پاکستانیوں میں لاکھ خامیاں سہی مگر ان میں ایک
ایسی خوبی بھی موجود ہے جو شاید ہی کسی اور ملک کے باسیوں میں موجود ہو ،
وہ خوبی ہے پاکستانیوں میں صدقہ وخیرات دینے کا جذبہ، آپ یہ سن کر حیران ہو
نگے کہ پاکستانی ہر سال صدقہ و خیرات کی صورت میں 554ارب روپے عطیات و
خیرات کی مّد میں دیتے ہیں مگر اتنی بڑی رقم کس کے ہاتھوں میں جاتی ہے یہ
حقیقت کسی کو معلوم نہیں ۔
ہو سکتا ہے اس کا بڑا حصہ دہشتگردوں کے ہاتھ لگتا ہو ، اسی خطرہ کے پیشِ
نظر وزارتِ اطلاعات و نشریات نے ایک مہم ’’حق،حقدار تک‘ کے نام سے آگاہی
مہم شروع کر رکھی ہے۔ گزشتہ روز پشاور کے ایک مقامی ریسٹورنٹ میں اسی سلسلہ
میں ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا ۔جس میں دو ارکانِ صوبائی
اسمبلی کے علاوہ ریٹائرڈ ججز، کالم نگاروں اور میڈیا کے دیگر نمائیندوں کے
علاوہ متعدد اقلیتوں کے نمائیندوں نے بھی شرکت کی ۔ قومی ترانے اور تلاوتِ
کلامِ پاک کے بعد اس سیمینار کے روحِ رواں زاہد عثمان نے پروگرام کے اغراض
و مقاصد پر تفصیل سے روشنی ڈالی جبکہ راحت خان نے پروجیکٹر کے ذریعے زیرِ
بحث موضوع کی تشریح و توضیح میں مدد دی۔
پروگرام میں شامل حاضرین کو بتا دیا گیا کہ وزارتِ اطلاعات و نشریات کی
تحقیق کی مطابق پاکستان میں تقریبا 554ارب روپے سالانہ صدقہ و خیرات کی صور
میں دئیے جاتے ہیں جو کہ پاکستانی عوام کی فلاحی کاموں میں شرکت اور
انسانیت دوستی کا واضح ثبوت ہے ۔
عطیہ کی گئی رقم جہاں صحیح معنوں میں امدادی کاموں میں استعمال کی جاتی ہے
وہیں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ دھوکے باز اور شر پسند
عناصر فلاحی کاموں کی آڑ میں لوگوں کی معصومیت اور لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے
ہوئے اس رقم کا کچھ حصہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اس طرح یہ
رقم فلاحی کاموں کی بجائے ملک و قوم کی سا لمیت کے خلاف بھی استعمال ہو
سکتی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم صدقات و خیرات دینا ہی چھوڑ
دیں، مگر اتنی احتیاط ضروری ہے کہ ایک ذمّہ دار شہری کی حیثّیت سے عطیات
دیتے وقت یہ ضرور دیکھیں کہ یہ رقم مستحق افراد یا مستحق اداروں تک پہنچے ۔
عموما ہمارے ہاں چوراہوں ،مساجد یا پبلک مقامات پر ’’ چندہ بکس ‘‘ رکھے
جاتے ہیں مگر ان کا یہ پتہ نہیں چلتا کہ کیا ان میں ڈالی گئی رقم صحیح طور
پر استعمال کی جاتی ہے یا نہیں ۔؟بھیک مانگنے والوں کو دی گئی رقم کس کے
ہاتھوں میں پہنچتی ہے ؟ مساجد کے نام پر وصول کی گئی رقم کہاں استعمال ہو
تی ہے، قربانی کی کھالیں جمع کرنے والے کیا اس سے وصول کرنے والی رقم
مستحقین تک پہنچاتے ہیں یا اسے کسی غیر مستحق افراد اسے استعمال میں لاتے
ہیں، مناسب ہوگا کہ صدقہ و خیرات دینے سے پہلے تسلّی کر لی جائے کہ حق ،
حقدار تک پہنچایا جا رہا ہے۔ ‘‘ پروگرام میں شریک بعض اہلِ رائے نے بوساطتِ
شریک پارلیمینٹرین حکومت کو تجویز پیش کی کہ حکومت کے خزانہ میں عوام کے
بنک اکاوئنٹس سے زکواۃ کی مد میں جمع ہونے والی رقم میں بے نظیر انکم سپورٹ
پروگرام کے ذریعے جن لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور حقدار کا حق
کھایا ہے ،انہیں مثالی سزا دینی چاہئیے۔ علاوہ ازیں بھکاری افراد کے لئے
دارالکفالہ قائم کئے جائیں اور مختلف شہروں میں موجود چوراہوں پر بھیک
مانگنے والوں کی نہ صرف حوصلہ شکنی کی جائے بلکہ بھیک مانگنے کو جرم قرار
دیا جائے۔
بے شک صدقہ و خیرات دینا ایک نہایت ہی نیک اور باعثِ اخروی نجات ہے ، عوام
کے ذہنوں میں بھی یہی بات راسخ ہو چکی ہے کہ ہم تو اسے ایک مذہبی فریضہ
سمجھ کر صدقہ و خیرات دیتے ہیں، عوام کے اس قابلِ ستائش جزبہ سے بعض لوگ
ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اچھی خاصی رقم بٹور لیتے ہیں اور پھر اسے انسانی
منفعت میں لگانے کی بجائے انسانی ہلاکت کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔
بوجہ ازیں عوام سے اپیل ہے کہ اپنے صدقہ و خیرات کو شک و شبہ سے بالا تران
اداروں یا افراد کو دیجئے جو آپ کی محنت کی کمائی حقدار تک پہنچانے کا
معتبر اور قابلِ بھروسہ ذریعہ بن سکے ۔۔۔۔۔۔ |