تانیثیت

تانیثیت (FEMINISM)
عالمی ادبیات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ ہر عہد میں مفکرین نے وجود زن کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔ رنگ ، خوشبو اور حسن وخوبی کے تمام استعارے وجود زن سے منسوب چلے آرہے ہیں۔ اس طرح اسے عالمی تصور کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔ علامہ اقبال نے خواتین کے کردار کے حوالے سے لکھا ہے
وجو د زن سے ہے تصوہر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف ہت اسی درج کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں

خواتین کے لب ولہجے میں تخلیق ادب کی روایت خاصی قدیم ہے ۔ہر زباں کے ادب میں اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ نوخیز بچے کی پہلی تربیت اور اخلاقیات کا گہوارہ آغوش مادر ہی ہوتی ہے ۔ اچھی مائیں قوم کو معیار اور رفعت میں ہمدوش ثریا کر دیتی ہیں ۔ انھی کے دم سے امیدوں کی فصل ہمیشہ شاداب رہتی ہے۔یہ دانہ دانہ جمع کر کے خرمن بنانے کی پر قادر ہیں تاکہ آنے والی نسلیں فروغ گلشن اور صوت ہزار کا موسم دیکھ سکیں۔صبر رضا ، قناعت اور استغنا ان کا امتیازی وصف ہے۔ لوئیس بوگان نے کہا ہے
Women have no wilderness in them
They are provident insted
Conten in the tight hot cell of their hearts
To eat dusty btread (2)

فنون لطیفہ اور ادب کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں خواتین نے اپنی کامرانیوں کا پرچم بلند نہ کیا ہو ۔ آج ہو زندگی کے ہر شعبے میں خواتین نے اپنی بے پناہ استعداد کار کا لوہا منوایا ہے ۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے کہ خواتین نے فنون لطیفہ اور معاشرے میں ارتباط کے حوالے سے ایک پل کا کردار ادا کیا ۔ فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت نے آج گھمبیر صورت اختیار کرلی ہے ۔ ان عصاب شکن حالات میں بھی خواتین نے اس جانب متوجہ کیا کہ فرد کو اپنی حقیقت سے آشنا ہونا چاہیے ۔ مسلسل شکست دل کے باعث مظلوم طبقہ محرومیوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے ۔ ظالم سفاک ، موذی ومکار استحصالی عناصرکے مکر کی چالوں کے باعث رتیں بے ثمر ،کلیاں شرر ، زندگیاں پرخطر اور آہیں بے اثرہوکر رہ گئی ہیں ۔ خواتین نے ہر عہد میں جبر کی مزاحمت کی،ہر ظالم پہ لعنت بھیجنا اپنا شعار بنایااور انتہائی نا مساعد حالات میں بھی حریت ضمیر سے جینے کا راستہ اختیار کیا ۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارا معاشرہ بالعموم مردوں کی بالادستی کے تصور کو تسلیم کر چکا ہے ۔اس قسم کے ماحول میں جب کہ خواتین کو اپنے وجود کے اثبات اور مسابقت کے لیے انتھک جدو جہد کرنا پڑے ،خواتین کے لیے ترقی کے یکساں مواقع تخیل کی شادبی کے سوا کچھ نہیں ۔یہ امر باعث اطمینان ہے کہ خواتین کی فکری کاوشیں سفاک ظلمتوں میں ستارہءسحر کے مانند ہیں۔انھوں نے کٹھن حالات میںبھی حوصلے اور امید کا دامن تھا م کر سوئے منزل رواں دواں رہنے کا جو عہد وفا استوار کیا اسی کو علاج گرش لیل و نہار بھی قرار دیا۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے صنف نازک سے وابستہ سمجھے جاتے ہیں ۔عالمی ادبیات مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ سماجی زندگی کے جملہ موضوعات پر خواتین کت اشہب قلم نے جو بے مثال جو لا نیاں دکھائی ہیں ان کے اعجاز سے طلوع صبح بہاراں کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔

تانیثیت ایک ایسی مثبت سوچ،مدبرانہ تجیزیہ اور دانشورانہ اسلوب کی جانب متوجہ کرتی ہے جس کے اہداف میں خواتین کے لیے معاشرے میں ترقی کے منصفانہ اور یکساں مواقع کی فراہمی کو یقینی نبانے کا واضح لائحہ عمل متعین کیا گیا ہو۔ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ خواتین کسی خوف و ہراس کے بغیر کاروان ہستی کے تیزگام قافلے میں مردوں کے شانہ بشانہ اپنا سفر جاری رکھ سکیں ۔روشنی کے اس سفر میں انھیں استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں سے خبردار کرنا تانیثیت کا اہم موضوع رہا ہے ۔ایک فلاحی معاشرے میں اس با ت کا خیال رکھا جا تا ہے معاشرے کے تما م افراد کو ہر قسم کا معاشرتی تحفظ فراہم کیا جائے کیونکہ ہر فرد کو ملت کے مقدر کے ستارے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔تانیثیت نے حق و انصاف کی بالا دستی ،حریت فکر،آزادی اظہار اور معاشرے کو ہر قسم کے استحصال سے پاک کرنے پر اصرار کیا ۔اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ فکری کجی کے باعث تانیثیت اور جنسیت کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے حالانک تانیثیت اور جنثیت میں ایک واضح حد فاصل ہے بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ تانیثیت اپنے مقاصد کے اعتبار سے جنسیت کی ضد ہے ۔تانیثیت کے امتیازی پہلو یہ ہیں کہ اس میں زندگی کی سماجی ،ثقافتی،معاشرتی ،سیاسی ،عمرانی اور ہر قسم کی تخلیقی اقدار و روایات کو صیقل کرنے اور انھیں مچبت انداز میں بروئے کار لانے کی راہ دکھائی جاتی ہے ۔اس میں خواتین کی صلاحیتوں کو نکھرنے کے فراواں مواقع کی جستجو پر توجہ مرکوز رہتی ہے ۔

یورپ میں تانیثت کا غلغلہ پندرہویں صدی عیسوی میں اٹھا۔اس میں مد و جزر کی کیفیت سامنے آتی رہی ۔یہ ٹھہرے پانی میں ایک پتھر کے مانند تھی اس کی دوسری لہر 1960میں اٹھی جب کہ تیسری لہر کے گرداب 1980میں دیکھے گئے۔ان تما م حالات اور لہروں کا یہ موہوم مد و جزر اور جوار بھاٹا جو کچھ اپنے پیچھے چھوڑ گیا اس کا لب لبا یہ ہے کہ خواتین کو اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں حریت ضمیر سے جینے کی آزادی ملنی چاہیے ۔تاریخی تناظر میں دیکھا جائے اور ہر قسم کی عصبیت سے گلو خلاصی حاصل کر لی جائے تو یہ بات ایک مسلمہ صداقت کے طور پر سامنے آتی ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے خواتین کو جس عزت ،تکریم اور بلند مقام سے نوازا اس سے پہلے ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔تبلیغ اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر خلافت راشدہ کے زمانے تک اسلامی معاشرے میں خواتین کے مقام اور کردار کا حقیقی
انداز میں تعین کیا جا چکا تھا۔اس عہد میں مسلم خواتین ہر شعبہ زندگی میں فعال کردار ادا کر رہی تھیں ۔اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو یکساں مواقع اور منصفانہ ماحول میں زندگی بسر کرنے کی ضمانت دی ۔آج بھی اگر وہی جذبہ بیدار ہو جائے تو آگ بھی انداز گلستاں پیدا کر سکتی ہے ۔

جدید دور میں تانیثیت کے حوالے سے تنقیدی مباحث روز افزوں ہیں ۔ آج خواتین تیشہ حرف سے فصیل جبر منہدم کرنے کی مقدور بھر سعی کر تی نظر آتی ہیں۔ایسے تمام تار عنکبوت جو کہ خواتین کی خوشحالی اور ترقی کے افق کو گہنا رہے ہیں انھیں نیست و نابود کرنے کا عزم لیے خواتین اپنے ضمیر کی للکار سے جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کردینے کی صلاحیت سے متمتع ہیں ۔ان کا نصب العین یہ ہے کہ انسانیت کی توہین ،تذلیل،تضحیک اور بے توقیری کرنے والے اجلاف و ارزال اور سفہا کے کریہہ چہرے سے نقاب اٹھائی جائے اور ایسے ننگ انسانیت وحشیوں کے قبیح کردارسے اہل درد کو آگاہ کیا جائے ۔تانیثیت نے تمام خفاش منش عناصر کو آئینہ دکھایا ہے اور زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کیا ہے ۔تانیثیت کا دائرہ کار تاریخ ،علم بشریات، عمرانیات ،معاشیات،ادب ،فلفہ ،جغرافیہ اور نفسیات جیسے اہم شعبوں تک پھیلا ہوا ہے ۔تانیثیت میں تحلیل نفسی کو کلیدی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔تانیثیت کے مطابق معاشرے میں نمرد اور عورت کو برابری کی سطح پر مسائل زیست کا حل تلاش کرنا چاہیے۔یہ اپنے وجود کا خود اثبات کرتی ہے ۔تانیثیت نے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جنسی جنوں اور ہیجان کی مسموم فضا کا قلع قمع کرنے اور اخلاقی بے راہ روی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے سلسلے میں جو کردار ادا کیا اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔زندگی کی اقدار عالیہ کے تحفط اور درخشاں روایات کے قصر عالی شانکی بقا کی خاطر تانیثیت نے ایک قابل عمل معیار وضع کیا جو کہ خواتیں کو حوصلے ا ور اعتماد سے آگے بڑھنے کا ولولہ عطا کرتا ہے ۔اخلاقی اوصاف کے بیان میں بھی تانیثیت نے گہری دلچسپی لی ۔ قدر ت کا ملہ نے ا ن اوصاف حمیدہ سے خواتین کو نہایت فیاضی سے متمتع کیا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ قدرتی عنایات کا دل نشیں انداز میں بیان بھی اس کا امتیازی وصف ہے۔ان فنی تجربات کے ذریعے جدید اور متنوع موضوعات سامنے آئے اور نئے امکانات تک رسائی کو یقینی بنانے کی مساعی کا سلسلہ چل نکلا۔

قدر ت کے اس وسیع نظام میں جمود اور سکون بہت محال ہے ۔زندگی حرکت اور حرارت سے عبارت ہے ۔کسی بھی عہد میں یکسانیت کو پسند نہیں کیا گیا اس کا سبب یہ ہے کہ یکسانیت سے ایک مشینی سی صورت حال کا گماں گزرتا ہے۔اس عالم آب و گل میں سلسلہ روز وشب ہی کچھ ایسا ہے کہ مرد اور عورت کی مساو ی حیثیت کے بارے میں بالعموم تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے تانیثیت نے اس اہم موضوع پر توجہ مرکوز کرکے بلا شبہ اہم خدمت انجام دی ۔تانیثیت پر مبنی نظریے(Feminist Theory)نے خواتین کو مژدہ جاں فزا سنایا کہ قید حیات اور بند غم سے دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔زندگی تو جوئے شیر،تیشہ اور سنگ گراں کا نام ہے ۔عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہنا،زندگی کی حیات آفریں اقدار کو پروان چڑھانا،خوب سے خوب تر کی جستجو کرنا،ارتقا کی جانب گامزن رہنا،کامرانی اور مسرت کی جستجو کرنا،اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا،حریت فکر اور آزادیءاظہار کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا،فن کار کی ان کا بھرم بر قرار رکھنا اور اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کرنا ان کا اہم ترین منصب ہے ۔تانیثیت نے افراد،معاشرے ،علوم اور جنس کے حوالے سے ایک موزوں ارتباط کی جانب توجہ مبذول کرائی۔ممتاز نقاد ٹیری ایگلٹن نے لکھا ہے :
"Feminist theory provided that precious link between academia and society as well as between problems of identity and those of political organization ,which was in general harder and harder to come by in an increasingly conservative age."(3)

تانیثیت کو ادبی حلقوں میں ایک نوعیت کی تنقید سے تعبیر کیا جا تا ہے ۔اس کا مقصد یہ ہے کہ خواتین جنھیں معاشرے میں ایک اہم مقام حاصل ہے ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھارا جائے اور انھیں تخلیقی اظہار کے فراواں مواقع فراہم کیے جائیں ۔مغرب میں اسے 1970میں پذیرائی ملی ۔ یورپی دانشوروں نے اس کی ترویج و اشاعت میں گہری دلچسپی لی ۔اس طرح رفتہ رفتہ لسانیات اور ادبیات میں تانیثیت کو ایک غالب اور عصری آگہی کے مظہر نظریے کے طور پر علمی اور ادبی حلقوں نے بہت سراہا۔1980کے بعد سے تانیثیت پر مبنی تصورات کو وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہوئے اس کی سماجی اہمیت پر زور دیا گیا۔اس طرح ایک ایسا سماجی ڈھانچہ قائم کرنے کی صورت تلاش کی گئی جس میں خواتین کے لیے سازگار فضا میں کام کرنے کے بہترین مواقع ادستیاب ہوں ۔تانیثیت کی علم بردار خواتین نے ادب کے وسیلے سے زندگی کی رعنائیوں اور توانائیوں میں اضافہ کرنے کی راہ دکھائی۔ان کا نصب العین یہ تھا کہ جذبات ،تخیلات اور احساسات کو اس طرح الفاظ کے قالب میں ڈھالا جائے کہ اظہار کی پاکیزگی اور اسلوب کی ندرت کے معجز نما اثر سے خواتین کو قوت ارادی سے مالا مال کر دیا جائے اور اس طرح انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے اہداف تک رسائی کی صورت پیدا ہو سکے ۔اس عرصے میں تانیثیت کی باز گشت پوری دنا میں سنائی دینے لگی ۔خاص طور پر فرانس ،برطانیہ ،شمالی امریکہ ،ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا میں اس پر قابل قدر کام ہوا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ تانیثیت کی شکل میں بولنے اور سننے والون کے مشترکہ مفادات پر مبنی ایک ایسا ڈسکورس منصہ شہود پر آیاجس نے خواتین کے منفرد اسلوب کا اعتراف کیا گیا ۔

اکثر کہا جاتا ہے کہ نسائی جذبات میں انانیت نمایاں رہتی ہے مگر یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ان جذبات میں خلوص، ایثار،مروت ،محبت اور شگفتگی کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے ۔تانیثیت نے انسانی وجود کی ایسی عطر بیزی اور عنبر فشانی کا سراغ لگایاجو کہ عطیہ ءخداوندی ہے ۔اس وسیع و عریض کائنات میں تمام مظاہر فطرت کے عمیق مشاہدے سے یہ امر منکشف ہوتا ہے کہ جس طرح فطرت ہر لمحہ لالے کی حنا بندی میں مصروف عمل ہے اسی طرح خواتین بھی اپنے روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت بے لوث محبت کو شعار بناتی ہیں۔خواتین نے تخلیق ادب کے ساتھ جو بے تکلفی برتی ہے اس کی بدولت ادب میں زندگی کی حیات آفریں اقدار کو نمو ملی ہے ۔موضوعات ،مواد ،اسلوب ،لہجہ اور پیرایہءاظہار کی ندرت اور انفرادیت نے ابلاغ کو یقینی بنا نے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔تانیثیت کا اس امر پر اصرار رہا ہے کہ جذبات،احساسات اور خیالات کا اظہار اس خلوص اور دردمندی سے کیا جائے کہ ان کے دل پر گزرنے والی ہر بات بر محل ،فی الفور،بلا واسطہ انداز میں پیش کر دی جائے ۔اس نوعیت کی لفظی مرقع نگاری کے نمونے سامنے آتے ہیں کہ قاری چشم تصورسے تمام حالات کا مشاہدہ کر لیتا ہے ۔تیسری دنیا کے پس ماندہ ،غریب اور وسائل سے محروم ممالک جہاں اب بد قسمتی سے جہالت بھی ایک مسلک کی صورت اختیار کر رہی ہے ،وہاں نہ صرف خواتین بلکہ پوری انسانیت پر عرصہ ءحیات تنگ کر دیا جاتا ہے ۔راجہ اندر قماش کے مسخرے خواتین کے در پئے آزار رہتے ہیں ۔ان ہراساں شب و روز میں بھی خواتین نے اگر حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھی ہے تو یہ بڑے دل گردے کی بات ہے ۔خواتین نے ادب،فنون لطیفہ اور زندگی کے تمام شعبون میں مردوں کی ہاں میں ہاں ملانے اور ان کی کورانہ تقلید کی مہلک روش کو اپنانے کے بجائے اپنے لیے جو طرز فغاں ایجاد کی بالآخر وہی ان کی طرز ادا ٹھہری ۔جولیا کرسٹیوا نے اس کے بارے میں لکھا ہے :
"Truly feminist innovation in all fields requires an understanding of relation between maternity and femine creation"
(4)

خواتین نے مردوں کی بالادستی اور غلبے کے ماحول میں بھی حریت فکر کی شمع فروزاں رکھی اور جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے آزادی اظہار کو اپنا نصب العین ٹھہرایا۔ان کی ذہانت،نفاست ،شائستگی ،بے لوث محبت اور نرم و گداز لہجہ ان کے اسلوب کا امتیازی وصف قرار دیا جا سکتا ہے ۔انھیں اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپانے کا قرینہ آتا ہے ۔ان کی سدا بہا رشگفتگی کا راز اس تلخ حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ معاشرتی زندگی کو ہجوم یاس کی مسموم فضا سے نجات دلائی جائے اور ہر طرف خوشیوں کی فراوانی ہو ۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ خواتین کی تحریروں میں پائی جانے والی زیر لب مسکراہٹ ان کے ضبط کے آنسوؤں کی ایک صورت ہے ان کا زندگی کے تضادات اور بے اعتدالیوں پر ہنسنا اس مقصد کی خاطر ہے کہ کہیں عام لوگ حالات سے دل برداشتہ ہو کر تیر ستم سہتے سہتے رونے نہ لگ جائیں ۔تانیثیت نے خواتین کے مزاج ،مستحکم ،شخصیت اور قدرتی حسن و خوبی کی لفظی مرقع نگاری پر توجہ دی ۔قدر تکاملہ نے خواتین کو جن اوصاف حمیدہ،حسن و خوبی اور دلکشی سے نوازا ہے اس کا بر ملا اظہار ان کی تحریروں میں ہونا چاہیے ۔ان کی تحریریں ایسی دلکش ہوں کی ان کی اثر آفرینی کا کرشمہ دامن دل کھینچے ۔جمالیاتی احساس اور نزاکت بیان کے سات ساتھ جذبوں کی تمازت ،خلوص کی شدت ،بے لوث محبت ،پیمان وفا کی حقیقت اور اصلیت اور لہجے کی ندرت سے یہ صاف معلوم ہو کہ اس تحریر کے سوتے حسن فطرت سے پھوٹتے ہیں ۔ہیلن سکسوس( Helen Cixous)نے خواتین کے جسمانی حسن ،جنس ،جذبات اور احسات کے اظہار کے حوالے سے لکھا ہے:
"Write youself ,your body must be heard " (5)

تانیثیت کے حوالے سے یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ نسائی لب و لہجہ ہمیشہ سے انفرادیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔کہا جاتا ہے کہ خواتین بولیں تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔ان کی دلچسپیاں ،وابستگیاں اوررعنائیاں ان کی تحریر کو ندرت اور تنوع سے عطا کرتی ہیں ۔عالیہ تقوی کی نظم ” تاج محل “ جہاں نسائی جذبوں کا بر ملا اظہار ہے وہاں عصری آگہی کا عنصر بھی قابل توجہ ہے ۔نئے دور میں دو پیار کرنے والے کس انداز میں سوچتے ہیں اور ان کے عہد و پیماں اور تحفظات کیا ہیں ملاحظہ فرمائیں :
تاج محل
اپنی بیگم کی یاد میں جیسا
اک شہنشاہ نے بنایا تھا
میرے مرنے کے بعد میرے لیے
کیا بناﺅ گے ایسا تاج محل
سنتے ہیں پورے بیس سال لگے
تب کہیں جاکے تاج بن پایا
میں تو تیرے بغیر دنیا میں
ایک لمحہ بھی جی نہیں سکتا
یہ بتا تیرے بعد تیرے لیے
پھر بناﺅں گا کیسے تاج محل

آخری عہد مغلیہ میں جب پورا معاشرتی ڈھانچہ لرزہ بر اندام تھا تو ان لرزہ خیز حالات میں اخلاقی اقدار کو شدید ضعف پہنچا بد نیتی ،بد دیانتی ،بے غیرتی اور بے ضمیری کا عفریت ہر طرف منڈلا رہا تھا۔اس عہد میں ریختی کا وجود میں آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پورا معاشرہ بے حسی کا شکارہو گیا تھا۔مرد شعرا نے نسائی لب و لہجے میں شاعری کی اور اس سے تلذذ کی صورتیں تلاش کیں ۔ریختی اور تانیثیت میں بعد المشرقین ہے ۔تانیثیت کا حسن کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنا ممکن نہیں ۔اس کے بر عکس ریختی ابتذال کی ایک بھونڈی شکل ہے ۔ریختی تخلیق کار کے ذہنی انتشار کی عکاسی کرتی ہے جب کہ تانیثیت حسن کے اعجاز سے جہان معانی کی تخلیق کے ذریعے ضزبات کے مد و جزر کو حقیقی انداز میں پیرایہءاظہار عطا کرنے کے امکانات سامنے لاتی ہے ۔تانیثیت کا انداز دل ربائی در اصل حسن کی ایسی کرشمہ سازی ہے جو قاری کو ورطہءحیرت میں ڈال کر اس کے استحسان پر مائل کرتی ہے اور خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے ۔تانیثیت نے تنہائی اور اجنبیت کی مسموم فضا سے نکلنی کی مقدور بھر سعی کی ۔مسلسل شکست دل کے باعثمظلوم اور دکھی انسانیت کی آواز ایک نیم بسمل کے کراہہتے ہوئے درد انگیز نالے کے روپ میں سنائی دیتی ہے ۔تانیثیت نے فرد کو ذہنی اور روحانی تنہائی کے عقوبت خانے سے باہر نکل کر گلزار ہست و بود کو بار بار دیکھنے پ رآمادہ کیا ۔اس طرح یہ ایک مانو س لہجہ ثابت ہوا جس کی تاثیر سے خزاں میں بھی بہار کے خنک جھونکے دلوں کو راحت عطا کرتے ہیں ۔تانیثیت میں پنہاں جمالیاتی کیفیات کا نظارہ دیدہءبینا کے یے حوصلے ،امید اور ولولہ ء تازہ کا نقیب ثابت ہوتا ہے ۔صوفیہ تاج کی ایک نظم ملاحظہ فرمائیں :
بات بن آئے
وہ اڑنا چاہتی ہے
اور فضا کی بے کراں وسعت میں
نیلے آسماں کی چھت کے نیچے

فاصلوں کو اپنی نگاہ میں سمیٹے
خود کو اپنے پنکھ سے آگے نکل جانے پہ آمادہ کیے
تیار رہنا چاہتی ہے
مگر موسم نے اپنے روپ بدلے ہیں
کہ اب جن حوصلوں کی آزمائش ہے
وہی ہر لمحہ اس پر ضرب کاری سے
مسلسل
نارسائی کا کھلا پیغام دیتے ہیں
کہیں اے کاش ایسا معجزہ ہو جائے
کوئی تند جھونکا
اس کے زخموں کی مسیحائی کرے
اور از سر نو
خواب سے وہ اپنا رشتہ جوڑ ڈالے
بات بن آئے

تانیثیت کے علم برداروں نے اپنی خدادا صلاحیتوں کو منصہ شہود پر لانے کے لیے اپنے ذاتی تجربات، مشاہدات اور احساسات کو اساس بنایا۔ان کے خیالات عصری آگہی کا بلند ترین معیار پیش کرتے ہیں ۔یہ کوئی ہوا میں گرہ لگانے والی صورت ہر گز نہ تھی بلکہ اس اسلوب سے افکار تازہ کا ایک غیر مختتم سلسلے کا آغاز ہوا۔اس کی باز گشت دنیا بھر میں سنائی دی ۔تانیثیت کے حوالے سے خواتین میں تخلیقی فعالیت کا جو شعور پیدا ہوا اس کی بدولت زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم میں مدد ملی ۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ تہذیبی اور ثقافتی سطح پر یہ ادعا سامنے آتا ہے کہ اقوام عالم اکملیت کی سمت رواں دواں ہیں مگر سچ یہ ہے کہ ہوس زر نے نوع انساں کو ایک ایسے انتشار اور پراگندگی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے جس نے زندگی کی درخشاں اقدار و روایات کو گہنا دیا ہے ۔حساس تخلیق کار خود کو جزیرہءجہلا میں محبوس پاتے ہیں ۔چاروں جانب مہیب بحر ذخار ہے جس کی ہر موج میں حلقہءصد کام نہنگ ہے ۔ایسے میں نہ تو کوئی امید بر آتی ہے اور نہ ہی اصلاح احوال کی کوئی صورت دکھائی دیتی ہے۔

آج کا اردوادب جدید عصری تقاضوں سءہم آہنگ ہو نے کی مقدور بھر کوشش کررہا ہے ۔ خواتین کی کثیر تعداد پرورش لوح قلم میں مصروف ہے ۔ خواتین نے حیاتیاتی امور پر بھرپور توجہ دی ہے ۔اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عالمی ادبیات کے تیزی سے بدلتے ہوئےرجحانات پر خواتین کی گہری نظر ہے ۔آلام روزگار کے مہیب بگولوں کی زد میں رہنے کے باوجود خواتین نے اپنا وجود برقرار رکھا ہے ۔ ہوائے جوروستم میں بھی انھوں نے رخ وفا کو بجھنے نہیں دیا ۔ تاریخ کا مسلسل عمل یہ ثابت کرتا ہے کہ خواتین نے سعی پہیم کے ذریعے اپنے کا م کی اہمیت اور افادیت کو ثابت کیا ہے اور پتھروںسے بھی اپنی فعالیت کی تاثیر کا لوہا منوایا ہے ۔ موضوعاتی تنوع ان کی تحریروں کا امتیازی وصف ہے ۔ تاریخ ، معیشت ، جغرافیہ ، مذہب ، تہذیب اور معاشرت کا کوئی بھی شعبہ ان کی دسترس سے باہر نہیں ۔ بعض اوقات مواد اور خیالات کی فراہمی کے لیے وہ کلاسیکیت سے استفادہ کرتی ہی نتو بعض اوقات انھیں رومانویت میں دلچسپی محسوس ہوتی ہے ۔ جدیدیت ،مابعد جدیدیت ،ساختیات اور پس ساختیات کے مباحث کا پ رو بھی ان کی تحریرو ں میں ملتا ہے ۔کہیں تو یہ مارکسزم سے خیالات اخذ کرتی ہیںاور کہیںجدید نفسیات کا معتبر حوالہ بن کر سامنے آتی ہیں ۔غر ض ایک دھنک رنگ منظر نامہ ان کی تخلیقی فعالیت میں اپنی پوری ضیا پاشیوں سمیت نگاہوں کو خیرہ کر رہا ہے ۔ تانیثیت کی اس صد رنگی ،ہمہ گیری ،دل کشی اور موضوعاتی تنوع کے متعلق گائتری چکراورتی سپی واک ( Gyatri Chakaravorty Spivak ) نے لکھا ہے :
Feminism lives in the master -text as well as in the pores.It is notdeterminant of the last instance.I think less
easily of changing the world,than in the past." (6)

خواتین کے اسلوب میں حق گوئی ،بے باکی اور حریت فکر کی جو منفرد اور دلکش صورت موجود ہے وہ تخلیقی عمل کو ایک شان استغنا سے متعارف کراتی ہے ۔ متعدد تخلیق کا روں نے تانیثیت کے زیر اثر نہایت زور سے اپنی آواز اٹھائی ہے مثال کے طور پر عصمت چغتائی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ ان کے افسانے لحاف میں ایک کردار بیگم جان کی حرکت اس کے ناآسودہ جذبات اور ابنارملٹی کا پتا دیتی ہے بلکہ ان تمام حسرتوں کا اندازہ بھی ہوتا ہے جوبیگم جان کے شوہر کے ابنارمل ہونے کے باعث دل میں خون ہوگئیں ۔

تانیثیت کا ڈسکورس ہمیشہ سے متنوع رہا ہے ۔ ہمارا معاشرہ بے حسی کا شکار ہے اجلاف وارزال اور سفہانے مجبورں کا جینا دوبھر کر دیاہے۔ علاقائی ، لسانی اور نسلی امتیازات نے انساینت کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ فرائڈنے عورت کے جذبات کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت کو محض جنس تک محدود سمجھناصحیح انداز فکر نہیں ہے۔

قوانین نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے ، انسانیت پر کوہ غم توڑنے والوںکو وہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہیں ، ان کا پیغام دکھی انسانیت سے خلوص اور دردمندی پر مبنی بے لوث محبت ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ محروم طبقے سے عہد وفا استوار رکھنا وقت کا اہم تقاضاہے ۔ ہر فرعون ، نمرود، ہلاکو خان اور شمر کے خلاف انھوں نے نوک قلم سے جہاد کیا ہے ۔ آئین اور ملک کو پامال کرنے والے جنرل ضیاالحق نے کہاتھا :”سیاست دانوںکا کیا ہے ، جب بھی بلاﺅں وہ دم ہلاتے میری طرف دوڑتے آئیں گے ۔ رہا دستور تو یہ محض بارہ صفحات کا کتابچہ ہے ۔جب چاہو اسے چاک کر کے پھینک سکتا ہوں۔“ (9)

”اسی جر نیل نے فرقہ واریت کو ہوادی اور ملا ازم کو فروغ دیا۔“ (10)

محترمہ عذرااصغر نے اسی آمر اور مطلق العنان حکمران کے مظالم کو موضوع بناتے ہوئے لکھا ہے:”علم کی روشنی سے منور دماغ انسان آج بھی صدیوںپہلے کے مظالم اور جاہلانہ رویہ کا حامل انسان ہے وہی بربریت ، ویسی ہی سفاکی ، ایک طرف وہ کائنات فتح کررہا ہے ، چاند ستاروںپر بستیاں بسانے کے جتن کررہا ہے اور دوسری طرف یہی انسان مذہبی منافرت ، نظریاتی مناقشہ اور ظلم وجور کے مظاہر کرتا تھا۔

”انسان پر ظلم کا یہ حق کس نے دیا اور پاکستان کا وہ حکمران جو پنجوقتی نمازی تھا اور ہر لمحہ اسلام کا نام لیتا تھا مگر جس نے دسکردو کے ایک مخصوص عقائد رکھنے والے لوگو ں میں پھوٹ ڈالنے اوران کے مسلک میں انتشار پیدا کرنے کی غرض سے ان کو طالبان سے بھڑایا تھا ۔“

پروین شاکر نے اسی عہد ستم کے لززہ خیز مظالم کے حوالے سے اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہاتھا:
چھاﺅں بیچ آئے اگر نفس سے مجبور ہوئے
وہ جو تقسیم ثمر پر یہاں مامور ہوئے
شعبہ رزق خدانے جو رکھا اپنے پاس
نائب اللہ بہت بددل و رنجور ہوئے
وہی شداد ، وہی جنت خاشاک نہاد
ویسے ہی عظمت یک لحظہ پہ مغرور ہوئے
وہ رعونت ہے لگتا ہے ازل سے یونہی
نشہ مسند شاہانہ سے مخمور ہوئے

تانیثت کا بنظر غائر مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کی تحریروں میں مظلم وجبر کی ہر صورت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے پر توجہ رہی ہے ۔ ظالم کہیں بھی ہو اور کسی بھی مقام پر ہو اس پر لعنت بھیجنا خواتین کا مطمح نظر رہا ہے ۔ ظلم سہنا اور اس کے خلاف آواز بلند نہ کرنا منافقت کی دلیل ہے ۔ سچی بات تو یہ کہ ظلم واستبداد پر لعنت نہیں کرتا وہ بجائے خود لعین ہے ۔ پروین شاکر نے کہا تھا ۔
مقتل وقت میں خاموش گواہی کی طرح
دل بھی کام آیاہے گم نام سپاہی کی طرح
ظلم سہنا بھی ہو ا ظلم ہی اک حد کے بعد
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
کلہم ایک دیا اور ہوا کی اقلیم
پھیلتی جائے مقدر کی سیاہی کی طرح
Dr. Ghulam Shabbir Rana
About the Author: Dr. Ghulam Shabbir Rana Read More Articles by Dr. Ghulam Shabbir Rana: 80 Articles with 257157 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.