سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس ( یاداں)

قاضی محمد لعل خان

اب نہ ہم عصر رہے .... نہ بعد عصر وہ محفلیں رہی.
مٹهاس اگر ایک چهلے سے ..... ثابت ہو جائے تو دو سے کیا لینا .

مسجد والی گلی کا جو پہلا موڑ ہے نا
یہاں قاضی محمد لعل نامی ایک بزرگ کا گھر ہے جسے وہ کاشانہ کہا کرتے تھے وہ اکثر کہا کرتے تھے کے محل چوبارے تو بڑے لوگوں کے ہوتے ہیں ہمارا تو چار تنکوں کا بنا آشیانہ ہے پتہ نہیں کب کوئی جونکا ہوا کا آئے گا اور اپنے ساتھ اڑا کے لے جائے گا. قاضی صاحب دین دار اور ملنسار آدمی تھے اس لیے اہل محلہ آپ کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے. بعد نمازِ عصر آپ کے ہم عصر رفقاء آپ کے گھر آ جاتے بیٹھتے باتیں کرتے حتی کہ یہ نشست رفقاء مغرب تک جمی رہتی. آپ بھی بعض اوقات اپنے ہمعصر رفقاء کے گهروں میں جاتے لیکن نہایت عسرت کے باوجود بھی کبھی کسی کے ہاں خالی ہاتھ نہ جاتے . ایک دفعہ وہ اپنے ایک دوست ماسٹر فیض محمد کے گهر جانے لگے تو حسب معمول کچھ لے جانے کے لیے جیب ٹٹولی تو ایک روپے کا سکہ ملا دو تین بار اس کو اس حسرت سے مسلہ جیسے دو تین کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں یا یہ سوچ رہے ہوں کہ اس سے کیا ملے گا پهر کسی انجانی سوچ کے تحت عدالت مٹھائی والے کی دکان کی طرف چلے ہی گے دکان پر پہنچ کر عدالت کو سکہ تهماتے ہوئے کہنے لگے عدالت جی اس کا کچھ دے دو اس نے ہنستے ہوئے اور پیری کا لحاظ کرتے ہوئے ایک چهلا جلیبی کا اخبار کے پنے میں لپیٹ دیا وہ اسے لے کر اپنے دوست فیض محمد کے گهر لے گے. ماسٹر فیض محمد بهی بڑے نکتہ چیں شخص تهے ہنسی مخول عادت ثانیہ تهی تبسم ہمیشہ لبوں پر مچلتا رہتا تھا آنکھوں میں ہمیشہ شوخی بسائے رکهتے تهے اور کچھ اپنے نام سے جڑے لفظ ماسٹر پر نازاں رہتے تھے وہ کوئی سکول یا مدرسے کے معلم نہیں بلکہ ملٹری والوں کی پهٹی پرانی وردیوں کے پیوند کار تهے جس وجہ سے ٹیلر ماسٹر کہلانے لگے بعد از سبکدوشی لفظ ٹیلر جاتا رہا اور ماسٹر باقی رہا، ہاتھ میں مروڑا ہوا کاغذ دیکھ کر بہو سے کہنے لگے کوئی ٹوکرا لے آنا بہو نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو کہنے لگے دوست آئے ہیں کچھ تو لائے ہوں گے. بہو نے غور سے دیکھا تو واقعی ہاتھ میں کچھ تها پوچهنے لگی یہ کیا ہے کہنے لگے جلیبی . ماسٹر جی کہنے لگے کیا مجال ہے کہ ذرا سا بھی مبالغہ آرائی سے کام لے لیں دل رکھنے کے لیے تو کہہ دیتے جلیبیاں ہیں. بہو نے چڑ مڑ کیا ہوا کاغذ کهول کر دیکھا تو واقعی ایک ہی جلیبی کا چهلا تها ہنستے ہوئے کہنے لگی یہ ایک چهلا نہ بھی لاتے تو تیمارداری ہو ہی جاتی قاضی جی کہنے لگے ہم نے اپنی محبت کی مٹهاس ظاہر کرنی تهی اگر وہ ایک ہی چهلے سے ہو جائے تو دو چهلوں سے کیا لینا. وقت کب سدا ایک سا رہتا ہے اب نہ وہ لوگ رہے نہ وہ چاہتیں رہی .

قاضی صاحب اجل داعی کو لیبک کہتے ہوئے اگلے جہاں سدھار گئے اب آشیانہ تو ہے لیکن بعد نماز عصر ہمعصروں کی وہ محفلیں نہیں سجتی .گلی کے اختتام پر جامع مسجد ہے جہاں ساجد کچھ ساعتیں سربسجود ہو کر سکون دل حاصل کرتے ہیں.
 

Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 62073 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.