|
می ٹو موومنٹ کا آغاز مغربی ممالک میں ان لوگوں کی جانب سے کیا گیا جنہوں
نے زندگی میں کبھی بھی جنسی ہراسگی کا سامنا کیا اور کسی نہ کسی کمزوری کے
سبب اس کے خلاف اس وقت آواز نہ اٹھا سکے-مگر وقت گزرنے کے بعد زندگی میں جب
بھی موقع ملے اس حوالے سے اس ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے آواز اٹھائيں
اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو بتائيں- اس حوالے سے پاکستان میں بھی کچھ
لوگوں نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ان کی زندگیوں کو اس
تحریک نے کس طرح متاثر کیا اس کے بارے میں ہو آپ کو آج بتائيں گے-
علی ظفر اور میشا شفیع
علی ظفر اور میشا شفیع عوام کے پسندیدہ گلوکاروں میں سے ہیں یہ دونوں
گلوکار سال 2018 میں میشا شفیع کے ایک ٹوئٹ کے بعد خبروں کی لپیٹ میں آگئے
جب میشا شفیع نے علی ظفر پر الزام لگایا کہ انہوں نے ان کے پریکٹس سیشن کے
دوران ایک سے زیادہ بار جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کی- اس الزام کے
سامنے آنے کے بعد پورا ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا کچھ لوگ میشا شفیع کی
حمایت میں کھڑے ہو گئے تو کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن کا یہ ماننا تھا کہ علی
ظفر ایسا نہیں کر سکتے- اس کے بعد ان دونوں کے درمیان ایک فانونی جنگ کا
آغاز ہو گیا جو کہ آج دو سال بعد کئی مرحلوں پر علی ظفر جیت چکے ہیں- میشا
شفیع اپنے لگائے گئے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہیں مگر اس ساری صورتحال
کے حوالے سے علی ظفر کو معاشرتی اور معاشی حوالے سے بہت نقصان اٹھانے پڑے-
اور اب تک وہ لوگوں کے سامنے اس سارے معاملے میں بے قصور ہونے کی صفائياں
دے رہے ہیں-
|
|
محسن عباس حیدر اور فاطمہ سہیل
علی ظفر اور میشا شفیع کے واقعے کے ایک سال بعد ایک بار پھر محسن عباس حیدر
پر ان کی بیوی فاطمہ سہیل کی جانب سے جسمانی تشدد کے لگائے جانے والے
الزامات نے میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ فاطمہ سہیل نے اپنی ایک فیس بک
پوسٹ کے ذریعے اپنے شوہر پر یہ الزام لگایا کہ وہ وقتا فوقتا ان کو تشدد کا
نشانہ بناتے رہے ہیں اور ایسا وہ سخت غصے کی حالت میں کرتے ہیں ۔ ان
الزامات کے سامنےآنے کے بعد محسن عباس حیدر کو ملک بھر میں سخت ترین تنقید
کا نشانہ بنایا گیا یہاں تک کہ ان کو ان ٹی وی پروگرام سے علیحدہ کر دیا
گیا جس میں وہ باقاعدگی سے کام کر رہے تھے- شوبز والوں نے ان کا بائیکاٹ کر
دیا وہ پوری دنیا میں تنہا رہ گئے حالانکہ اس حوالے سے محسن عباس نے اپنی
پریس کانفرنس میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر ان الزامات کی تردید کی اور پھر حال
ہی میں اس حوالے سے قانونی جنگ جیت گئے- جہاں پولیس نے تمام تحقیقات کے بعد
اس بات کی رپورٹ پیش کی کہ فاطمہ سہیل اپنے اوپر تشدد کے الزامات کو ثابت
کرنے میں ناکام رہی ہیں- اس حوالے سے محسن عباس حیدر کا یہ کہنا تھا کہ
ہمار ملک میں ایک عورت کے لیے بہت آسان ہے کہ وہ کسی بھی سیلیبریٹی کے خلاف
می ٹو مومنٹ کے تحت جنسی ہراسگی کا الزام لگا کر خود فوری طور پر شہرت حاصل
کر لیں اور دوسرے بندے کی ساری عمر اس الزام کو غلط ثابت کرنے پر لگ جاتی
ہے-
|
|
فلمساز جامی اور ڈان کے سعید ہارون
سال 2019 میں فلمساز جامی نے می ٹو مومنٹ کی حمایت میں ٹوئٹ کرتے ہوئے اس
واقعے سے پردہ اٹھایا کہ تیرہ سال قبل جب انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا
تو ان کو بھی ایک طاقتور مرد کی جانب سے جنسی ہراسگی کا نشانہ بنایا گیا-
بعد ازاں انہوں نے ڈان میڈيا گروپ کے سی ای او سعید ہارون کا نام بھی لوگوں
کو بتا دیا جنہوں نے انہیں جنسی ہراسگی کا نشانہ بنایا- تاہم سعید ہارون نے
ان کے الزامات کی صحت سے انکار کرتے ہوۓ اس سارے واقعے کو کچھ مقتدر قوتوں
کی منصوبہ بندی قرار دیا جو ان کی شہرت کو خراب کرنے کے درپے ہیں تاہم یہ
معاملہ ابھی تک کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکا ہے-
|
|
لیکچرار محمد افضل
لاہور کے ایم اے او کالج کے پروفیسر افضل جن کا تعلق شعبہ انگریزی سے تھا
اس وقت ایک بڑی مشکل میں گرفتار ہو گئے جب ان کے اوپر انہی کی ایک طالبہ نے
جنسی ہراسگی کا الزام لگایا- اس الزام کی گونج سوشل میڈیا کی وساطت سے پورے
ملک میں سنی گئی- مگر جب کالج کی جانب سے شعبہ فزکس کی پروفیسر عالیہ نے اس
کی تحقیق کی تو یہ الزامات بے بنیاد قرار دیے گئے- اس حوالے سے پروفیسر
افضل نے کالج انتظامیہ سے بارہا درخواست کی کہ ان کو ان الزامات کے جھوٹے
ہونے کا تحریری فیصلہ دیا جائے تاکہ وہ اپنی عزت نفس بحال کر سکیں- مگر
کالج کے تاخیری حربوں کے سبب پروفیسر افضل نے دل برداشتہ ہو کر خودکشی کر
لی اور مرنے سے قبل ایک تحریری نوٹ تحریر کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ وہ
اب اپنی بے گناہی کا فیصلہ اللہ کی عدالت پر چھوڑتے ہیں-
|
|