چین میں پاکستانی کمیونٹی کے بلند حوصلے

چین نے نوول کورونا وائرس کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر طاقتور اقدامات کیے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے بھی چین کے شفاف ،کشادہ اور بروقت اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا چین سے مزید اقدامات کی متقاضی بھی نہیں ہے۔

اس وقت دنیا بھر میں صحت کے اعتبار سے اگر کوئی موضوع زیر بحث ہے تو وہ نوول کورونا وائرس کی روک تھام اور کنٹرول ہے۔ دسمبر کے اواخر میں چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والا یہ وائرس اب دنیا کے کئی ممالک تک پہنچ چکا ہے اور عالمی ادارہ صحت کو بین الاقوامی سطح پر صحت عامہ سے متعلق اسے ایک عالمی ایمرجنسی قرار دینا پڑا ہے۔اس فیصلے کی بنیادی وجہ چین میں نوول کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال ہر گز نہیں بلکہ دیگر ممالک تک اس وائرس کی پہنچ ہے کیونکہ چین کے پاس تو وہ نظام ، ٹیکنالوجی اور دیگر وسائل موجود ہیں جس سے وبائی صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن اگر خدا نخواستہ دنیا کے دیگر ترقی پزیر یا پسماندہ ممالک اس وائرس کی زد میں آتے ہیں تو اس سے صحت عامہ سے متعلق ایک بڑا المیہ جنم لے سکتا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ہنگامی طور پر چین بھی تشریف لائے اور چینی قیادت سے ملاقاتوں کے دوران انہوں نے چینی حکومت کی جانب سے بروقت اور موثر اقدامات کو سراہا اور جلد عالمی ماہرین چین بھیجنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے تاکہ عالمی سطح پر نوول کورونا وائرس کا پھیلاو روکا جا سکے۔

بطور صحافی میرا مشاہدہ ہے کہ چین نے اپنی بساط سے بڑھ کر طاقتور اقدامات کیے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے بھی چین کے شفاف ،کشادہ اور بروقت اقدامات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا چین سے مزید اقدامات کی متقاضی بھی نہیں ہے۔نوول کورونا وائرس سے شدید طور پر متاثرہ صوبہ حوبے میں متاثرہ افراد کے لیے سات سے پندرہ روز کے اندر دو اسپتالوں کی تعمیر عام دنیا کے لیے شائد کسی عجوبے سے کم نہیں ، لیکن یہی چین کا کمال ہے۔چینی عوام بھی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور اُن کی دلچسپی کا واحد نقطہ بھی یہی ہے کہ نوول کورونا وائرس کے انسداد سے عام معمولات زندگی جلد ازجلد بحال ہو جائیں۔ایک چھوٹی سی بات شیئر کرتا چلوں کہ چینی حکومت کی جانب سے دونوں اسپتالوں کی تعمیراتی سرگرمیوں کی براہ راست ویڈیو بھی چین کے سنٹرل ٹیلیویژن سی سی ٹی وی سے براہ راست دکھائی جا رہی ہے اور اس ویڈیو میں نہ تو کوئی رواں تبصرہ ہے اور نہ ہی کسی قسم کا بیک گراونڈ میوزک لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ دو روز قبل سی سی ٹی وی کی ایپ پر رات تین بجے براہ راست ویڈیو دیکھنے والے افراد کی تعداد تین کروڑ سے زائد تھی۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے چینی سماج کے اس وقت کیا جذبات اور احساسات ہیں۔

چین تقریباً ایک ارب چالیس کروڑ آبادی کا حامل دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جسمیں تیئیس صوبے ،چار مینوسپیلٹیز ، پانچ خوداختیار علاقے اور دو خصوصی انتظامی علاقے شامل ہیں۔اگر چین میں مقیم پاکستانیوں کی بات کی جائے چین کے تمام بڑے شہروں بالخصوص اقتصادی مراکز میں آپ کو پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نظر آئے گی۔پاکستانیوں کی آبادی کے لحاظ سے جو بڑے علاقے شامل ہیں ان میں دارالحکومت بیجنگ ،شنگھائی ،تیانجن ،ہانگ جو ،نانجنگ ،شیان ،ووہان ،چھنگ دو ،گوانگ زو ، ہانگ کانگ، چھنگ تاو اور کنمنگ قابل زکر ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی کی بڑی تعداد طلباء پر مشتمل ہے اور پچیس ہزار سے زائد پاکستانی طلباء اس وقت چین کی مختلف جامعات میں زیر تعلیم ہیں ۔نوول کرونا وائرس سے متاثرہ صوبے حوبے کے شہر ووہان میں اس وقت پانچ سو سے زائد پاکستانی طلباء اور دیگر پاکستانی شہری مقیم ہیں۔ووہان میں طلباء کے تحفظ کے لیے پاکستانی سفارتخانہ ووہان کی مقامی حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ سے رابطے میں ہے۔ پاکستانی سفارتخانہ سوشل میڈیا اور پنی ویب سائٹ پر تمام ضروری اعلانات سے طلباء اور پاکستانی کمیونٹی کو بروقت آگاہ کر رہا ہے۔

اگرچہ طلباء کے حوصلے بلند ہیں مگر کورونا وائرس کے پھیلاو کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں اُن کی پریشانی اور تشویش کو سمجھا جا سکتا ہے۔طلباء کی اکثریت کا یہی موقف ہے کہ انھیں کھانے پینے کی اشیاء ہوسٹلز میں فراہم کی جا رہی ہیں اور اُن کی بہتر صحت اور تحفظ کے لیے دیگر اشیاء مثلاً سرجیکل ماسکس وغیرہ بھی مہیا کیے گئے ہیں۔اس سب کے باوجود اُن کی دلی تمنا یہی ہے کہ وہ جلد ازجلد اپنے وطن پاکستان پہنچ جائیں۔ اس وقت چونکہ جامعات میں تعطیلات بھی چل رہی تھیں تو خوش قسمتی سے چین بھر میں زیر تعلیم پاکستانی طلباء کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی پاکستان میں موجود ہے۔

چین میں موجود پاکستانی شہریوں کی جانب سےسوشل میڈیا پر بھی چین سے اپنی وابستگی اور دلی محبت کا اظہار مختلف صورتوں میں کیا گیا ، چین کے لیے دعائیہ کلمات ،چینی عوام کے لیے نیک تمناوں کا اظہار اور نوول کورونا وائرس کے خلاف برسرپیکار افراد کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔پاکستانی کمیونٹی بالخصوص طلباء کی جانب سے فوری طور پر سماجی رابطے کے لیے گروپس بنا دیے گئے تاکہ معلومات کے تبادلے میں آسانی رہے۔ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور یومیہ بنیادوں پر ایک دوسرے کی صحت سے متعلق دریافت کیا جاتا ہے۔اکثر طلباء پاکستانی میڈیا اداروں کے ساتھ بھی رابطہ برقرار رکھے ہوئے ہیں تاکہ درست معلومات فراہم کی جا سکیں اور حقیقی صورتحال سے آگاہ کیا جا سکے۔

چین میں مقیم پاکستانیوں کے لیے موجودہ صورتحال کا تقاضا بھی یہی ہے کہ خوفزدہ ہونے کے بجائے صبر ،ہمت و حوصلہ اور سکون سے صورتحال کا سامنا کیا جائے اور مایوسی اور افسردگی طاری نہ ہونے دی جائے۔انشاءاللہ جلد صورتحال بہتر ہو جائے گی اور چینی عوام سمیت دیگر تمام ممالک کے باشندے سکون کا سانس لے سکیں گے۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 615940 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More