زندگی میری نظر سے
انسان کے پاس اللہ کی سب سے بری نعمت زندگی ہے انسان کی زندگی کا آغاز ماں
کے پیٹ سے نکل کے ہوتا ہے زندگی صرف اس دنیا میں آنے ، رہنے اور پھریہاں سے
کوچ کر جانے کا نام نہیں ۔ زندگی کا بنیادی مقصد کچھ کرنا ہے۔ انسان اس
دنیا مٰں کچھ کرنے کے لیے آتا ہے نہ کہ صرف جینے اور سانس لینے کے لیے آتا
ہے۔
بقول شاعر
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل بھی کیا خاک جب کرتے ہے
زندگی کا تعلق صرف نبض چلنے سے نہیں بلکہ حل سے ہے۔ جس انسان کا دل مردہ ہو
جائے وہ جیتے جی مر جاتا ہے۔ زندگی صرف خوشحالی یا ترقی سے مزین نہیں بلکہ
یہ طرح طرح کے مسائل اور مشکلات کا بھی مجموعہ ہے۔ میری نظر میں زندگی
بلاشتہ ایک نعمت ہے مگر غموں سے مزین ہے۔ زندگی ایک راہ بھولی حسینہ ہے۔
زندگی اک جبر مسلسل ہے جس کو برداشت کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔
بقول ساغر صدیقی
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہم نے
جانے کس جرم کی پائی سزا یاد نہیں
زندگی ایک آزمائش کا نام ہے زندگی کو آزمائش بنانے میں زمانہ سب سے بڑا
محرک ہے۔ انسان تو اس کی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کا حق یہ زمانہ نہیں
دیتا۔ زمانہ کی پابندیاں انسان کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے۔ اس معاشرے
میں زندگی کو اجیرن بنانے کی سب سے بری وجہ آزادی اظہار رائے پر پابندی ہے۔
اس دنیا میں آنے والے انسان کو زمانے کے اصولوں کے مطبق چلنا ہوتا اور اپنے
احساسات اور جذبات کو دبانا ہوتا ہے۔ انسان کو زندگی اس کی مرضی سے گزارنے
کا حق یہ زمانہ نہیں دیتا اللہ تو انسان کو آزاد پیدا کرتا ہے مگر یہ
معاشرہ اس کو غلام بنا دیتا ہے۔ پرانے وقتوں میں انسان کو انسان جسمانی طور
پر یہ گلام بناتا تھا اور آج کے زمانہ میں ذہنی غلام
بقول خواجہ میر دردؔ
زندگی ہے یا کوئی طوفان
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
میری نظر میں زندگی ایک امتحان ہے اور اس میں وہی کامیاب ہے جو اپنے احساس
اور جذبات کو دبا لیتا ہے ۔ دوسری طرف جو معاشرے کے اصولوں سے بغاوت کرتے
ہے ان کے لیے یہ زندگی ایک جبر مسلسل رہتی ہے اور وہ اس میں پستے رہتے ہیں۔
زندگی کو صرف اپنے لیے نہیں جینا ہوتا بلکہ دوسروں کے لیے جینا ہوتا ہے۔
زنددگی درحقیقت ایثار کا نام ہے۔ زندگی اپنے ساتھ کے لوگوں کے احترام کا
نام ہے۔ زندگی صرف اپنے فائدہ کا نام نہیں بلکہ دوسروں کے فائدے کا نما ہے۔
زندگی دوسروں کو امیر دلانے کا کام ہے۔ زندگی کا مقصد صرف ایک کامیاب انسان
بننا نہیں بلکہ دوسروں کو بھی کامیاب کرنے کا نام ہے۔ زندگی صرف ایک کامیاب
ادیب یا انجنئیر یا ڈاکٹر بننے کا نام نہیں بلکہ اس سے دوسروں کو کیا فائدہ
ہوا اس کا نام ہے۔ زندگی خوشنودی کا نام ہے اور ا سسب سے بڑی مثال سعادت
حسن منٹو نے اپنے افسانے "منظور" میں دی جس میں ایک فالج زدہ بچہ اپنی
بیماری سے بے خبر ہو کر اپنے ساتھی مریض کو حوصلہ دیتا ہے اپنی زندگی تو
ہار جاتا ہے پر ایک دوسرے آدمی کو جینے کی وجہ اور امید دے دیتا ہے۔ زندگی
بلا شبہ ایک امتحان ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ زندگی امید کا نام علی ہے۔
انسان کی زندگی بے شک غموں سے بھری پڑی ہے مگر جس طرح زندگی فانی ہے اسی
طرح غم بھی فانی ہے۔ یہ گموں کے بادل بھی ایک دن چھٹ ہی جاتے ہیں بس انسان
کو پر امید ہونا چاہیے اور ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔
بقول ناصرؔ کاظمی:۔
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
زندگی غمی اور خوشی کا نام ہے۔ کسی کو غم مشقی ہے کسی کو غم روزگار دوسی
طرف کئی لوگوں کی زندگی گموں سے دور اور خوشیوں سے بھری پڑی ہے۔ زندگی میں
مشکل وقت بھی آتے ہیں مگر یہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ اچھے اوقات میں بدل جاتے
ہیں بس انسان کو اللہ پر یقین اور ہمت نہیں چاہیے۔
بقول فیض احمد فیضؔ
دل نا امید تو نہیں ، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام ، مگر شام ہی تو ہے
الغرض اس ساری بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے بے شک زندگی ایک امتحان اور جبر
مسلسل ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ ہی زندگی امید اور خوشحالی کا نام بھی ہے۔
اس زندگی میں غم اگر انسان کو ملنے ہے تو بعد میں خوشی بھی نصیب ہوتی ہے۔
غم کے سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے۔
سو غم بھی زندگی کا حصہ ہے انسان کو ان سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ اس کے ساتھ
ساتھ زندگی اپنے للیے جینے کا نام نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جینے کا نام ہے۔
اپنے لیے سب ہی جیتے ہیں کما تو ہے دوسروں کے لیے جینا۔ الغرض زندگی اللہ
کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور ہمیں اسے ایک اچھے ڈھنگ سے گزارنا چاہیے تاکہ
ہم مرنے کے بعد بھی زندہ رہ سکیں۔
بقول احمد ندیم قاسمیؔ
کون کہتا ہے موت آئی تو مر جاؤ ں گا
میں تو دریا ہو، سمندر میں اتر جاؤں گا
میں اپنی ساری رائے کا اختتام اس شعر سے کرتا ہوں۔
بدلہ نہ میرےبعد بھی موضوع گفتگو
میں جا چکا ہوں پھر بھی تری محفلوں میں ہوں |