تحریر عرفان اقبال
مذاق ایک معاشرتی ناسور جسے ہم نے جاننے کے باوجود بھی نظر انداز کر رکھا
ہے۔ اس بات کا اندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’ دوست نے مذاق کے موڈ
میں غوطے دیتے ہوئے اپنے ایک دوست کی جان لے لی‘‘۔ اس جیسی ایک اور خبر بھی
اخبارات کی زینت بنی کے دوستوں نے پرینک ویڈیو بنانے کے چکر میں دوست کو
گولی ماردی۔ جوکہ فرسٹ ایئر کا اسٹوڈنٹ تھا۔ نتیجتاً وہ اپنی جان کی بازی
ہار گیا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں یونیورسٹی میں رہ رہا تھا، ایک مرتبہ جمعے کے
لیے نکلا تو اپنا سامان اور بٹوا وہی ہاسٹل میں کہیں چھوڑ آیا۔ واپسی پر
پہنچا تو سامان غائب تھا۔ دوستوں سے معلوم کیا مگر کسی نے نہیں اٹھایا تھا۔
بہت پریشان ہوا کافی وقت گزر گیا تو ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا کہ میں نے
لیا اور میری الماری میں رکھا ہے لیکن اس کے بدلے میں کچھ کھلانا ہوگا۔
تسلی تو ہوگئی مگر وہ سامان لیا نہیں۔ اگلے روز وہ گھر چلا گیا اور مجھے ان
سے اپنا سامان لینا یاد نہیں رہا۔ اتفاق سے ہمارے امتحانات کے ایڈمشن بھی
ان دنوں جارہے تھے۔ اگلے روز جب دیر سے میری آنکھ کھلی، جب پتا کیا تو
معلوم ہواعلی گھر چلے گئے ہیں۔ یہ بات گویا پریشان کن تھی۔ اتنے میں ایڈمشن
بھی بھیجنا تھا اور میرے پاس نہ پیسے اور نہ ہی شناختی کارڈ تھا۔ بہت بھاگ
دوڑ کے بعد بالآخر ایڈمشن دے پایا۔ اگر وہ ایسی مذاق نہ کرتے تو یقینا میرے
لیے اتنا بڑا مسئلہ نہ بنتا۔
یہ ایک واقعہ نہیں، اس طرح کے کئی واقعات ہماری زندگی سے گزرتے ہیں ہم مذاق
میں بعض دفعہ کسی کو کنکر پھینکتے ہیں اس کی آنکھ پھوٹ جاتی ہے اگر یہ بھی
نہ ہو تو ہم ایک ایسے وقت میں یا ایسی حالت میں جا کے کسی کا مذاق اڑاتے
ہیں کہ جب وہ اس مذاق کو سہنے کا اہل نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم
ایک اچھے تعلق سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہنسنا کھیلنا انسانی فطرت کا تقاضا
ہے ہونا چاہیے میں اس کا مخالف نہیں ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ بندہ جب کسی کو
ہنسائے یا کسی سے ہنسی مذاق کرے تو اس کے الفاظ کیسے ہو؟ یا اس کا انداز
کیسا ہو؟ یا اس کا موقع محل کیسا ہو؟ یہ چیز ہمیں سوچنی ہے۔
ابن حبان لکھتے ہیں۔ ہنسنے ہنسانے کے لیے عربی میں دو الگ الگ الفاظ
استعمال ہوتے ہیں نمبر 1 مزاح نمبر2 مذاق مزاح کا مطلب ہوتا ہے ہنسا نا
جبکہ مذاق کا مطلب ہوتا ہے پھاڑنا۔ راقم یہ کہتا ہے کہ مزاح کی دو قسمیں
ہیں۔ ایک قسم تو وہ ہے جس میں کسی کی عزت اس کی ذات اس کی شخصیت یا اس کے
مذہب قوم احساسات وغیرہ کے اوپر ہم اس طرح کا طنز کرتے ہیں کہ جس سے اس کے
احساسات جذبات اس کی ذات اس کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہوتی ہے۔ اور ہم اسے
مزید ڈی گریٹ (نیچا) دکھانے کے لئے ہم اس کی بے عزتی کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے
اس گھٹیا پن کو ہم مذاق کا رنگ دیرہے ہوتے ہیں جبکہ مذاق کا دوسرا پہلو وہ
ہوتا ہے جو ہم کسی غیر انسانی چیز کے ساتھ اپنے الفاظ کے ذریعے اپنے کسی
رویہ کے ذریعے اس طرح سے گفتگو کرتے ہیں۔ کہ بنا کسی کے عزت نفس مجروح کئے
ہم ہنسنے کا سامان تیار کر لیتے ہیں۔جس میں کسی بے عزتی شامل نہیں ہوتی عزت
احساسات جذبات کے اوپر وہاں کوئی ٹھیس نہیں پہنچ رہی ہوتی ہے۔ یہاں ابن
حبان یہ بیان کرتے ہیں کہ میرے خیال سے میں اس طرح کے مزاح کو پسند کروں گا
جس میں کسی انسان کی بے عزتی نہ ہو اور یہی وجہ ہے کہ جب دو دوست آپس میں
ایک دوسرے سے ناراض ہوکے ایک دوسرے سے دور ہوجاتے ہیں یا الگ ہو جاتے ہیں
یا جب رشتے آپس میں ٹوٹ جاتے ہیں تب ہم اس کو پھر مزاح نہیں کہتے اس کو ہم
مذاق کہتے ہیں یعنی توڑنے والی۔
مذاق کو اگر جہالت کا نام دیا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ قرآن کریم میں ارشاد
ہے کہ ’’موسی علیہ السلام نے فرمایا اگر میں مذاق کروں تو میں جاہلوں میں
سے ہو جاؤں‘‘۔ یعنی یہ عمل بنیادی طور پر پڑھے لکھے سنجیدہ لوگوں کا نہیں
بلکہ یہ جاہلوں کا عمل ہے۔ ٹک ٹاک وڈیوز یا فنی وڈیوز اس جہالت کی جدید اور
بڑی بھیانک شکل ہے۔ مختلف قسم کے پرینک ویڈیوز جن کا ظاہر تو ہمیں صرف یہی
ہوتا ہے کہ لوگوں کو ہم انٹرٹین کر رہے ہیں جبکہ ان کا باطن یہ ہوتا ہے کہ
ہم مذاق کو مزاح سمجھتے ہوئے کسی کے حقیقی مسئلے کو حقیقت نہیں سمجھتے۔ پھر
انجام یہ نکلتا ہے کہ پراینک کے چکر میں یا تو کسی طالب علم کو گولی لگ
جاتی ہے۔ یا پھر ڈوبتے ہوئے دوست کو ہم یہ سوچ کر نہیں نکالتے کہ وہ مذاق
کر رہا ہے جبکہ حقیقت میں وہ بے چارہ ڈوب رہا ہوتا ہے اور بالآخر ڈوب ہی
جاتا ہے۔
الغرض اس طرح کے کئی واقعات ہمیں روزمرہ زندگی میں عام دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اگر کچھ بھی نہ ہو تو اتنا ضرور ہوتا ہے کہ ہم کسی ایسی محفل میں کسی کے
اوپر جا کے گفتگو کے ذریعے یا اپنے رویوں کے ذریعے اس طرح کا وار کرتے ہیں
کہ وہ یا اس کے ساتھ کے بیٹھے ہوئے لوگ اس کو دلیل بناتے ہیں جس پہ ان دو
لوگوں کا آپس میں تعلق ختم ہو جاتا ہے
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جو ہمیں بھائی چارے سبق سکھاتا ہے۔ یہ
ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کے محبت کے ساتھ رہنا سکھاتا ہے جبکہ شیطان
کو یہ بات قطعی پسند نہیں۔ شیطان یہ نہیں چاہتا کہ ہم محبت اور پیار سے ایک
دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہیں لہٰذا وہ ہم سے یہ اس طرح کی حرکات یا
اس طرح کی فضولیات کرواتا ہے۔ جسے ہم اپنا کے اس کو خوش کرنے کا سبب بن رہے
ہوتے ہیں۔ رشتوں یا تعلقات کو توڑنے کاایک بہت بڑی وجہ یہی بے جا کیے ہوئے
مذاق ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اے ایمان والو ! تم میں سے کوئی بھی کسی کا مذاق
نہ اڑائے کیا خبر جس کا مذاق اڑا رہے ہو وہ تم سے زیادہ بہتر ہو‘‘۔ ضرورت
اس امر کی ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے ناتے اس حکم کو مانیں اور اپنے معاشرتی
طرز زندگی کو بہتر کریں اور ثابت کر سکیں کہ ہمارا شمار پڑھے لکھے سنجیدہ
لوگوں میں ناکہ جاہلوں میں تاکہ ہم اپنے ملک و قوم کی ترقی کا زینہ ثابت ہو
کر اپنے مہذب ہونے کا ثبوت دیں۔
|