پانی انسان کے لئے خدا کی طرف سے
فراہم کردہ عظیم نعمت ہے، پانی کے بغیر انسان کا زندہ رہنا مشکل ہے۔ انسان
جب پانی پیتا ہے تو اسے سکون محسوس ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام انسان، چرند،
پرند، جانور اور پودوں کی نشوونما کے لئے پانی لازمی ہے۔ پانی جہاں زرعی
اجناس کی پیداوار کے لئے ضروری ہے وہیں پانی سے بجلی کی پیداوار بھی حاصل
کی جاتی ہے۔ پانی انسانوں کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ آکسیجن۔۔۔ خدا
نے انسان کو آگ، پانی، ہوا اور مٹی سے پیدا کیا، اس بات سے اندازہ لگایا جا
سکتا ہے کہ پانی انسان کے لئے کیا اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ پانی
زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن ہی نہیں ہے۔
انسانی جسم کا دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ ایک عام انسان کے جسم میں
پینتیس سے پچاس لیٹر تک پانی ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں انسان کنوﺅں اور دریاﺅں
کے پانی کو روز مرہ زندگی میں استعمال کیا کرتا تھا۔ آج کے دور میں آبادی
میں اضافے کی وجہ سے دریاﺅں اور ندی نالوں کے پانی کو بڑے آبی ذخیروں میں
محفوظ کیا جاتا ہے اور پانی کو ضرورت کے تحت استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا کے
بیشتر ممالک پانی کو بڑے آبی ذخائر میں محفوظ کر کے اسے اپنی ضروریات کے
تحت استعمال کرتے ہیں۔
ہمارے ملک پاکستان میں بھی بجلی اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے
لئے دو بڑے ڈیمز منگلا اور تربیلا موجود ہیں۔ منگلا ڈیم کی تعمیر ضلع
میرپور میں 1967ءمیں کی گئی، ڈیم چار سو چون فیٹ اونچا اور دس ہزار تین سو
فیٹ لمبا ہے جبکہ ڈیم میں دس پاور جنریشن پلانٹ نصب ہیں جن سے ایک ہزار
میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں دوسرا تعمیر ہونے والا ڈیم
تربیلا ڈیم تھا جو کہ صوبہ سرحد (خیبرپختونخواہ) کے ضلع ہری پور میں 1971ء
میں تعمیر کیا گیا، ڈیم کی اونچائی چار سو پچاسی فیٹ اور ڈھائی سو سکیئر
کلو میٹر تک پھیلا ہوا ہے جبکہ ڈیم سے چوتیس سو میگاواٹ بجلی پیدا کی جا
سکتی ہے۔ پاکستانی سیاست دانوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث تربیلا ڈیم کے بعد
پاکستان میں کوئی بھی بڑا ڈیم وجود میں نہیں آسکا جس کی وجہ سے آج پاکستان
پانی کے شدید مسائل میں مبتلا ہے۔ جب بھی ڈیم بنانے کی بات کی جاتی ہے تو
کالا باغ کا نام لے لیا جاتا ہے جس کو بنانے کے لئے ضلعی حکومتیں متفق نہیں،
ڈیمز کے بننے کی باتیں تو کی جاتی رہیں ہیں مگر اس اہم مسئلے کو سیاست کی
نظر کر دیا جاتا رہا ہے۔ کالا باغ ڈیم ضلع میانوالی میں کالاباغ کے مقام پر
بنایا جانا تھا۔ ان دنوں پاکستان ایک عشاریہ پانچ بلین ڈالر کی لاگت سے ایک
بڑے ڈیم نیلم جہلم پروجیکٹ پر کام کر رہا ہے جو کہ دریائے جہلم کے پانی کو
روک کر بنایا جا رہا ہے، ڈیم سے نو سو انتھر میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکے
گی اور پانی کی وسیع مقدار بھی محفوظ ہو سکے گی۔ مگر اس کے پانی پر بھی
بھارت کی نظر لگی ہوئی ہے کیونکہ بھارت بھی دریائے جہلم کے پانی کو روک کر
تین سو تیس میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا حامل کرشن گنگا ڈیم تعمیر کر رہا
ہے۔ حالانکہ یہ غیر قانونی ہے اور سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت تین دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی پر بھارت جبکہ
سندھ، جہلم اور چناب کے پانی پر پاکستان کا مکمل حق ہے۔ بھارتی آبی جارحیت
کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا کہ جب پاکستان نے بھارتی بگلیہار ڈیم کے ڈیزائن
پر اعتراضات کئے اور اسے ورلڈ بینک کے مقرر کردہ سوئس شہری پروفیسر ریمنڈ
لیفیت نے درست تسلیم کیا تھا۔ اس معاملے کے بعد سے بھارتی آبی جاحیت کا
سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔
میڈیا کی رپورٹ کے مطابق جب سے بھارت نے بگلیہار ڈیم بنایا ہے دریائے چناب
اٹھانوے فیصد خشک ہو چکا ہے اور اس کی وجہ سے چار لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی
بنجر ہو گئی ہے۔ جس طرح ہمارے دریا خشک ہو رہے ہیں یہ بات زیادہ قرینِ قیاس
بنتی جا رہی ہے کہ آئندہ جنگیں پانی کے حصول کے لئے ہوا کریں گی۔
بھارت نے آبی ذخیروں کی تعمیر کا ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت وہ
ہمارے دریاؤں پر باون ڈیم تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اسی سلسلے میں
بیشتر پروجیکٹس پر کام مکمل بھی ہونے والا ہے۔ ان پروجیکٹس کے مکمل ہوتے ہی
پاکستان کے پانی پر بھارت مکمل طور پر قابض ہو جائے گا۔ بھارت ہمارے ملک کی
زمین کو بنجر کرنا چاہتا ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ بھارت تمام دریاؤں کے
پانی پر اپنا حق جمائے اور پاکستان بوند بوند کو ترسے۔۔۔
نیل جہلم پروجیکٹ کے علاوہ ایک اور پروجیکٹ جس پر کام کرنے میں حکومت
دلچسپی رکھتی ہے وہ دیامیر بھاشا ڈیم پروجیکٹ ہے۔ دیامیر بھاشا ڈیم کی
تعمیر پر آٹھ عشاریہ پانچ بلین ڈالر لاگت آئے گی جبکہ ساڑھے چار ہزار
میگاواٹ بجلی کو پیدا کیا جا سکے گا۔ بھارت نے اس ڈیم کی تعمیر پر اعتراضات
کیے ہیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ ڈیم کا منصوبہ مقبوضہ علاقے میں قائم کیاجا
رہا ہے جو کہ غیر قانونی ہے اور ڈیم جموں و کشمیر میں سیلاب کا باعث بھی
بنے گا۔ یہ ڈیم مکمل طور پر پاکستانی علاقے میں بنایا جائے گا اس کے باوجود
بھارت کا اعتراض کچھ عجیب بات محسوس ہوتی ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر دریائے سندھ
پر اسلام آباد سے چار سو کلو میٹر، تربیلا سے تین سو پندرہ کلومیٹر، گلگت
سے ایک سو پینتیس کلومیٹر اور چلاس سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر کی جائے
گی۔
دریائے سندھ پانی کی کمی کے باعث نالہ سندھ کی شکل اختیار کر چکا ہے، جہاں
دریائے سندھ میں لوگ کشتیاں چلایا کرتے تھے آج وہاں عام آدمی چہل قدمی کرتا
دکھائی دیتا ہے۔ تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول پر پہنچ گئی ہے اور
قابل استعمال پانی کا ذخیرہ ختم ہو گیا ہے، پانی کے ذخائر میں کمی کے باعث
بجلی کی پیداوار میں بھی کمی ہوگئی ہے۔
قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ہر شہری کو پانچ ہزار چھ سو کیوبک پانی
میسر تھا جبکہ اب صورتحال پانچ گنا کم ہوچکی ہے۔ تربیلا اور چشمہ میں پانی
ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں بتیس فیصد کمی ہو چکی ہے جس سے پانی ذخیرہ کرنے
کی گنجائش اٹھارہ عشاریہ ایک سات ملین ایکڑ فٹ سے کم ہو کر بارہ عشاریہ سات
چھ ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے۔ پاکستان میں 1947ء میں پانی کی فی کس دستیابی
چھپن سو پچاس کیوبک میٹر، 1951ء میں چھ ہزار دو سو ساٹھ کیوبک میٹر فی کس،
2000ءمیں ایک ہزار چار سو انتیس کیوبک میٹر فی کس 2005ءمیں ایک ہزار چار سو
بیس کیوبک میٹر اور 2010ءمیں کم ہو کر ہزار کیوبک میٹر فی کس رہ گئی ہے۔
2025ءتک پانی کی فی کس دستیابی کم ہو کر پانچ سو پچاس کیوبک میٹر رہ جانے
کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ پاکستان کے دریاؤں سندھ، جہلم، چناب، کابل اور
دیگر دریائوں میں سالانہ ایک سو تیس سے ایک سو پیتیس ایم اے ایف پانی آتا
ہے جس میں سے صرف نو فیصد پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ اگر پاکستان نے بھارتی
آبی جاحیت کے خلاف مؤثر اقدامات اور متعدد ڈیمز کی تعمیر پر توجہ نہ دی تو
ملک شدید مسائل میں پھنس جائے گا۔ |