چادر اور چار دیواری بمقابلہ روشن خیالی

اسلام دین فطرت ہے اور اس کی تمام تعلیمات بالکل انسانی فطرت اور طبیعت کے عین مطابق ہیں۔ اسکی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل امر نہیں اور نہ ہی ان پر عمل کرنے سے انسان کی عزت و تکریم کم ہوتی ہے بلکہ اس کی تعلیمات پر عمل کرنے سے انسان دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہوتا ہے۔

جہاں اسلام نے انسان کی دینی اور دنیاوی تمام قسم کی ضروریات کا خیال رکھا ہے اور اسے باوقار رہنے کی تاکید فرمائی ہے وہاں اس کی عزت و آبرو پر کوئی حرف آتا ہے تو اسلامی قانون فوراً حرکت میں آتا ہے جرم کے مطابق سزا تجویز کرتا ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ ہماری عزت اور وقار کا محافظ ہے۔

اسلام سے پہلے عورتوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا تھا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لیکن آج کی ایک مہذب تہذیب جو کہ عورتوں مردوں کے مساوی حقوق کی علمبردار بنی ہوئی ہے ایک سروے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ عورتوں کی عصمت اسی اعلیٰ تہذیب میں ہی لوٹی جاتی ہے اور یہ امریکہ کی ترقی یافہ تہذیب ہے۔

اسلام نے عورت کو ایک بیٹی ، ماں اور بیوی جیسے مقدس رشتے کے ذریعے اعلیٰ ترین حقوق کی مالک بنا دیا ہے۔ جس طرح اسلام نے عورتوں کے حقوق کو تحفظ دیا ہے دنیا کے کسی مذہب نے نہیں دیا۔

پردے کا شرعی حکم بھی اللہ تعالیٰ نے عورت کی عزت اور اس کے وقار کے پیش نظر دیا ہے ناکہ اسے معاشرے میں کم تر ظاہر کرنے کیلیے۔ بلکہ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ عورت انسان ہونے کے ناطے مردوں کے برابر ہے۔ اس طرح اسلام نے عوت کو ایک مقام دیا جس کی مثال دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔

بخاری شریف میں ہے کہ ”اے امت محمدیہ ؛ اللہ کی قسم اس بات پر اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کسی کو غیرت نہیں آتی کہ کوئی مرد یا عورت زنا کرے“

عورتوں کے باہر نکلنے کا ضبطہ
سب سے بڑی چیز جو ایک مرد کو عورت کی طرف یا عورت کو مرد کی طرف مائل کرنے والی ہے وہ نظر ہے۔ قرآن پاک میں دونوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی نظروں کو پست رکھیں۔پہلے مردوں کیلیے حکم صادر فرمایا ”آپ مسلمان مردوں کو کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہ ان کیلیے زیادہ پاکیزگی کی بات ہے ۔ بے شک اللہ تعالیٰ خوب باخبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں“

اس کے بعد عورتوں کو خطاب فرمایا ”اور مسلمان عورتوں کو فر مادیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر یہ کہ مجبوری سے خود کھل جائے اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں اور حسن و جمال کو (کسی پر) ظاہر نہ ہونے دیں(سوائے اِن کے جو شرعاً محرم ہیں) اور مسلمانوں تم سب اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاﺅ۔ سورة نور ، آیت نمبر31

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ”اے پیغمبر؛ اپنی ازواج، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ باہر نکلا کریں تو اپنے اوپر چادر لٹکا لیا کریں یہ امر ان کیلیے موجب شناخت ہوگا تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اب ذرا سوچیے ان روشن خیالوں کی سوچ کے بارے میں کہ عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ ہر میدان میں آنا چاہیے ۔ یہ حجاب یعنی پردہ ضروری نہیں یہ سب پرانی رسمیں ہیں۔ عورتوں کو پردہ چھوڑ کر ترقی یافتہ دنیا کا ساتھ دینا چاہیے ایسی ہی طرح طرح کی نہ جانے کتنی ان گنت باتیں بنائی ہوئی ہیں جن کا نہ تو دین سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی معاشرتی اچھائی سے۔ آج کل ترقی یافتہ اور اعلیٰ تہذیبیں جتنی ان گنت معاشرتی برائیوں اور ذہنی و دلی بے سکونی میں مبتلا ہیں ہمارا معاشرہ اتنا نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ کہیں نہ کہیں ہمارا تھوڑا بہت کسی نہ کسی اسلامی قانون پر عمل ہے۔

اب دیکھیں اگر روشن خیال عورت جب گھر سے بے پردہ نکلے گی تو لازمی غیر مردوں کی نظریں اُس باعزت عورت پر پڑیں گی۔ جس کے بعد کسی بھی مرد کے دل میں اُس کے لیے کچھ بھی خیال آئے گا تو وہ اُس کی جانب راغب ہوگا اور اس بات کا قطعی احتمال ہے کہ نظروں سے شروع ہونے والی بات ناجائز تعلق تک جا پہنچے۔ ایک عورت جب ایسے بے پردہ نکلے اور اپنے آپ کو ناجائز تعلق سے بھی بچا لیتی ہے لیکن اس کے باوجود اُس کو اس بے پرد گی کی وجہ سے نا جانے کتنے اور مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ کسی بزرگ کا قول ہے ۔ جب بندے کی آنکھیں بہکتی ہیں تو دل بہکتا ہے اور جب دل بہک جائے تو انسان برائی پہ اُتر آتا ہے۔ اسی لیے قرآن نے بھی نگاہیں نیچی رکھنے کی تلقین کی ہے۔

اگر کوئی عورت گھر سے پردے میں نکلتی ہے خاص کر پرانے ٹوپی والے برقعے میں تو دیکھنے والے کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ یہ برقعے والی عورت جوان ہے، بوڑھی ہے ، خوبصورت ہے یا کہ بدصورت ۔ اس طرح عورت اپنی طرف اُٹھنے والی کسی بھی بُری نظر سے بچ جاتی ہے ۔ اگر یورپ اور امریکہ میں آج ہی عورتیں ایسے برقعے پہن لیں تو مجھے اِس بات کا یقین ہے کہ ان ممالک میں زناکاری کی شرح انتہائی کم ہوجائے گی جو کہ بد نظری کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ پسند کی شادی نہ ہونے پر خودکشیاں، لڑکی لڑکے کا گھر سے بھاگ جانا اور پھر بعد میں غیرت کے نام پر قتل وغیرہ یہ سب بے پردگی اور بے حیائی کے نتیجے میں رونما ہوتے ہیں۔ اخبارات تو ایسی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔

نبی اکرم ﷺ نے اُس شخص کو دیوث قرار دیا ہے جسے اپنے اہل خانہ کی بے حرمتی پر غیرت نہیں آتی اور دیوث پر جنت حرام ہے (مسند احمد)۔ جو شخص اپنے اہل خانہ کی عزت کی حفاظت کیلیے کٹ مرے اسے شہید قرار دیا گیا ہے۔ (ابو داﺅد، ترمذی)۔

آج کل جو عورتیں روشن خیالی اور حقوقِ نسواں کے نام بے پردگی اور بے حیائی کا مظاہرہ کرتی پھرتی ہیں۔ اُن کو میرا مشورہ ہے کہ وہ حضرت صفیہؓ بنت عبدالمطلبؓ کے جنگی کارنامے ، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا علمی و ادبی مقام ومرتبہ اور عائشہ بنتِ عبدالرحمن کا شعروسخن سے لگاﺅ تاریخ اسلام کے سنہر ابواب میں دیکھیں کیا آپ اِن نامور خواتینِ اسلام سے زیادہ علم و فراست کی مالک ہیں؟ کیا یہ خواتین کے حقوق نہیں جانتی تھیں۔ پھر اِنہوں نے کیوں نہیں چادر اور چاردیواری چھوڑی ۔اِنہوں نے سارے کام اسلامی شعار اور قوانین کے مطابق ہی کیے ہیں ( عورت جس کا مطلب ہی چھپانے کی چیز کے ہیں)

اگر ہم اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے قوانین کے خلاف چلیں گے تو لازمی برائیاں جنم لیں گی اور معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا جس کا سدِباب صرف اور صرف اسلامی قوانین پر عمل میں ہی ممکن ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح طریقے سے اسلامی قوانین پر عمل کرنے کی توفیق دے ”آمین ثم آمین“
Akhtar Abbas
About the Author: Akhtar Abbas Read More Articles by Akhtar Abbas: 22 Articles with 62802 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.