مہوش کرن
جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی خبر دیکھتی اور سنتی آرہی ہوں۔ اتنے سال بیت گئے
لیکن خبریں وہی رہیں، میرے بچپن سے میری اولاد کے بچپن تک کا سفر لیکن اْن
سب کا سفر لامتناہی اور موت طلب ہی رہا۔جا بجا بکھری ہوئی خون میں نہلائی
ہوئی لاشیں نگاہوں میں گھومتی ہیں، کوئی لال، کوئی ہری، کوئی سفید چادر یا
میرے ہی وطن کے جھنڈے میں لپٹی۔کوئی جوان، کوئی بوڑھا، کوئی بچہ، کوئی نو
بیاہتا،ہر عمر، ہر پیشے سے تعلق رکھنے والے، اْن میں کوئی تفریق نہیں، بس
جان کی بازی لگانے کو وہ تیار کامران ہیں۔
چھتوں پر کھڑی مائیں، یاس بھری آنکھوں سے دور دیکھتی ہیں کہ ان کے لعل جیل
سے چھوٹ کر واپس آئیں گے، کہیں اپنے ہاتھوں اپنے ہی لختِ جگر کو قبرستان
بھیجتی ہیں کیونکہ باپ پہلے ہی جا چکا تھا، کہیں باپ کو کاندھا دینے بیٹا
نہیں، کہیں بیویاں دروازے تکتے گلیوں میں بے آبرو ہورہی ہیں، کہیں ردائیں
تار تار ہو رہی ہیں، کہیں کمسن بچیوں کی زندگی برباد ہورہی ہے، کہیں نظریں
ہی چھین لی جارہی ہیں۔مگر شہادت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے جوش کم نہیں ہو
پارہا بلکہ ہر گزرتے دن اور ہر بڑھتے ظلم کے ساتھ یہ جذبہ اور سر چڑھ کر
بول رہا ہے۔
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑھاتی رہیں ظلمت کا نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ!
ہم کیا چاہتے آزادی، ہم کیا چاہتے آزادی۔۔۔یہ نعرہ لگاتے لگاتے ان کی نسلیں
گزر گئیں اور ہماری نسلیں بڑی ہوگئیں لیکن اس آزادی کی اتنی بھاری
قیمت۔۔۔وہ بھاری قیمت جو سب نے چکائی۔۔۔
ظلم کی بات ہی کیا، ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے، سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے!
وہ چناروں کی وادی میں رہنے والے آزادی حاصل کرنے کے لیے قیمت دے رہے ہیں
اپنی سانسوں کی، اپنی عزت کا سودا کرکے، اپنے خون سے وادی کو سینچ کر، اپنی
نسلوں کا نام و نشان مٹا کر۔۔۔اور بدلے میں کیا پا رہے ہیں؟ یقینا شہادت
اور بلند درجات !ہم نے آزادی حاصل کی لبرل ازم کے نام پر اسلامی حدود سے،
حقوق و فرائض سے، شریعت کے احکامات سے، پردے اور انصاف پسندی سے، نماز اور
زکوٰۃ سے۔۔۔ تو بدلے میں کیا پارہے ہیں؟ یقینا شرمندگی اور تذلیل ۔
ہم اپنے بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان اتنی قربانیوں سے حاصل ہوا جبکہ
جنت نظیر وادی کے باسی اتنے سالوں پر محیط قربانی در قربانی دیتے چلے آرہے
ہیں اور دنیاوی طور پر بدلے میں کیا پا رہے ہیں؟صرف و صرف دوسرے مسلم ممالک
کی گیدڑ بھپکیاں، ایک کے بعد ایک بدلتی ہوئی ماسک چڑھی شکلیں، جھوٹے دعوے
اور بس۔۔۔دینی نہ سہی کم از کم شخصی آزادی تو دو،وہ جو ہر بات پر انسانی
حقوق کے علمبردار بن کر آجاتے ہیں، اس معاملے میں کہاں جا کے سوئے رہے ہیں
؟؟؟ اور اب پھر اقوامِ متحدہ میں جانے کیا دکھاوا ہورہا ہے۔
ظلم کی قسمت ناکارہ و رسوا سے کہو
جبر کی حکمتِ پرکار کے ایما سے کہو
محملِ مجلسِ اقوام کی لیلیٰ سے کہو
خون دیوانہ ہے، دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلہ تند ہے، خرمن پہ لپک سکتا ہے
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آنکلا ہے
کہیں شعلہ، کہیں نعرہ، کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ہر سال 5 فروری کو کشمیر ڈے پر چھٹی والا دن سمجھ کر دیر سے اٹھنا، پھر
گھومنے نکل جانا، پارٹی کرنا، بس اسی طرح تو یہ دن ہمیشہ منایا جاتا رہا۔
اسی طرح ہر سال چودہ اگست پر اپنے یومِ آزادی کے دن بھی ملی نغموں کے نام
پر موسیقی کے بے ہنگم شور میں جھنڈے جیسا لباس پہنی ناچتی کودتی اور پرچم
کی حرمت کو پامال کرتی نوجوان نسل یقینا اﷲ کی صریح نافرمانی کی مرتکب ہوتی
ہے اور اب یومِ سیاہ مَنا کر ہم سب پاکستانیوں نے کیا ثابت کردیا ؟ کوئی تو
انفرادیت سے اوپر اْٹھ کر اجتماعیت سے کام لیتا، کہیں تو خاص نمازوں اور
دعاؤں کا اہتمام ہوتا، کوئی تو جہاد کے لیے اْمت کو آواز دیتا۔۔۔ لیکن نہیں
ان کے لیے بس ایک اﷲ کا آسرا ہے وہی جس کا نام اور وجود ہمیشہ باقی رہنے
والا ہے ۔
ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا!
کہتے ہیں شہ رگ کٹ جائے تو انسان مر جاتا ہے،ہم کیسے انسان ہیں ؟ کہ ہماری
شہ رگ کب سے کٹتی چلی آرہی ہے لیکن ہم آج تک زندہ ہیں۔۔۔ قائد اعظم ہم آپ
کے سامنے شرمندہ ہیں ! آپ کی شہ رگ کو بچا نہیں پارہے، نہ ہی اس کی خاطر
جان لٹا پارہے ہیں، نہ ہی دین اسلام اور اﷲ تعالیٰ کے نام پر اور سنتِ رسول
صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی کی خاطر حاصل کیے اس وطن میں مکمل اسلامی حکومت
ہی نافذ کر پارہے ہیں۔۔۔
|