ریاست مدینہ کا خواب

صحیح العقیدہ مومن ہی مسلم معاشرے کی اساس ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے اور اللہ سے ڈرانے والے ہیں۔ وہی اس دیمک زدہ کرپٹ معاشرے کو سدھار سکتے باقی تو سارے کرپشن کرنے اور معاشرے کو بگاڑنے کا کام کرنے والے ہی ہیں۔

ہمارے وزیر اعظم صاحب نے 90 دنوں میں برسوں کی کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ کیا اور پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا خواب دکھایا۔ آج جب کہ وطنِ عزیز میں کرپٹ لوگوں کی اکثریت ہے ایسا کہنا ایک عبث کہ سوا کچھ نہ تھا اور اب یہ ثابت بھی ہو چکا ہے کہ انہوں نے جیسا دعویٰ کیا تھا ویسا کر نہ سکے۔ آج بھی کرپشن ہے اور کرپشن کی چکی میں بلبلاتی عوام ہے اور وہی پاکستان ہے۔

افسوس کہ وزیر اعظم صاحب مسلمان ہونے کے باوجود نبی کریم ﷺ کی زندگی سے اس بارے میں کوئی سبق نہیں لیا اور اسلام نے کرپشن ختم کرنے کے جو طریقے وضع کئے ہیں اس کا مطالعہ بھی نہیں کیا۔

کسی بھی معاشرے کو سدھارنے کا کام آسان نہیں ہوتا۔ نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی راہنمائی اور وحی کی روشنی میں عرب کے بگڑے ہوئے معاشرے کو سدھارنے کا کام 23 برسوں میں مکمل کیا۔ آپ ﷺ خود صادق اور امین تھے۔ آپ ﷺ مکہ میں 13 سال کی مسلسل محنت سے اپنے جیسے اوصاف کے حامل صادق اور امین صحابہ کرام ؓ کا ایک ایسا گروہ تیار کیا جن میں عقیدے کی پختگی تھی، جن کا ایک اللہ پر اور یوم آخرت پر غیر متزلزل ایمان تھا، جو یہ مانتے اور جانتے تھے کہ ان کی ہر ظاہر و پوشیدہ عمل کی اللہ کو خبر ہے اور ان کی پر عمل کی ویڈیو بن رہی ہے جسے روزِ قیامت انہیں اعمالِ نامہ کے صورت پر دکھا دیا جائے گا، پھر اللہ کے حضور انہیں اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہوگا۔ اگر وہ دنیا میں نیک اعمال کئے تو آخرت میں انہیں اللہ تعالیٰ کی عظیم جنت ملے گی اور اگر ان کے اعمال بُرے ہوئے یا وہ کرپشن و بُرائی میں مبتلا ہوئے تو انہیں ہمیشہ کی المناک عذاب والا جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جہنم کی ہولناکیوں سے خوب واقف تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کو رحمٰن و رحیم جاننے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے قہاریت اور جباریت سے بھی خوب واقف تھے۔

نبی اکرم ﷺ اپنے ان صادق و امین صحابہ کرام ؓ کو لیکر جب مدینہ پہنچے تو وہاں منافقین سے پالا پڑتا ہے۔ وحیٔ الٰہی کی روشنی میں منافقت کے بُرے انجام سے لوگوں ڈرایا کہ منافقوں کا انجام آخرت میں کافروں سے بھی بدتر ہوگا۔ اس طرح آپ ﷺ کی مسلسل 23 سال کی محنت سے دنیا کو ایسے مخلص، صادق و امین حکمران ملے جو دنیا سے بُرائی اور کرپشن کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی محنتوں سے دنیا امن کا ایسا گہوارہ بن گیا کہ ایک سانڈھنی سوار عورت حیرہ سے تنہا بیت اللہ تک کا سفر کرتی ہے اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ ایک شخص اپنے ہاتھ میں سونا چاندی بھر کر نکلتا ہے، جسے کوئی لینے والا نہیں ہوتا۔ خلیقۂ وقت کو بھی عدالت میں بلایا جاتا ہے اور ان کا احتساب کیا جاتا ہے۔ خلیفہ اس پر کوئی سُبکی محسوس نہی کرتا بلکہ خود کو احتساب کیلئے پیش کرنا اپنے فرائض میں سمجھتا ہے۔ جب خلیفہ خود کو احتساب کیلئے پیش کردیتا ہے تو مملکت کا کوئی بھی فرد احتساب سے بچنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس طرح جب ہر ادنیٰ اور اعلیٰ کو احتساب کا خوف ہوگا تو کوئی بھی بُرائی یا کرپشن کرنے کا کیونکر سوچے گا، ہر کوئی دنیاوی اور آخرت کی سزا سے ڈرتا رہے گا۔

ہمارے وزیر اعظم صاحب نے تو 90 دنوں میں کرپشن ختم کرنے کا وعدیٰ کیا۔ پھر خود کو صادق و امین کے طور پر پیش بھی کرتے رہے لیکن نہ ہی اپنے گرد صادق و امین وزیر و مشیر کا جتھہ جمع کیا اور نہ ہی عوام الناس کے دلوں اللہ کا خوف اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے حضور تن تنہا پیش ہوکر اپنے اعمال کے حساب دینے کا عقیدہ ہی راسخ کرنے کی کوئی سعی کی۔ لہذا ملک و معاشرے میں کرپشن کا کینسر جوں کا توں ہے بلکہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

آج کا مسلمان CCTV کیمرے سے تو ڈرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے نہیں ڈرتا جو ہر لمحہ اس کی ہر ظاہر و پوشیدہ عمل کو دیکھ رہا ہے اور اس کی ہر حرکت کا خوب خبر بھی رکھتا ہے، اس بات کا یقین نہیں رکھتا۔CCTV کیمرہ میں پکڑے گئے چند منٹ کی ویڈیو سے کانپ جاتا ہے لیکن زندگی کے ہر لمحے کی جو ویڈیو بن رہی ہے جسے روز قیامت نامۂ اعمال کی صورت میں ساری امت کے سامنے دکھا دیا جائے گا اس سے نہیں ڈرتا۔ جیسا کہ سورة لقمان میں فرمایا گیا ہے:

(لقمان نے کہا) "بیٹا، (انسان کا) کوئی (بھی نیک یا بد) عمل خواہ وہ رائی کے دانہ برابر ہی کیوں نہ ہو جسے کسی چٹان کے اندر (چھپ کر) کیا جائے یا آسمانوں (فضاؤں اور خلاؤں) میں جا کر یا زمین (کی گہرائیوں) میں اُ تر کر کیا جائے، (تب بھی) اللہ (قیامت کے دن حساب کیلئے) اسے لا موجود کرے گا، بیشک اﷲ باریک بین (بھی) ہے آگاہ و خبردار (بھی) ہے۔ (16) سورة لقمان

آج کے مسلمانوں کا ایمان بہت کمزور ہے۔ اکثریت کے دلوں میں تو اللہ کا خوف ہے ہی نہیں اور نہ ہی آخرت میں پکڑے جانے کا ڈر ہے اور نہ آخرت کے عذاب کا یقین ہے، اس لئے لوگ کرپشن کرنے سے نہیں ڈرتے لیکن

’’جب قیامت کا ہنگامۂ عظیم برپا ہوگا (34) تو اُس دن انسان کو اس کا کیا دھرا سب (اچھا بُرا اعمال) یاد آئے گا (35) اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوزخ کھول کر رکھ دی جائے گی (36) تو جس نے (دنیا میں) سرکشی کی تھی (37) اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی (38) تو یقینا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا (39) سورة النازعات

کرپشن کو کنڑول کرنے کیلئے ملک میں قانون، ادارے اور محکمے موجود ہیں لیکن ان سب سے کرپشن کنٹرول کرنے کے بجائے کرپٹ لوگوں کو پروٹیکٹ کرنے کا کام زیادہ لیا جاتا ہے اور وہاں بھی ویسے ہی لوگ تعینات ہیں جن کے دلوں میں بھی اللہ کا ڈر نہیں اور آخرت کا خوف نہیں، لہذا کرپشن ختم تو کیسے ختم ہو ؟

ایسے میں کرپشن کو کنٹرول کرنے اور ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ موثر ہے اور وہ ہے اللہ اور رسول اللہ ﷺ کا طریقہ کہ لوگوں کے دلوں میں عقیدۂ توحید اور عقیدۂ آخرت کی آبیاری کی جائے۔ مسلمانوں میں عقائد کی خرابی ہی ساری بُرائیوں کو جنم دینے والی ہے۔

ایسے پیر و مرشد بھی ہیں جو چند ٹکوں کے عوض اپنے مریدین کو جنت کا ٹکٹ باٹتے ہیں چاہے ان کے اعمال جتنے بھی بُرے ہوں یا جتنا کرپشن کریں، حالانکہ یہ جنت کا ٹکٹ باٹنے والے خود اپنے آپ کو جنت میں لے جانے کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔

’’ اِن سے پوچھو، آسمان و زمین کا رب کون ہے؟ کہو، اللہ پھر ان سے کہو کہ جب حقیقت یہ ہے تو کیا تم نے اُسے چھوڑ کر ایسے معبودوں کو اپنا کارساز ٹھیرا لیا جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے؟‘‘ ۔ ۔ ۔(16) سورة الرعد

اسی طرح اللہ تعالیٰ کے رحیم و کریم ہونے کا غلط معنی و مطلب بھی نکال لیا گیا ہے کہ کچھ بھی کرو، بس اللہ رحیم و کریم ہے، یہ سمجھے بغیر کہ اللہ تعالیٰ جبار و قہار بھی ہے۔

يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ وَبَرَزُوا لِلَّـهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ﴿ابراهيم: ٤٨﴾
’’(ڈراؤ اِنہیں اُس دن سے) جس دن زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے اور سب کے سب اللہ واحد قہار کے سامنے حاضر ہو جائیں گے‘‘۔

ایک اللہ پر ایمان، اللہ کا خوف، اللہ کے علیم و خبیر اور جبار و قہار ہونے کا عقیدہ، سارے نیک و بد اعمال کی ویڈیو کا آخرت میں سیدھے یا الٹے ہاتھ میں ملنے اور اس کے مطابق اللہ کے حضور تنہا کھڑے ہوکر اپنے ہر عمل کا حساب دینے اور جنت کی ہمیشہ کی اچھی زندگی یا جہنم کی دائمی بھیانک عذاب والی زندگی کا عقیدہ جب تک بندوں کے دلوں میں پختہ نہیں ہوگا ملک و معاشرے سے بُرائی اور کرپشن کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔

وزیر اعظم صاحب اگر ملک و قوم کے ساتھ واقعی مخلص ہیں تو انہیں اس بارے میں سوچنا چاہئے۔ سب سے پہلے اپنا عقیدہ درست کرنا چاہئے اور عوام لناس کا عقیدہ درست کرنے کیلئے کام کرنا چاہئے۔ ایسے صادق و امین لوگوں کو اپنا وزیر و مشیر بنانا چاہئے جن کے عقائد درست ہوں۔

اس کی خاص ذمہ داری علما و مشائخ پر ہوتی ہے جنہیں تفرقہ بازی چھوڑ کر اپنے اپنے عقیدے کی درستگی کے ساتھ عام مسلمانوں کے عقائد درست کرنے کا کام کرنا ہوگا، عقائد کی درستگی سے ہی وزیر اعظم صاحب کا پاکستان کو کرپشن سے پاک ریاست مدینہ بنانے کا خواب پورا ہونا ممکن ہو سکتا ہے، ورنہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
 

Muhammad Ajmal Khan
About the Author: Muhammad Ajmal Khan Read More Articles by Muhammad Ajmal Khan: 95 Articles with 61763 views اللہ کا یہ بندہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی باتوں کو اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سیکھنا‘ سمجھنا‘ عم.. View More