مشہور محاورہ ہے کہ اس کو چھٹی
نہ ملی جس نے سبق یاد کیا؛ مگر آج کے اس ترقی یافتہ دور میں اسلامی جمہوریہ
پاکستان میں یہ سب الٹ ہو گیا ہے مثلاً بڑے بوڑھے کہتے تھے کہ پڑھو گے لکھو
گے بنو گے نواب کھیلو گے کودے گے ہوگے خراب، اب پڑھنا لکھنا تو درکنار کھیل
یی کھیل میں وہ بھی ہارنے کے باوجود لاکھوں کا انعام ملے ۔ ویسے بھی پڑھنے
میں کیا رکھا ہے پہلے تو ڈگری چیک ہونے کا ڈر بھی تھا اب وہ بھی نہیں ہے ،
اسمبلی کا ممبر بننے کے لیے گریجویٹ کی شرط بھی ختم ہو گئی اور تیسری چیز
ہے قائداعظم کی تصویر والے کاغذ ، جب تک جیب میں یہ باقی ہے تب تک کوئی کام
رک نہیں سکتا۔ اسی بات پر ایک واقعہ یاد آگیا آپ سب بھی سنئےاور سر دھنیئے۔
گزشتہ دنوں کی بات ہے ھمارے ایک دوست کا کام کسی سرکاری ادارے میں پھنس گیا
وہ صاحب بہت پریشان ہوئے کہ کس طرح اس کام کو حل کیا جائے جب کہ انہوں نے
سنا ہوا تھا کہ اس ادارے کا اعلٰی افسر رشوت نہیں لیتا اور بہت ہی متقی اور
پرہیزگار بندہ ہے۔ بالآخر ایک دن وہ اس افسر کے پاس پہنچ گئے سلام دعا کے
بعد انہوں نے تمام احوال سنا اور کہا کوئی بات نہیں ابھی ہوا جاتا ہے کچھ
دیر انتظار فرمائیے ھم چائے پی کر آپ کا کام کردیں گے ھمارے دوست (احمد
صاحب) کہاں ٹہرنے والے تھے جھٹ پول پڑے چائے ھماری طرف سے ہوگی ۔ افسر
موصوف نے کہا چلیں پھر ایسا کریں کہ ھم آپ کا کام کرتے ہیں اور آپ ھمیں
چائے نیچے روڈ پر بنے کیبن سے بھجوا دیجئے بس اس کو کہیے گا کہ چینی ایک
چمچ وہ سمجھ جائے گا ، بھائی احمد کام ہوجانے کی خوشی میں چل پڑے نیچے آکر
انہوں نے چائے کا آڈر دیا چائے والے نے پوچھا کہ چینی کتنے چمچ انہوں نے
کہا کہ ایک چمچ بتایا ہے چائے والے نے کہا کہ دس ہزار روپے دے دیں ۔ اس
اچانک مطالبہ سے احمد بھائی کی تو حالت عجیب تھی کاٹو تو بدن میں خون نہیں
سر پکڑ کر بیٹھ گئے اب اس مقام پر کھڑے تھے کہ انکار بھی نہیں کرسکتے تھے
اور اقرار کی ھمت نہیں تھی بہرحال ھم اور ھمارے ایک اور دوست نے ان کو
سنبھالا اور اس ایک پیالی چائے کی قیمت ادا کی تاکہ ان کا کام پایہ تکمیل
کو پنہچے، ھم حیران تھے کہ کس طرح ایک کام بغیر رشوت کے ہوگیا ھمارے وھم
وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس قدر خفیہ اور مبہم طریقے سے رشوت کھانے کا
سامان بھی ہو سکتا ہے ۔ |