ثانی اثنین

سال کے گرم ترین مہینوں میں جون کا مہینہ سرفہرست ہے اور اگرجون کی دھوپ ریگستانی پہاڑوں اورچٹانوں کے ساتھ مل جائے تو گرمی کی شدت کو دوبالاکر دیتی ہے، آج سے ڈیڑھ ہزار برس قبل یہ جون ہی کے مہینے کی ایک اندھیری رات تھی جوہجری ماہ و سال کے نئے نظام کی بنیاد بننے جارہی تھی اور سحر کے ہنگام سے قبل تاریخ انسانی کا ایک ورق پلٹ کر نیا باب شروع ہونے کو تھا۔ وسط عرب کی قدیمی بستی مکہ کے باسی اپنے معمول کے مطابق حدت اور اندھیرے کے تلخ امتزاج میں محو خواب تھے لیکن رب العالمین کے منتخب اور بلا واسطہ مامور من اﷲ خوش قسمت لوگ نیند کی حسین وادیوں میں پڑاؤ نہیں کرتے،موسم خواہ شدید گرم اور خشک ہویا رات کی تاریکی وخاموشی جس قدر بھی ہولناک ہو،بہرحال ان کے لیے خالق کائنات کا ہر ہر حکم خَیْرُمِّنَ النَّوم کا درجہ رکھتا ہے ، اس رات اﷲ کا محبوبؐ اﷲ کے دین کی ترویج و تبلیغ کے لیے ایک مقدس مقام سے دوسرے محترم شہر کو سفرِہجرت پر مامور ہے جبکہ حبیب ِ خدا ؐ کا نائب آپ ؐ کی خدمت و معاونت پر فائز ہے ، دونوں کو اپنے اپنے تفویض کردہ مشن سے عشق ہے۔ نصف شب میں دو نوں عاشقوں پر مشتمل انتہائی سادہ مگر پروقار قافلہ مکہ کی بستی سے جنوب کی جانب عازمِ سفر ہوا ۔غور طلب بات ہے کہ ہجرت کی منزل شمال کی جانب ہے لیکن عشاق کا سفر مخالف سمت میں ہے۔دل والوں کی لغت میں یہ تضاد رسم عاشقی کا خاصہ اور محبت کی خوبصورت ادا ہے۔
بقول شاعر ؂
الٹی ہی چال چلتے ہیں دیوانگان عشق
آنکھوں کو بند کرتے ہیں دیدار کے لیے

صدق و وفا کی خوبصورت روداد کا مشاہدہ کسی بھی پہلو سے کر لیں کُن فَیَکُون کے حیران کن عجائبات ہی نظر آئیں گے جیسا کہ سفرِ ہجرت تو سارے عالم کو رحمتوں سے منور کرنے کے لیے ہے لیکن اس کا آغاز تاریک رات سے ہورہا ہے ۔ دنیا کی سب سے بڑی خیر عرب کے پسماندہ ترین معاشرے سے ظاہر ہو رہی ہے ، صراطِ مستقیم کاعَلم جہالت کے گڑھ سے بلند ہوا،دنیا کی پیاس بجھانے کے لیے میٹھے پانی کا چشمہ سخت ترین پتھر سے پھوٹا، اندھیری رات کے دامن سے نورِ ہدایت کی کرن کا ظہورہوا گویاکوئلے کی کان سے کائنات کے بیش قیمت ترین ہیروں کو نکال کر جنت کے ٹکڑے پر سجانے کے لیے لے جایا جا رہا ہے۔

ہیروں کا وزن کرنے کے لیے شیش محل میں سجا ہوا خوبصورت ترازو استعمال کیا جاتا ہے لکڑی کے ٹال پر آویزاں بھاری بھرکم کانٹا اپنے زعم میں جتنا بھی قیمتی و کارآمد ہو مگرہیرے کی قدر کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے، گمراہی کے گڑھوں اور سیاہی کے ڈھیروں میں مستغرق اہل غفلت صراط مستقیم کی روشنائی کیونکر پہچان سکیں گے،کاتب ِ تقدیر نے جن کی قسمت میں دنیا اور آخرت کی ذلت و خواری لکھ دی تھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبان مبارکہ سے رب تعالیٰ کی توحید سنتے ہی بر انگیختہ ہو گئے، زبانی طعن وتشنیع اہل حق کا راستہ نہ روک سکی تو باطل اپنی اوقات پر آگیا اور انبیاء ؑ پر مظالم کی سابقہ تاریخ دہرانے کی ٹھان لی،جسمانی اذیتوں سے بھی پایۂ استقلال میں جنبش پیدا نہ ہوئی تو جان کے دشمن بن گئے اور شیطانی عزائم کی تکمیل کے لیے گھیراؤ کر لیا لیکن حق کے دیوانوں کا راستہ روکنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں لہٰذا سروں پر خاک ہی مقدر ہوئی ، اﷲ کا حکم پورا ہوا ،بچانے والے کی حکمت غالب آگئی اور مارنے والوں کو منہ کی کھانا پڑی، جانے والے بالآخر سب منصوبہ سازوں کی آنکھوں کے سامنے بصد شان گئے۔ایک جانباز عزیزکو آقا ؐکے بستر پر سونے کی سعادت ملی تو دوسرے جانثار رفیق کو معیت و خدمت کا اعزاز ملا۔

کفار کی نظر میں مجرم لیکن رب العالمین کے محرم، فرش والوں کے عتاب کا نشانہ لیکن عرش والے کے رحم وفضل کا محور،یہ دونوں مسافر کون ہیں ، ایک صادق و امین تو دوسرا صدیق و عتیق ۔ایک سرور کونین تو دوسرا ثانی اثنین ۔ایک ماہ نوارتو دوسرا کوکب زہار ۔ ایک آفتاب ٹھہرا تو دوسرا ماہتاب ۔ایک مرشد و رہبرتو دوسرا مرید و پیروکار۔ایک آقا و مولا تو دوسرا غلام و رفیق۔ ایک افضل الناس تو دوسرا اشجع الناس۔ایک آقاءِ بلال تو دوسرا محسنِ بلال۔ایک امام الانبیاء و الرسل تو دوسرا خلیفۃالرسول بلا فصل۔ نبیؐ و صدیقؐ میں حیرت انگیز خوش کن نسبت و مماثلت کا قصہ اتنا طویل ہے کہ عمومی تحاریر میں اس کا احاطہ کرنا محال ہے۔کسی بھی راستے سے سیرت طیبہ کے گلشن میں داخل ہوں رفاقت ِ صدیق کی خوشبو کا مسحور کن احساس ہی مدمقابل ہو گا۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دونوں عالم کے سردار ہیں ۔ آپ ؐ کے دو سفر معروف و مقبول ہیں،دونوں مکہ سے شروع ہوئے، دونوں میں دو دو ٹھہراؤ ہیں یعنی دونوں میں ایک پڑاؤ عارضی اور دوسرا حتمی ہے، دونوں میں ایک ایک رفیق یعنی کل دو رفیق ہیں،دونوں میں ایک ایک سواری یعنی کل دو سواریاں ہیں، سفر اول سدرۃ المنتہیٰ کی جانب ہے لیکن بیت المقدس میں عارضی قیام ہے ، سفر دوئم مدینہ منورہ کی جانب ہے لیکن ثور عارضی قیام ہے،بیت المقدس میں جمیع انبیاء کرام ؑ نے آپ ؐ کی امامت میں نماز ادا فرمائی جبکہ ثور میں صدیق ؓ کے لیے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی محض زیارت ہی کسی عبادت سے کم نہیں،
بقول اقبال ؂
ادائے دِید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری

معراج میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت کے دو کردار نمایاں ہیں یعنی جبرائیل علیہ السلام کا ساتھ اور براق کی سواری، لیکن ہجرت میں یہ دونوں خدمات سیدناصدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے حصہ میں آئیں یعنی رفاقت و معاونت کے فرائض بھی ادا کیے اور آقاؐ کو کندھوں پر سوار کر کے جبل ثورکی بلندیوں کا سفر کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔براق اگر آسمان کی رفعتوں کا مشاق ہے تو جبل ثور کی عمودی بلندی کا مشاہدہ کرنے والے جانتے ہیں کہ اس کی جان لیوا چڑھائی کا سفر کسی تنہا انسان کا بس نہیں کجا یہ کہ بار نبوت کو نحیف کندھوں پر بٹھا کر غار تک پہنچنا، صاف ظاہر ہے کہ رب العالمین کی قدرت و کرامت اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے معجزات کی نصرت و برکت سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ بظاہر جبل ثورمگر درحقیقت فردوس کی منازل طے کر رہے ہیں۔یعنی رفاقت ِ غارو مزار میں اہم سنگ میل آ گیا۔ دوست کو دوست سے ملانے کی حکمت و قدرت ظاہر ہو رہی ہے۔

دنیا والوں کی بند آنکھوں سے اوجھل لیکن ماوراء الدنیا کی ہر نگاہ لمحہ بہ لمحہ اس مبارک سفر پر مرکوز ہے ، کون جانتا تھا کہ مکہ کی بستی کے ایک سادہ لوح وفاشعار دوست کو آج رات قرآن حکیم سے اخلاص وعشق کی تصدیقی و تعریفی سند مل رہی ہے۔جبکہ اس سے قبل نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کو اپنی زبان مبارک سے جنت میں داخلے کی ڈگری عطا فرمائی اور وضاحت فرمادی کہ دنیا میں ابوبکرؓ کے احسانات کا بدلہ دینا ممکن نہیں لہٰذا وفاؤں کا بقایا اجر بروز محشر رب العالمین خود عطا فرمائیں گے ۔دنیا کی سخت آزمائشوں اور امتحانات میں آپؓ نے ایسی کامیابی حاصل کی کہ جنت کے آٹھوں دروازوں کے میرٹ لسٹوں میں سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کا نام نمایاں پوزیشن کے ساتھ درج ہو گا۔جیسے ہم ایک تعلیمی ادارے سے اچھی کارکردگی کے بعد بڑی یونیورسٹی میں داخلے کی درخواست دیں تو سابقہ پوزیشن کی بنیاد پر اہل امیدواروں کی کامیابی کی فہرست آویزاں کی جاتی ہے۔آج کی جدید ترقی یافتہ یونیورسٹیوں کی ڈگری اعزاز نہیں بلکہ دنیا میں زندگی کے چند روز گزارنے کا عارضی سہارا ہے اور عزت نہیں بلکہ عزت کا دھوکہ ہے،قابلیت اور عزت کا اصل سرٹیفیکیٹ تو یہ ہے کہ اﷲ نے جس مقدس کتاب کو نازل فرمایا وہ گواہی دے رہی ہے ،اور پھرقرآن مجید نہ صرف کتاب ہے بلکہ اﷲ کا کلام بھی ہے یعنی یہ وہ الفاظ ہیں جو رب العالمین نے اپنے حبیبؐ سے کلام کی صورت میں خود ادا فرمائے،اسی محبوبؐ سے وفاداری پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو بارگاہ الٰہی سے محض ایک ہی شاباشی نہیں ملی بلکہ کائنات کے اس منظر نامے میں قدرت کاملہ کے سٹیج سے بار بار ابوبکرؓ کا نام پکارا گیا اور ہر مرتبہ نئے قابل فخر ایوارڈ سے نوازا گیا مثلاً سورۂ مائدہ کی آیت 54 ،55،56 مرتدین و منکرین کے خلاف آپؓ کے عزم و استقلال اور طرز جہاد کی معترف ہے تو آیت 119 بروز قیامت صدیقین کی کامیابی اور اﷲ کی رضا کا اعلان کرتی ہے، سورۂ النورکی آیت 22 آپؓ کی بزرگی و فضل کی گواہی دے رہی ہے توسورۂ الزمر کی آیت 33 دین حق کی تصدیق کرنے پر آپؓ کو خراج تحسین پیش کرتی ہے، جبکہ سورۂ الیل کے آخر میں آپ ؓ کے لیے اﷲ کی رضا کا برملا اعلان کردیا گیا۔قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے والے اہل علم خوب جانتے ہیں کہ رب کائنات نے صحابہ کرام ؓ کے لیے جو الفاظ بیان فرمائے ہیں ان کی تفصیل چند صفحات کے ایک مضمون میں بیان کرنا ممکن نہیں، ان سب انعامات و اکرام سے الگ ہجرت مدینہ میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت و رفاقت ایک ایسا بڑا اور فخریہ اعزاز سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو نصیب ہوا جس پر دیگر صحابہ ؓبھی رشک کرتے رہے اورسیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ تو صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی شب ہجرت کو اپنی پوری زندگی کے اعمال پر ترجیح دیتے رہے ۔تنہائی کے لمحات میں محبوب کے چہرے کو دیکھتے رہنا کس عاشق کی خواہش نہیں ہوتی کہ’ ’ہم ہی ہم ہوں تیری محفل میں، کوئی اور نہ ہو‘‘۔غار ثور کی سحر انگیز تنہائی، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا حسن اور صدیق رضی اﷲ عنہ کا عشق رسول۔ سبحان اﷲ العظیم، ایسی شان اور ایسا مقام کہ قیامت کی صبح تک سورۂ توبہ کی چالیسویں آیت کی تلاوت کرنے والا ہر مومن سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی رفعت و مراتب پر رشک کرے گا اورہر کافر بغض و حسد میں جلتا رہے گا۔

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کا کوئی پہلو رشد و ہدایت کے سبق سے خالی نہیں البتہ ہجرت مدینہ سیرت طیبہ کے ماتھے کا جھومر ہے ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے آقا ؐ کو اپنے کندھوں پر سوار کرکے غار ثور تک کا سفر کیا تو کفارِمکہ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ کے نشان قدم کی پیروی کی ، ایک مقام پر پہنچ کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے قدم مبارک کے نشان نظر نہ آئے۔کھوجی گھبرائے تو کافروں کا سردار بولا، کہابوبکرؓ کے نشان قدم کی پیروی کرلو ۔لہٰذا سیدنا ابوبکر ؓ کے نشانِ قدم پر آگے بڑھے اور بالآخر غار کے دہانے کو پا لیا لیکن چونکہ دل میں ایمان کی بجائے کفر و بغض تھا لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے عقلوں پر پردہ ڈال دیا اور ناکام و نامراد واپس ہوئے۔ کفار کی ناکامی کے اس قصہ میں اﷲ کی کتنی حکمتیں اور قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے کتنے سبق ہیں۔مثلاًاﷲ تعالیٰ کا حکم ہوتا تو فرشتے دونوں حضرات کے قدموں کے آثار صاف کردیتے اور دشمن بھٹکتا رہ جاتا،لیکن یہ نشان قدم مٹانے کے لیے نہیں بلکہ دنیا والوں کو دکھانے اور پیروی کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔رب کائنات نے گویا اشارہ فرما دیا کہ جس راستے پر اﷲ کا حبیب ؐ ہے اسی راستے پر صدیقؓ ہے ،اور یہ کہ زندگی کے جس مقام پر آقاؐ کے قدموں کے نشان نہ پاؤ تو صدیق ؓ کے نشانِ قدم پر چل لینا ،کامیابی سے منزل تک جا پہنچو گے۔ البتہ صادقؐ و صدیقؓ سے بغض رکھ کر چلو گے تو منزل تک پہنچ کر بھی محرومی ہی مقدر ہو گی۔
 

Qazi baha ur rahman
About the Author: Qazi baha ur rahman Read More Articles by Qazi baha ur rahman: 20 Articles with 22233 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.