ہم نے پڑھ اور سن رکھا ہے اور یہ سچے نبیﷺ کی سچی اورکھری
بات ہے جس میں کوئی دو رائے نہیں کیوں کہ ہمارا ایمان اور یقین ہے کہ سورج
مغرب سے نکل سکتاہے دن اور رات کی ترتیب بدل سکتی ہے مگر اﷲ کے رسول ﷺ کی
کہی ہوئی بات کبھی بھی غلط ثابت نہیں ہو سکتی، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کہیں
برائی ہوتے ہوئے دیکھو تو اول ہاتھ سے روکو اس کی استطاعت نہ رکھتے ہو تو
زبان سے برے کو برا کہہ دو اور اگر یہ بھی مکن نہ ہوتو کم از کم دل میں
ضرور برا جانو مگر یاد رکھنا یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے،حدیث یہاں تک
مکمل ہو جاتی ہے ،سمجھ عقل اور شعور رکھنے والوں کے لیے اس بات میں معنی و
مطالب کے جہان پوشیدہ ہیں اور یہ بات ہر ایک کو اس کی حیثیت کے مطابق عمل
کے ردعمل کا مطلب سمجھا دیتی ہے ،ہم نے اس بات کو پڑھا غور یا عمل کس حد تک
کیا یہ ہر شخص کا ذاتی فعل ہے اور یہ بھی ہمارا ایمان ہے کہ ہر شخص نے آگے
پیش ہونا ہے کیوں کہ وہاں اس نے یہاں کے عملوں کا حساب دینا ہے ،ہم جہاں
برائی دیکھتے ہیں ہاتھ سے روکیں یا نہ روکیں زبان سے برا کہیں نہ کہیں یا
دل ہمارا اس کو کس طرح محسوس کرتا ہے اس سب کو چھوڑ کر ہم نے اس میں ایک
چوتھی چیز بھی شامل کر لی ہے کہ جہاں کو ئی غلط یا برا کام ہو رہا ہے اس کو
ہاتھ یا زبان سے روکنے اورد ل میں برا جاننے کی بجائے آگے بڑھ کر اس کی
موبائل کیمرے وڈیو بنا سیو کر لی جائے اور بعد بوقت ضرورت کام میں لائی
جائے اور اس سے من مرضی کا کام لیا جائے بھلے کسی کا ایمان مشکوک بنادیا
جائے یا اسے دائرہ اسلام سے ہی خارج کر دیا جائے اپنے ہاں یہ کام سب سے
آسان ہے پہلے فرقہ بندیو ں میں بٹ کے یہ کام ہوتا تھا اور ایک فرقہ دوسرے
کو کافر اور قابل گردن زنی قرار دیتا تھا ،بھلا ہو مولانا طارق جمیل جیسے
لوگوں کا جنہوں نے آکر بتایا کہ او بھائی کدھر جا رہے ہو اپنے جیسے لوگوں
کے گلے کاٹنا ان پر کفر کے فتوے لگانا کون سا اسلام اور دین ہے ،جب عوامی
شعور کی لہر بیدار ہو گئی اور بہت سے فرقہ پرستوں کی دکانیں بند ہو گئیں تو
پھر یہ کام قادیانیوں کے توسط سے کیا جانے لگا جس پر ذرا سا بھی شک گذرا
اسے قادیانی بنا دیا گیا اس سب پر ریاست کی بے حسی کا کمال دیکھیے کسی کو
کافر کہنے پر ریاست حرکت میں آتی ہے مگر کسی کو بھی قادیانی یعنی کافروں سے
بھی بڑا کافر کہہ دینے پر ریاست دھنیے کا سوپ پی کر محو استراحت رہتی ہے
حالانکہ ریاستی قانون کے مطابق بھی قادیانی کافر اور غیر مسلم ہیں ،چکوال
ٹی وی کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا اس معاملے کے باقی کرداروں کا تو مجھے
نہیں پتہ اور نہ میں کسی سے واقف ہوں مگرسمیع اﷲ کوذاتی طور پر جانتا ہوں
ایک ٹھیٹ قسم کا پکا اور سچا مسلمان نوجوان ہے میری ایک عرصے سے اس سے سلام
دعا ہے میرے آفس میں بھی بہت آنا جانا رہا ہے مگر کبھی شائبہ تک نہیں ہوا
کہ وہ قادیانی یا بہائی یا کسی اورمذہب سے تعلق رکھتا ہے ایک انتہائی مہذب
پڑھے لکھے اور نفیس انسان پر اتنا بیہودہ اور سنگین الزام مجھے تو سمجھ ہی
نہیں آ رہی کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے اور کیسے ہم کسی کو ایک دم مسلمان سے
غیر مسلم بنا دیتے ہیں کیا اتنا آسان ہے کسی کے ایمان کا فیصلہ کر دینا ،کیا
مذہب سے تعلق اتنا کچا اور ہلکا ہے کہ کوئی بھی کسی کو بھی جس وقت چاہے دین
اسلام کے دائرے سے ہی خارج کر دے اس کے باوجود کہ اتنا سب کچھ ہو جانے کے
باوجود ابھی تک کسی بھی عالم دین نے ان کے کفر کا فتویٰ نہیں دیا لیکن
شورہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی یہ موضوع بڑا نازک ہے بڑے لکھاری
اور صحافی اور انتظامیہ کے افسران تک ڈرتے ہوئے اس گلی میں پاؤں دھرنے کی
جرات نہیں کرتے کیوں کہ ثنا خوان تقدیس مشرق کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں،
اس لیے سب نے آن واحد میں ایک ہی حل نکالا کہ کافر کافر اور قادیانی
قادیانی کا شور مچاؤ ایف آئی آر کٹواو اور اپنے سر سے ملبہ اتارکے کسی اور
کی گردن پر ڈال دو ہو سکتا ہے اس کالم کے بعد مجھ پر بھی فتووں کیا چاند
ماری شروع ہو جاے مگر جہاں توہین مذہب ایک ناقابل معافی جرم ہے وہیں کسی
مسلمان پر بغیر تحقیق غیر مسلم یا قادیانی کا الزام دھرنا بھی ایک انتہائی
سنگین اور قبیح فعل ہے یہ ایسا معاملہ ہے جس کی تحقیق مجسٹریٹ لیول کے افسر
کو کرنا ہوتی ہے اور ایف آئی آر باقاعدہ ہوم ڈیپارٹمنٹ کی منظوری کے بعد
درج کی جاتی ہے کیوں کہ اس کی سزا موت یا عمر قید ہے مگر اس کیس میں ایسا
کچھ بھی نہیں کیا گیا،یہ تقریب اکتیس دسمبر کو منعقد ہوئی ، اس کا دعوت
نامہ مجھے بھی وصول ہوا تھا مگرمیں بچپن ہی سے ابا جی کے جوتے کے سائز اور
تھانیداری طبیعت کی وجہ سے ہمیشہ ایسی محفلوں سے محفوظ ہی رہا حالانکہ مجھے
اس محفل میں ایسا ویساکچھ نہ ہونے کا یقین دلایا گیا تھا،تقریب ہوئی وہاں
کیا ہوا یہ وہ لوگ ہی بتا سکتے ہیں مگر اس تقریب کے سات آٹھ دن بعد ایک
وڈیووائرل ہوئی جو ہماری بھی نظر سے گذری جس میں ایک اسٹیج پر دو لڑکیاں
ڈانس کر رہی ہیں جن کے پیچھے خانہ کعبہ اور روضہ رسولﷺ کی تصاویر بنی ہوئی
ہیں ،جس کسی نے بھی یہ وڈیو بنائی آپ اس کا کمال دیکھیں کہ نہ اس نے اسے
معاملے کو ہاتھ سے روکا نہ ہی وہاں زبان سے یہ کہنے کی ہمت کی پتہ نہیں دل
میں برا جانا یا نہیں مگر وڈیوضرور بنا لی پوری تسلی اور دلجمعی سے ،اگر یہ
صاحب اسی وقت اس غلطی کی نشاندہی کرتے تو کوئی وجہ نہیں کہ محفل میں موجود
ہر شخص اس بات کو محسوس کرتا اور فورا ہی یہ بیک گراونڈ ہٹا دی جاتی ،مگر
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہمیں بنت حوا کی یوں بے توقیری ور ڈانس پر بھی اعتراض
ہوتا مگر پیروں سے لیکر مولویوں تک اور شہریوں سے لیکر صحافیوں تک سب کو
اعتراض ناچتی تھرکتی لڑکیوں پر کوئی اعتراض نہیں حالانکہ یہ بھی ایک بری
حرکت اور برا فعل ہے ،یہ وڈیوسات دن دبی رہی سات دن کیوں خاموشی اختیار کی
گئی یہ اپنی جگہ بہت ہی اہم نوعیت کاسوال ہے،بلاشبہ مقدس مقامات کی تصاویر
لگا کر آگے لڑکیوں کو ڈانس کروانا ایک بہت ہی بھیانک غلطی اور گناہ ہے مگر
کیا یہ جان بوجھ کر کیا گیا اور کیا جن سے یہ سرزد ہوا وہ اس پر اب بھی
قائم ہیں یا معافی کے طلب گار ہیں، پینا فلیکس بنانے والے نے ٹی وی کے لیے
اسکین تیار کی تو اس پر مختلف تصاویر بنا دیں جو یہ ظاہر کر رہی تھیں کہ اس
چینل سے یہ سب کچھ دکھایا جائے گا سکین بنانے والا اور بنوانے والا شایدعلم
و عقل میں یکتا تھے جو ایسی پینا فلیکس نہ صرف تیار کر دی بلکہ لگا بھی دی
اور تلاوت سے شروع ہونویوالے پروگرام میں آگے چل کر لچر پن کا اضافہ ہو گیا
اور کسی کو موج مستی میں یاد ہی نہیں رہا کہ پینا فلیکس کو ڈھانپ ہی دیں،
اس کوتاہی پر اول تو منتظمین کو اﷲ رب العزت کے حضور معافی مانگنی چاہیے جس
کے بعد عام پبلک سے بھی معافی مانگ لینے میں کوئی حرج نہیں ،اس غلطی کی سزا
ضرور ہونی چاہیے مگر اس طرح کسی کو دین اسلام سے ہی خارج کر دینا اور کفر
کے فتوے ٹھونک دینا کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں ایسا ہی ایک واقعہ چند سال
قبل تلہ گنگ میں بھی پیش آیا تھا ایک شخص کو توہین مذہب کا مرتکب قرار دے
کر کافر ور ملحد اور نہ جانے کیا کیا قرار د ے دیا گیا چوک پر لٹکانے کے
لیے جلسے اور جلوس منعقد کیے گئے،مقدمے کی حساسیت کا یہ عالم تھا کہ کئی
ججز نے سماعت سے انکار کر دیا اور متعدد سماعتیں جیل میں ہوئیں لیکن آخر
میں کیا ہوا ہائیکورٹ کے فل بنچ نے نہ صرف مقدمہ اڑا کر ر کھ دیا بلکہ صوفی
اسحق نامی شخص کو باعز ت بر ی بھی کر دیا آج صوفی اسحق بھی تلہ گنگ میں ہے
اور جلسے کرنے والے بھی سب امن و سکون سے رہ رہے ہیں ،یہاں بھی ہوشمندی اور
دیانتداری سے کام لیا جائے اور جب ایک شخص چیخ چیخ کر دہائیاں دے رہا ہے کہ
میں نہ صرف مسلمان ہوں بہائیت یا قادیانیت سے ہمارا کسی بھی قسم کا کوئی
تعلق نہیں ہے تو ان کی بات کا اعتبار کیا جانا چاہیے ہر معاملے میں مذہب کو
لا کر کفر کے فتووں سے اجتناب برتنا چاہیے ، ،چکوال ٹی وی کے کرتا دھرتاوں
کو اسلام آباد اور پنڈی کے پریس کلبوں میں خوار ہونے کی بجائے یہاں پر ہی
میڈیا کیلوگوں کو اپنا موئقف دینا چاہیے تھا مگر پریشانی اور گھبراہٹ میں
انہوں نے میڈیا کے کچھ نمائندوں پر الزامات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جو
کسی بھی طور صائب نہیں اگر ان کے الزامات میں کوئی حقیقت ہے تو انہیں کھل
کرتمام ثبوت سامنے لانا چاہیئں اگر ثبوت نہیں تو الزام براے الزام کا رویہ
قابل مذمت ہے دو غلط مل کر ایک صحیح نہیں ہو سکتے،یہ معاملہ بھی اب عدالت
میں ہے بہت جلد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا تاہم سمیع اﷲ اور
اس کے ساتھی ہر معاملے پر معافیاں مانگ رہے ہیں مانگتے رہیں اگر یہ مجرم
ہوئے تو انہیں سزا ضرور ملے گی تاہم اگر عدالت نے صوفی اسحق کی طرح انہیں
بھی بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا تو کیا کوئی ان سے بھی معافی مانگے گا،
یاد رہے صوفی اسحٰق سے کسی نے ابھی تک نہیں مانگی۔
|