وقت گھنے جنگل کا وہ جوان چیتا ہے جس کو اگر گرفت میں نہ
لیا جائے تو وہ جوان غزالوں کا لہو نچوڑ لیتا ہے۔اوراگر جسم سے قطرہ قطرہ
خون نچوڑ لیا جائے تو ماسوا ہڈٰیوں کے کچھ باقی نہیں بچتا،ازمنہ قدیم میں
جب لوگوں کے پاس وافر وقت موجود تھا تو لٹریچر میں ناول،افسانہ اور ڈرامہ
جیسی اصناف نے جنم لیا۔لوگ ہزار بارہ سو صفحات سے کم کوئی ناول وافسانہ
پڑھنا پسند ہی نہیں کرتے تھے۔بلکہ اردو ادب میں تو افسانہ کی تعریف میں یہ
بات شامل کی جاتی ہے کہ ایسی صنف ادب جسے ایک نشست میں نہ پڑھا جا سکے
افسانہ کہلاتا ہے۔زمانہ نے جب ترقی کی کروٹ لیتے ہوئے اپنی نہج کو تبدیل
کیا تو ادبی اصناف کی تعریف کے معنی بھی تبدیل ہو گئے،ضخیم افسانہ مائیکرو
افسانہ اور بھاری بھرکم ناول ،ناولٹ میں تبدیل ہو گیا۔جس نے ایک نئی اردو
اصطلاح مائیکرو فکشن کو جنم دیا۔میکرو سے مائیکرو ہونے کا سب سے بڑا سبب یہ
بنا کہ اب لوگوں کے پاس وقت اتنا دستیاب نہیں ہے جتنا کبھی ہواکرتا تھا جس
کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ جدید ٹیکنالوجی کا بڑھتا ہوا رجحان ہے۔کہ
نوجوان نسل کو سوشل میڈیا نے اس قدر مصروف کردیا ہے کہ ان کے پاس ایک ہی
گھر میں رہتے ہوئے اپنے بزرگوں سے پاس بیٹھنے کا بھی وقت مشکل سے نکلتا ہے
جس پر ہمارے بعض بزرگ حضرات احساسات فخر میں بھی مبتلا ہیں کہ میرا بچہ ہر
وقت کمپیوٹر پر بیٹھا رہتا ہے،توجہ طلب بات یہ ہے کہ وہ جدید ٹیکنالوجی کا
استعمال کس مقصد کے حصول کے لئے کر رہا ہے۔
مذکور کا مقصد صرف یہ تھا کہ گذشتہ چند روز سے پورے پاکستان میں ایک ہی
موضوع بحث میں پوری قوم مبتلا ہے کہ ڈرامہ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ میں دانش کو
مارنا چاہئے تھا کہ نہیں ثانیاً ڈرامہ کے ایک ڈائیلاگ،اس دوٹکے کی لڑکی کے
لئے آپ مجھے پچاس ملین دے رہے تھے‘‘میں پورے عالم خصوصا پاکستانی خواتین کی
تذلیل کی گئی ہے۔اس سلسلہ میں کوئی دو عشروں سے کہ جب اس ڈرامہ کی ابھی
آخری قسط نشر بھی نہیں ہوئی تھی مختلف طبقہ ہائے فکر میں اس تذلیل نسواں پر
ایسے لے دے ہورہی ہے جیسی اس وقت پاکستان کے مسائل کی جڑ خلیل الرحمن قمر
جو کہ اس ڈرامہ کے مصنف ہیں وہی ہے۔نام نہاد حقوق نسواں کی علمبردار این جی
اوز کی خواتین سربراہان اور قدامت پرست اہل فکر ودانش کے حامل افراد یہ بات
جبراً ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ خلیل الرحمن قمر نے صریحا ً پاکستانی
عورت کو سر بازار اپنے ڈائیلاگ کے ذریعے برہنہ کیا ہے جو کہ عورت کی تذلیل
ہے اور ایسا رویہ پاکستانی خواتین کے لئے کسی طور قابل قبول نہیں ہے۔ایسے
ہی پچھلے دو عشرہ سے خیل الرحمن قمر بھی مختلف ٹی وی ٹال شوز میں اپنی بے
گناہی ثابت کرنے اور خواتین کی تکریم کے لئے اپنا موقف پیش کرنے کی سعی
لاحاصل میں لگے ہوئے ہیں۔سعی لاحاصل اس لئے کہ جس قوم کے پاس اتنا وقت ہے
کہ وہ سارا سارا دن ایک ڈرامہ پر بحث کرتے گزار دیتی ہو اسے دلیل وثبوت سے
ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے کہ میں نے دوٹکے کی عورت پاکستانی ماں،بہن،بیوی
اور عورت کو نہیں بلکہ ایسے کردار کی اس لڑکی کو کہا ہے جو محض ڈرامہ کا
ایک حصہ تھا اس کے سوا کچھ نہیں۔
ایک بادشاہ کے دربار میں ایک شعبدہ باز حاضر ہو کر کہنے لگا کہ بادشاہ
سلامت میرے پاس ایک ایسا ہنر ے جو سلطنت میں رعایا کے کسی فرد کے پاس
نہیں،بادشاہ نے حیران ہوتے ہوئے شاہی فرمان جاری کیا کہ اپنے اس ہنر کو
دربار میں موجود تمام حاضرین کے سامنے پیش کیا جائے،اس شخص نے ایک سوئی کو
سیدھا کھڑا کیا اور کچھ فاصلہ سے دھاگہ کو پھینکا تو وہ سیدھا سوئی کے
سوراخ میں سے گزر کر اس پار ہوگیا،دربار میں موجود سب نے تالیاں بجا کر
تحسین پیش کی مگر بادشاہ نے اس شخص کے اس ہنر کے انعام کا عجب اعلان کیا،کہ
اسے دینارودرہم سے نوازنے کے ساتھ ساتھ ایک سو کوڑے بھی لگائے جائیں،پوچھنے
پر بادشاہ سلامت نے کہا کہ انعام اس لئے کہ اس نے محنت سے اس ہنر میں
یکتائی حاصل کی جبکہ سزااس لئے کہ اس نے اپنی زندگی ایک بیکار محنت میں
ضائع کر دی۔
میرے پاس تم ہو کی آخری قسط کے نشر ہونے اور اختتام میں دانش کی موت نے
خواتین اور بچوں کو اس طرح رلا دیا کہ جیسے حقیقتاً زندہ جاوید دانش کی موت
واقع ہو گئی ہو،مجھے تو لگتا ہے دانش کی موت واقع نہیں ہوئی اس قوم کی دانش
ہی مر گئی ہے اور تو اور بعض ٹی وی چینلز نے تو اسے بطور بریکنگ نیوز کے
بھی چلایا۔میں اس پورے عرصہ ایک ہی بات سوچتا رہا کہ سوشل میڈیا،الیکٹرانک
میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر اس ڈرامہ کو جس ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا
،کیا اس کی ضرورت تھی،کیا لوگوں کے پاس اتنا وافر وقت ہے کہ ایک ڈرامہ کو
اتنی سنجیدگی سے اپنی زندگی پرحاوی کرلیں،کیا دال روٹی کے بڑھتے نرخ پہ
واویلا مچانے والی قوم کے پاس ایک ڈرامہ کی آخری قسط کی بصارت کے لئے پانچ
کروڑکی وافر رقم کرنے کی معاشی طاقت ہے؟ایسے ہی کثیر سوالات آپ کے ذہنوں
میں بھی گردش کر رہے ہوں گے لیکن اس کا جواب ہمیں من حیث القوم نہ تو نام
نہاد این جی اوز کے عہدیداران اور نہ ہی ڈرامہ کے مصنف وپروڈیوسر سے طلب
کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ان سب سوالوں کا جواب ہمارے اپنے اندر،اپنے ضمیر،فکر
اور روح میں موجود ہے اس کے سوا باقی سب ’’مایا ‘‘کا چکر ہے۔وگرنہ تہذیب
اور ترقی یافتہ اقوام وہی کہلاتی ہیں جو اپنے ذرائع اور وقت کا بروقت اور
صحیح استعمال کرتے ہیں۔نہ جانے میریی قوم کی فکراور ترجیح میں یہ بات کب
شامل ہوگی کہ دنیا میں وہی قومیں کامیابی وکامرانی کے عروج کو پہنچتی ہیں
جو وقت کا مثبت استعمال کرنے کا ہنر اور فلسفہ پر عمل پیرا ہو جاتی
ہیں۔ارسطو نے سچ ہی کہا تھا کہ جب آپ وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں تو مت
سمجھئے کہ آپ وقت کو ضائع کر رہے ہیں بلکہ وقت آپ کو ضائع کر رہا ہوتا
ہے۔میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اب بھی اگر آپ وقت اور ذرائع کا
مثبت استعمال کرنا سیکھ لیں تو کامیابی آپ کے قدموں کی دھول بن جائے گی۔
|