پھولوں کا شہر پشاور

مغلیہ دور میں ” پھولوں کا شہر “ کہا جانے والا پشاور آج لہو رنگ ہوچکا ہے دہشت گردی اور عسکریت پسندی نے پشاور شہر کی خوبصورتی کو ماند کردیا ہے صوبہ سرحد میں جاری عسکریت پسندی اور دہشت گردی کی لہر کی وجہ سے ہر دن پشاور شہر میں بارود کی بو سونگھی گئی اور شہر دھواں دھواں ہوتا گیا ہسپتالوں میں چیخ وپکار اور بم بلاسٹ کی جگہ پر انسانیت کی تذلیل انسانی اعضا کے ٹکڑوں کی صورت میں دیکھی گئی اس کے بعد میڈیا پر اعلانات کہ ہم مزید کاروائیاں کریں گے یعنی مزید انسانیت کی تذلیل کریں گے یہ وہی پشاور ہے جس کے بارے میں شہنشاہ بابر نے اپنی سوانح حیات ”تزک بابری “ میں اپنے مشاہدات سپرد قلم کرتے ہوئے لکھا کہ یہاں تاحد نظر پھول ہی پھول دکھائی دیتے ہیں ‘ وہ اس شہر کی تاریخ کا زریں دور تھا پشاور جو درہ خیبر میں داخل ہونے کے مقام پر واقع ہے جو وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیاء کے گیٹ وے کا درجہ رکھتا ہے ‘ ہندوستان کے افغان بادشاہ شیر شاہ سوری نے دہلی کابل شاہی روڈ تعمیر کرتے ہوئے اس شہر کا خاص خیال رکھا اور وہ شاہراہ جسے آج گرینڈ ٹرنک روڈ ( جی ٹی روڈ) سے موسوم کیا جاتا ہے ‘ اس عظیم شہر سے گزاری جس سے اس کی تجارتی و کاروباری اہمیت میں اضافہ ہوا ‘مختلف تہذیبوں کا سنگم پشاور شاہراہ ریشم پر واقع ایک بڑا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا ‘ یہ دریائے سندھ یا مقامی آبادی کی زبان میں دریائے اباسین کے مغرب کی سمت واقع اور پختونخوا ‘ پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقوں میں کھیتی باڑی کا سرچشمہ ہے ‘ یہ وسطی ایشیاء اور جنوبی ایشیا دونوں کا سرحدی شہر ہے پشاور جسے پختون پیخور پکارتے ہیں یا ہندکو بولنے والے قدیم پشاوری باشندوں کے نزدیک پشور ہمیشہ ایسا شہر رہا ہے جس پر حملے ہوتے رہے ہیں ‘ ماضی کے حملہ آوروں نے جن کا تعلق وسطی ایشیاء‘ فارس ‘ افغانستان ‘ ہندوستان اور اس سے آگے دوسرے ممالک سے تھا ‘اس شہر پر یلغار کی اور اسے لوٹتے رہے ‘نو آبادیاتی فتوحات کی مختلف مہمات کے دوران آریاوں ‘ یونانیوں ‘ اہل فارس ‘ مغلوں ‘ افغانوں ‘ سکھوں اور انگریزوں نے پشاور پر قبضہ کیا اور یہ شہر ان کے ہاتھ سے نکلتا رہا ‘ پھر پختون قبائل جو اس شہر سے متصل خیبر اور مہمند قبائلی علاقوں ‘ درہ آدم خیل اور حسن خیل کے فرنٹیئر ریجنز میں آباد ہیں اپنے خلاف حملے کی صورت میں اس شہر کیلئے خطرہ بنتے رہے۔پشاور پر آج پھر حملہ ہوا ہے اور یہ حملہ غیروں نے نہیں بلکہ اپنوں نے اسلام اور مذہب کے نام پر کیا ہے اپنی رٹ قائم کرنے کے لئے بے گناہ معصوموں کو موت کے منہ میں دھکیلا گیا جن کا کوئی قصور نہیں ماﺅں سے لخت جگر بچوں کو ماؤں سے محروم اور یتیم کیا گیا بیواﺅں کے سہاگ اجاڑ دیئے گئے کوئی گھر ایسا نہیں بچا جہاں ماتم نہ ہوا ہو جہاں آہ وفغان نہ سنی گئی ہو دھماکے کے دن درجنوں گھروں سے رونے کی آوازیں آتی رہیں اور یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں پتہ نہیں اس تاریک صبح کی سحر کب ہوگی یہ موجودہ حملہ بھی وقتاً فوقتاً ہونے والے ان حملوں میں سے ایک ہے جن کا اس شہر کے بہادر اور غیور باشندے استقامت اور پامردی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے ان باشندوں کے ذہنوں میں اس امر کے متعلق کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ وہ اپنے شہر کو لاحق اس تازہ ترین خطرے پر بھی قابو پالیں گے اور کامیاب و کامران ہوں گے لیکن اس کیلئے انہیں بڑے پیمانے پر قربانیوں اور ضبط و تحمل کی ضرورت ہے اب شہر کے باسی بھی ان حملوں سے ڈرنے والے نہیں وہ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں دھماکے کے دن وہ گھروں میں سہم کر نہیں بیٹھتے بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں کیونکہ یہ مختلف نوعیت کی جنگ ہے دو دو سو کلو تک بارودی مواد سے لدی گاڑیوں کے ذریعہ خود کش حملے ایک نئی چیز اور ان حملوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے جن کا پشاور ماضی میں سامنا کرتا رہا ہے ‘ ان دنوں پشاور میں کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے ‘ حتیٰ کہ فوج ‘ پولیس اور حکومتی ادارے و تنصیبات بھی محفوظ نہیں ہیں جن کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عوام اور بے گناہ و معصوم شہریوں سے بھرے بازاروں اور عام مقامات کا تحفظ یقینی بنائیں دیگر شہر وں میں بھی عسکریت پسندی کی کاروائیاں ہوتی ہیں مگر پشاور میں جس قسم کی کاروائیاں کی گئی اس کی مثال مشکل ہے لاہوری اپنے شہر پر فخر کرتے ہیں اور وہ اس میں حق بجانب بھی ہیں ”لاہور ‘ لاہور اے “اور ” زندہ دلان لاہور “ وہ القابات و خطابات ہیں جو بہت عام استعمال کئے جاتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے اس ثقافتی صدر مقام میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والے بڑے زندہ دل اور جوش و ولولہ سے بھر پور ہوتے ہیں ‘ لگ بھگ 30لاکھ کی آبادی کا شہر پشاور جو اگرچہ لاہور سے کہیں چھوٹا ہے ‘ لیکن اس کے باسی بھی پیچھے نہیں ہیں ‘صوبہ خیبر ُختونخوا میں رہنے والے پشاور کے متعلق اکثر یہ کہتے سنے جاتے ہیں ” پیخور خو پیخور دے کنا“ ( یعنی پشاور پشاور ہے) یہ اس لئے بھی سچ ہے کہ پشاور میں آپ کو جو گرم جوشی اور مہمان نوازی دیکھنے کو ملتی ہے وہ کسی اور جگہ نظر نہیں آتی پشاو چونکہ وسطی ‘ مغربی اور جنوبی ایشیاء کا قدیم ترین شہر ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد دوسری صدی عیسوی میں کشن بادشاہ کنشک نے رکھی تھی ‘پشاور کے نواح میں نصب کنشک کا سات سو فٹ بلند مجسمہ اس وقت دنیا کا بلند ترین مجسمہ تصور کیا جاتا تھا ‘زمانہ قدیم میں پشاور کو پرشاپورہ کہا جاتا تھا جس کا مطلب ہے مردوں کا شہر ‘ یہ سنسکرت کا لفظ ہے پشاور کے ہندو اور بدھ ماضی کے سبب اس کا نام پرشاپورہ مستعمل تھا ‘ اگر اس نام کا وہی مطلب ہے جو اوپر دیا گیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اسے یہ نام دینے والوں نے ساری زنانہ آبادی کو حذف کر کے اس کا یہ نام رکھا تھا اگرچہ زمانہ بدل گیا ہے اور آج خواتین پشاور اور صوبے کے دوسرے حصوں میں زندگی کے کئی شعبوں میں سرگرم و فعال دیکھی جاتی ہیں ‘ لیکن شہر کی قدامت پسندانہ اقدار ظاہر کرتی ہیں کہ یہاں آج بھی مرد خواتین کو وہ آزادیاں دینے کیلئے تیار نہیں ہیں جو ان کا حق ہے ‘یا پھر ہو سکتا ہے ” شہر مرداں “ سے مراد ایسے جری و جفاکش لوگوں کا مسکن ہو جو اپنی غیرت و حریت کے تحفظ کیلئے لڑنے اور کٹ مرنے کو ہمہ وقت مستعدو تیار ہوں مغربی صحافی جو پشاور کے متعلق اپنے مکتوبات سپرد قلم کرتے ہوئے اسے گردو غبار سے اٹا ہوا شہر لکھتے تھے اب انہوں نے نئے الفاظ کا بھی اضافہ کردیا ہے اب پشاور کو وار سٹی،بارود کا شہر کہا جارہا ہے اور زیادہ تر ممالک نے اپنے باشندوں کو صوبہ خیبر پختونخوا خاص کر پشاور کے سفر سے منع بھی کیا ہے خود پشاور کے باسی شہر کو خیر باد کہہ گئے ہیں اور اسے بھلا بیٹھے ہیں ‘ان میں بہت سے روزی رزق کی تلاش میں باہر نکل گئے ہیں جن کے اب لوٹ کر واپس آنے کا کوئی امکان نہیں ہے ‘جو باقی رہ گئے ہیں ‘ وہ بھی محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کا سوچ رہے ہیں ‘ جو لوگ ایک نئے مقام پر منتقل ہونے کی استطاعت رکھتے ہیں ‘ان کیلئے اسلام آباد پسندیدہ امن سے بھر پور منزل ہے جہاں اپنے ہی شہر میں لوگوں کو سیکورٹی اور تلاشی کے اذیت ناک مرحلوں سے روزانہ گزارا جار ہا ہو وہاں کیا خاک کوئی رہے گا اگر کہیں پھر سکیورٹی فورسسز کے کہنے پر گاڑی نہیں روکی تو گولی آپ کا مقدر بن جائے گی‘پشاور آج جن کربناک حالات میں گھرا ہوا ہے ان کا آغاز ‘1970کی دہائی میں اس وقت ہوا جب سردار محمد داؤد نے 1973ءمیں اپنے کزن بادشاہ ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر افغانستان کا اقتدار سنبھالا تھا اور پختونستان کیلئے زیادہ زور شور سے آواز بلند کرنی شروع کی پاکستان میں اس وقت وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے ” جیسے کو تیسا“ کے مصداق جوابی کاروائی کے طور پر افغان منحرفین کے ساتھ رابطے کئے اور ان کی پیٹھ ٹھونکی ‘ ان میں گلبدین حکمت یار ‘ برہان الدین ربانی ‘ احمد شاہ مسعود اور مولوی یونس خالص شامل تھے ‘ان سب کو پشاور میں ٹھہرایا گیا اور ان کے جنگجوؤں کو تربیت دی گئی جو افغانستان میں سرگرمیوں کیلئے دراندازی کرتے تھے ‘افغان حکومت نے پشاور اور صوبہ سرحد کے دوسرے حصوں میں بم دھماکے کرنے والوں کی امداد و اعانت کی ‘جب اپریل 1978ءمیں افغان کمیونسٹوں نے علم بغاوت بلند کیا اور مسند اقتدار پر فائز ہوئے تو بم دھماکوں کی کاروائیوں میں تیزی آگئی اور تواتر سے ایسے واقعات رونما ہوئے جن کا نتیجہ دسمبر 1979ء کے دوران افغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت کی صورت میں برآمد ہوا اس کے بعد امریکہ کے ساتھ ساتھ پاکستان افغان مجاہدین کا سب سے بڑا حامی و مدد گار بن گیا اور ڈیورنڈ لائن کے پار قابض سرخ فوج کے خلاف جہاد کیلئے سرحد اور بلوچستان کے صوبوں نے فرنٹ لائن صوبوں کی حیثیت اختیار کر لی ‘پشاور کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا کیونکہ یہ افغان مجاہدین کا ہیڈ کوارٹر ‘ بین الاقوامی جہاد کا مرکز اور دنیا بھر کے جاسوسوں کا صدر مقام بن گیا تھا انیس سو اسی کی دہائی اور 1990ء کی دہائی کے اوائل کے دوران پشاور میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات کی ایسی بھر مار ہوئی کہ اوسطاً ایک ہفتے میں ایک بم دھماکہ ہوتا رہا ‘ اس زمانے میں بظاہر کے جی بی اور خاد کے ایجنٹوں نے بس اڈوں ‘ سینما گھروں ‘ ریستورانوں اور سکولوں کو بم دھماکوں کا نشانہ بنایا جو افغان مجاہدین کیلئے پاکستان کی حمایت کا بدلہ لینے کیلئے کئے جاتے تھے ‘ان واقعات کو ذہن میں تازہ کریں تو ان واقعات اور آج عام مقامات پر ہونے والے بم دھماکوں کے واقعات میں گہری مماثلت نظر آتی ہے ‘پشاور میں بم دھماکوں کی موجودہ لہر اس یلغار کا بدلہ لینے کیلئے عسکریت پسند گروپوں کی جوابی کاروائی ہے جو وزیرستان ‘اورکزئی ‘ کرم ‘ درہ آدم خیل ‘ خیبر ایجنسی ‘ مہمند ‘ باجوڑ اور سوات میں ان پر کی گئی ہے پشاور میں جو موجودہ حالات ہیں اس میں اگر ہم افغان مہاجرین کو مورد الزام ٹھہرائیں تواس میں کوئی شک نہیں ہوگا ہمارے حکمرانوں نے ایک غلط فیصلہ کرتے ہوئے لاکھوں افغان مہاجرین کو پاکستان آنے کی اجازت دی جس کے بعد وہ مہاجرین لاکھوں کی تعداد میں ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے اور ان کی زیادہ تعداد پشاور میں رہائش پذیر ہوئی جن کو پشاور کے غیور عوام نے دلوں میں جگہ دی اپنے ساتھ کلاشن کوف کلچر اور بے حیائی لانے والے یہ افغان مہاجرین رفتہ رفتہ پشاور کے باسیوں کے کاروباروں پر قابض ہوگئے اور مقامی تاجروں کو چلتا کردیا آج پشاور میں بڑے بڑے کاروبار ان افغان مہاجرین کے ہیں جو غیر قانونی طور پر مقیم ہیں حکومتی اہلکاروں سے ساز باز کر کے انہوں نے پاکستانی شناختی کارڈز بھی بنوائے ہوئے ہیں ان کے آنے کی وجہ سے پشاور میں جرائم میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے اور چھوٹے سے لیکر بڑے جرم میں یہ لوگ ملوث ہیں عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی ان کے روابط ہیں اور یہی لوگ دہشت گردی کے واقعات میں بھی پائے گئے ہیں جو افغانستان اور دیگر ممالک کی ایجنسیوں کے ساتھ ملکر ملک کی جڑیں کھوکھلا کرنے پر مجبور ہیں عسکریت پسندی کے خلاف جاری جنگ میں صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت باہم ملکر عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لئے اپنی جدوجہد میں مصروف ہیں جن کو عوامی حلقوں کی حمایت حاصل ہے اور وہ دن دور نہیں جب پھولوں کا شہر پشاور پھر سے پھولوں کے شہر سے یاد کیا جانے لگے گا -
A Waseem Khattak
About the Author: A Waseem Khattak Read More Articles by A Waseem Khattak: 6 Articles with 7845 views It was a beautiful day of November 29, 1978 when I first opened my eyes with my Muslim family and heard the voice calling to prayer saying "ALLAH-O-AK.. View More