پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے تین
بھائیوں کو غائب کرنے والے دو ایس ایچ اوز کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے
احکامات جاری کردئیے یہ احکامات انہوں نے تھانہ انقلاب کے ایس ایچ او اعجاز
خان اور پبی کے ایس ایچ او کے خلاف دئیے ہیں جن پر نسیمہ نامی خاتون نے
ہائیکورٹ میں دائر رٹ کی تھی اور موقف اپنایا تھا کہ ان کے تین بیٹے بلال ،
شہزاد اور جونیس کو پولیس نے بغیر کسی جرم کے گرفتار کیا اور دو ماہ سے وہ
غائب ہیں پولیس ان کا جرم بھی بتا نہیں رہی اور نہ ہی بتا رہی ہیں کہ ان کے
بیٹے کہاں ہیں-
پشاورہائیکورٹ میں وکلاء کی ہڑتال کے باعث نسیمہ نامی خاتون خو د عدالت میں
پیش ہوئی اور اس نے عدالت کو بتایا کہ اس کے بیٹے تھانہ انقلاب کے ایس ایچ
او نے اٹھائے ہیں جس پر انقلاب تھانے کے ایس ایچ او کو عدالت طلب کیا گیا
مگر وہ ان کی گرفتاری سے لاعلم نکلا جس پر چیف جسٹس پشاو ر ہائیکورٹ وقار
احمد سیٹھ نے خاتون کے بتائے ہوئے ایس ایچ او اعجاز خان کو طلب کرلیا ،
خاتون نے بھری عدالت میں دہائی دی کہ وہ قسم کھانے کو تیار ہے کہ اس کے تین
بیٹے اسی ایس ایچ او نے اٹھائے ہیں،، خاتون نے عدالت کو بتایا کہ وہ پولیس
کے خوف سے تھانہ انقلاب کے علاقے میں واقع اپنے گھر کو چھوڑ کر حیات آباد
شفٹ ہوگئی ہے، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ پولیس بھی قسم
کھانے کو تیار ہے کہ اس کے پاس نہیں تاہم اعجاز خان ایس ایچ او کی عدالت
طلبی کے فوری بعد تھانہ پبی کی پولیس نے ہوشیاری دکھاتے ہوئے شک کی بناء پر
ایک بھائی کو گرفتار کرلیا جبکہ دوسرے بھائی بلال کو رات کو ہی چھوڑ دیا
گیا . عدالت عالیہ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں قائم بنچ نے
نے اس کیس کو مسلسل تین دنوں تک سنا اور آخر میں پولیس کی غلط بیانی پر ان
دونوں ایس ایچ او کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کا حکم دیدیا-
ایف آئی آر کب ہوگی ، کن دفعات میں ان کے خلاف چارج شیٹ ہوگی ، پولیس ان کے
خلاف کیا محکمانہ کارروائی کریگی . پولیس والے اپنے ساتھی کو بچانے کیلئے
کیا کرینگے، کیا وہ خاندان کو دبائو کا شکار نہیں کرینگے اوردو ماہ سے
لاپتہ بھائیوں کے والدین پر کیا گزری ہوگی ان کی دو ماہ کی زیادتی کا جواب
کون دے گا یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں.اور اگر ہیں بھی تو
اس کی فالو اپ کون کرے گا.کہ عدالتی احکامات پرکتنا عمل ہوا.
عدالتوں میں آنیوالے زیادہ تر افراد پولیس کی بے رحمی کا شکار ہوتے ہیں ان
میں ایسے طالب علم بھی شامل ہیں جنہیں پولیس نے صرف اس بناء پر گرفتار
کرلیا کہ انہوں نے تلاشی لینے سے متعلق ان سے سوال کیا اور پھر غریب شہری
کے بیٹے کو آئس اور منشیات سمیت چوری کے نامعلوم مقدمات میں اندر کردیا اور
پھر ان معصوم نوجوانوں کی زندگیاں کورٹ کچہری کے چکر کاٹتے کاٹتے گزر جاتی
ہیںکچھ لوگ توانصاف کے حصول میں ناکامی کے بعد جرائم کی دنیا کا رخ کرلیتے
ہیں .پھر پولیس مقابلے ہوتے ہیں جن میں بیشتر جھوٹے ہوتے ہیں لیکن اگر ہو
بھی جائیں او ر پولیس اہلکار مر جائے تو اسے شہید بنا کرپاکستان کے جھنڈے
میں لپیٹ کر لاکھوں روپے دئیے جاتے ہیں، اس کے بیٹوں کو نوکری مل جاتی ہے
جبکہ جرائم کی راہ اختیار کرنے والا شخص مر جائے تو اسے مفرور قرار دیکر
نامعلوم مقام پر دفن کردیا جاتا ہے اور اسے بے عزت اور نفرت کا نشانہ بنایا
جاتا ہے.
بیس سالہ اسرائیل جو پھندو کے علاقے ہزار خوانی کا رہائشی تھا کو غز چوکی
چمکنی پولیس سٹیشن کے اہلکاروں نے سڑک کنارے گاڑیوں کی سروس کرتے ہوئے پکڑ
لیا اور اس پر پانچ گرام آئس کا مقدمہ درج کرلیادو ماہ سے بیس سالہ یہ
نوجوان جیل میں قید ہے سفید داڑھی اوربالوں کے مالک اس کے والد عمرا خان
عدالت عالیہ پشاور میں رو رہے تھے کہ وہ مزدور ہے اور اس کے مزدور بیٹے کو
جھوٹے مقدمے میں ملزم بنا کر پیش کیا گیا اس کے مطابق ہم مزدور لوگ ہیں اور
ہمار ے پاس کھانے کیلئے پیسے نہیں آئس کہاں سے خریدیں گے میں بیٹے کے رہائی
کیلئے د و ماہ سے خوار ہورہا ہوں جبکہ میرے گھر میں فاقے ہیں. یہ الفاظ
کہتے ہوئے بزرگ شہری عمرا خان رو پڑا. اسی کیس میں چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ
کی عدالت میں والد نے اپنا بیان پیش کرنے کی کوشش کی اور بتانے کی کوشش کی
کہ پولیس نے ان کے ساتھ کیا ظلم کیا مگر اس کے وکیل کے منشی نے اسے خاموش
کروا دیا اور ہائیکورٹ نے دو لاکھ روپے کی د و نفری ضمانت پر عمرا خان کے
بیٹے اسرائیل کی رہائی کے احکامات جاری کردئیے
دو دن قبل ایک ایس ایچ او نے دو گرام آئس میں دو افراد کو گرفتار کیا تھا
جن کا کیس جسٹس مسرت ہلالی کی عدالت میں ہوا جب اس کیس میں ایس ایچ او پیش
ہوا تو جسٹس مسرت ہلالی نے اس سے استفسار کیا کہ دو گرام میں ایک گرام آپ
ایف ایس ایل کیلئے لے گئے تو پھر ایک گرام کدھر ہے جس پر ایس ایچ او کوئی
جواب نہ دے سکے.
آخر یہ پولیس اہلکار کب سدھریں گے ٹھیک ہے کہ جس طرح ہاتھ کی پانچ انگلیاں
یکساں نہیں ہوتیں اسی طرح پولیس میں بھی اچھے لوگ بھی شامل ہیں اور برے
افراد کم ہیں لیکن ان برے افراد کی وجہ سے پوری پولیس فورس بدنام ہوتی ہے
کیا اصلاحات کے نام پر تبدیلی والی خیبر پختونخوا حکومت پولیس کی بدنامی کا
سبب بننے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے گی کہ نہیں ، کیا ان
پولیس اہلکاروں کے اپنے بچے نہیں جو انہیں دوسروں کے بچوں کے درد کا خیال
نہیں. کیا انہیں اللہ کے عذا ب کا خوف نہیں. ایک لمحے کیلئے ظلم کرنے والے
سوچ لیں..
کیا اس دن جب انسان کے اپنے جسم کے اعضا ء خود اپنے اوپر گواہی دینگے کیا
انہیں اللہ کے عذاب کا ڈر نہیں ..سوچئیے گا ضرور..
|