلسلہ مجھ پر ختم کردیا گیا ہے۔
(بخاری، مسلم، مشکوٰۃ)
اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی
تصدیق نہیں کی بلکہ صاف بتا دیا کہ میرے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔
اور اب اگر اس آیت میں مہر بامعنیٰ سیل ہے، تو سیل کام مکمل کرنے کے بعد
لگائی جاتی ہے یعنی اِس معنیٰ کے تحت یہ واضح ہوگیا کہ نبوت کا سلسلہ مکمل
ہوگیا اور نبی پاک محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کی سیل ہیں۔
اس آیت سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی محترم محمد صلی اللہ علیہ وسلم
صفاتی طور پر آخری نبی ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صفاتی طور پر بھی آخری
نبی ہیں اور تعداد کے اعتبار سے بھی اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
ذریعے نبوت کا دروازہ بند کردیا۔ مسلمان ہونے کیلئے عقیدہ ختمِ نبوت رکھنا
لازمی ہے، اگر کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی
اور نبی آسکتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے
عقائد کی حفاظت فرمائے۔ آمین
بجھ گئیں جس کے آگے سبھی مشعلیں
شمع وہ لے کر آیا ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم
|