کسی کو ٹائم پاس کا شوق نہیں

کل سے سوشل میڈیا پر ایک تصویر گردش کر رہی ہے اٹھارہ سالہ لڑکے اور لڑکی کے نکاح کی ، اس کیپشن کے ساتھ کہ انہوں نے نکاح کو ٹائم پاس پر ترجیح دی ۔ مگر اس میں ان کا اپنا کیا کمال تھا ، کیا یہ نکاح انہوں نے خود اپنی ذمہ داری پر کر لیا؟ کیا یہ اپنی عملی زندگی کا آغاز خود اپنے طور پر کر سکتے ہیں؟ دونوں کا تعلق کسی گرے پڑے گھر نہیں کھاتے پیتے گھر سے نظر آتا ہے ۔ اور یہ شادی سادگی سے نہیں بلکہ زر کثیر صرف کر کے پوری دھوم دھام اور تزک و احتشام سے انجام پائی ہے ۔ اصل تعریف تو ان کے والدین کی ہونی چاہیئے جنہوں نے اس نکاح کو ممکن بنایا کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ اور زیادہ قابل تحسین تو لڑکے کے والدین ہیں جنہوں نے اپنے بچے کے ساتھ ساتھ اس کی بیوی کو بھی پالنے کی ذمہ داری اٹھائی ۔ ورنہ اس عمر میں لڑکے کی جتنی تعلیم ہوتی ہے اس میں اسے کیا ایسی نوکری مل سکتی ہے جس سے وہ اپنا گھر چلا سکے یا صرف بیوی ہی کے اخراجات پورے کر سکے؟

لڑکے لڑکی کی اٹھارہ بیس سال کی عمر میں ہونے والی کئی شادیاں خود ہم نے دیکھی ہیں اور ان کا سارا کریڈٹ لڑکے کے والدین کو جاتا ہے جنہوں نے لڑکے کے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے سے پہلے ہی اس کی شادی کا تمام خرچ اپنی جیب سے کیا اس سے خود کما کر پیسے اکٹھے کرنے کے لئے نہیں کہا اور اس عمر کی لڑکی بھی عام طور پر گھر کے کام کاج میں اتنی طاق نہیں ہوتی تو شادی کے بعد اس کی تربیت اور نازبرداری بھی سسرال کی ذمہ داری ٹھہری ۔

کافی عرصہ اندرون سندھ گذارنے کی وجہ سے ہمیں مختلف قبائل اور برادریوں کے ساتھ میل جول میں ان کے رسم و رواج اور روایات کو دیکھنے سمجھنے موقع ملا ۔ پچیس تیس سال قبل تک چھوٹی عمر کی شادیاں آسانی سے ہو جایا کرتی تھیں لڑکی والے لڑکے کا کام نہیں پوچھتے تھے اس کے باپ کی حیثیت دیکھتے تھے ۔ ہم نے بہت سے باپوں کو اپنے بیروزگار یا زیر تعلیم بیٹوں کو یہ کہہ کر بیاہتے دیکھا کہ ہم بیٹھے ہیں انہیں سنبھالنے کے لئے ان کا گھر چلانے کے لئے ، اور پھر وہ اپنا کہا نبھاتے بھی تھے ۔ پھر وقت اور ترجیحات بدلنے لگیں برادری سسٹم میں بھی مسابقت ، نمود و نمائش اور اس کی تکمیل کے لئے بیٹوں سے بےجا توقعات اور ان سے ایثار و قربانی کی طلب کا رجحان پڑ گیا ۔ پھر یہ حال ہو گیا کہ لڑکا بہت اچھا کماتا ہے بیوی کی ذمہ داری اٹھانے کے لائق ہے مگر والدین اس کی شادی کے موڈ میں نہیں ۔ پہلے انہیں گھر بنا کر دو ، بہنیں ہیں تو پہلے ان کی شادی کرو چھوٹے بھائیوں کی تعلیم کا خرچ اٹھاؤ پھر آئے گی تمہاری باری ۔ اور طرح طرح کی رسومات و خرافات پر اٹھنے والے اخراجات کے لئے رقم کی فراہمی بھی اسی فرمانبردار بیٹے کا فرض ٹھہرا ۔ اور لڑکی والے بھی اتنے سیدھے نہیں رہے کہ کسی ڈیپینڈڈ یا ذمہ داریوں کے جنجال میں جکڑے کسی قربانی کے بکرے سے رشتے پر راضی ہو جائیں ان کے بھی ہزار نخرے ، یوں نکاح مشکل تر ہوتا چلا گیا ۔

ایسے میں اگر آج کے دور میں کوئی والدین پورے اہتمام اور دھوم دھام سے یا قدرے سادگی سے ہی سہی مگر اپنے پلے سے خرچ کر کے اپنے کمسن فکر معاش سے آزاد بچے کا گھر بساتے ہیں اور پھر خود ہی اسے چلاتے بھی ہیں تو انہیں جتنا بھی سراہا جائے کم ہے ۔ اور اس اچھی روایت کو آگے بڑھانے کے لئے جتنا بڑا دل چاہیئے وہ سب والدین کے پاس نہیں ہوتا ہر اولاد اتنی خوش نصیب نہیں ہوتی ، اس لئے اس کم عمر جوڑے کی شادی والی بات کو لے کر ان نوجوانوں کی دل آزاری نہیں کی جانی چاہیئے جو نکاح کرنا چاہتے ہیں مگر خود ان کے اپنے گھر والے رکاوٹ ڈالتے ہیں اس کام میں کبھی رسوم کے نام پر کبھی ذمہ داریوں کی آڑ میں ۔ ایک سے ایک کماؤ پوت کنوارا بیٹھا نظر آئے گا ، تو ان کا کیا قصور ہے کہ انہیں طعنے دیئے جا رہے ہیں انہیں بھی ٹائم پاس کا کوئی شوق نہیں ۔ طنز کے جواب میں سوال تو اٹھے گا کہ اٹھارہ سال کے لڑکے کی شادی میں اس کا اپنا کیا کمال ہے؟ باپ کے مال پہ ہوئی ہے یہاں تو خود اپنی محنت کی کمائی پر اپنا کوئی حق نہیں (رعنا تبسم پاشا)
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854457 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.