زبانی ہبہ یا فروخت کے معاہدئے کو کیسے جانچا جاسکتا ہے ۔سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

سول مقدمات میں دعویٰ اور جواب دعویٰ میں بیان کیے گئے حقائق کو پھر دستاویزی اور زبانی شہادت کی کسوٹی کے معیار پر جانچا جاتا ہے۔ اگر کوئی زبانی معاہدہ ہو، خواہ وہ خرید و فروخت کے حوالے سے ہو یا ہبہ کے حوالے سے ہو۔ اِس کے لیے کچھ اہم نکات ہیں جن کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اُن نکات کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر زبانی معاہدہ کی بناء پر کیس کو جیتنا مشکل ہے۔ قانون سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں زبانی معاہدہ کے لیے ضروری نکات کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ سول مقدمات میں زبانی معاہدے کی کیا حیثیت ہے۔اِس کو اجننے کے لیے ہم اِس کیس کو دیکھتے ہیں۔ حقائق کچھ اِس طرح ہیں کہ پراپرٹی کا مالک اِس کیس میں درخواست دہندہ ہے۔ درخواست دہندہ امریکہ چلا گیا تھا اور اپنی بہن کو سپیشل پاور اٹارنی دے گیا کہ وہ اُس کے مکان کو کرائے پر دے دے۔ یاد رہے کہ درخواست دہندہ نے صر ف سپیشل پارور آف اٹارنی کرائے کی بابت دیا نہ کہ وہ فروخت کے متعلق تھا۔ درخواست دہندہ کو اطلاع دی گئی کے دھوکہ سے اُس کے مکان پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ درخواست دہندہ چند سال کے بعد پاکستان واپس آیا اورریسپونڈنٹ کو قانونی نوٹس دیا کہ وہ اُس کا مکان خالی کردئے اور جتنا عرصہ اُس نے گھر کو استعمال کیا ہے اُس کا معاوضہ بھی ادا کرئے ۔ ریسپونڈنٹ نے قانونی نوٹس کے جواب میں لکھا کہ مکان درخواست دہندہ کی بہن نے اُس کے ہاتھ مورخہ 2-5-2005 کو0 19,5000 میں فروخت کردیا تھا۔

فلاں نمبر چیک اور فلاں بنک کی برانچ کے ذریعہ سے بقایا رقم ادا کردی گئی تھی۔ ریسپونڈنٹ نے جو سٹانس لیا اُس پر درخواست دہندہ نے مقدمہ برائے استقرار حق ،استعمال شدہ عرصہ کا کرایہ دائر کیا۔
ریسپونڈنٹ نے بھی ایک مقدمہ برائے تعمیل مختص ، کرایہ نامہ کے کاغذات کی منسوخی دائر کردیا۔ اِس میں جوموقف ریسپونڈنٹ نے لیا تھا وہ یہ کہ جب درخواست دہندہ سن دو ہزار میں پاکستان آیا تھا۔ تو اُسے پچاس ہزار روپے دے دئیے گئے تھے اور یہ طے پایا تھا کہ بقایا رقم درخواست دہندہ کی بہن کو ادا کردی جائے گی۔ پہلی مرتبہ ریسپونڈنٹ نے بیس لاکھ روپے کی رقم کے حوالے سے موقف لیا۔

سنگل جج کورٹ نے درخواست دہندہ کے حق میں مقدمہ ڈگری کر دیا اور ریسپونڈنٹ کے مقدمے کو خارج کردیا۔ بعد ازاں اپیل میں مشترکہ دونوں کیسوں کے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل منظور کر لی اور ریسپونڈنٹ کے حق میں تعمیل مختص کا مقدمہ ڈگری کردیا گیا۔

سپریم کورٹ نے بہت تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا کہ درخواست دہندہ کی بہن سکینہ کو مکان کی فروختگی کے لیے کوئی سپیشل پاور اٹارنی نہیں دیا گیا تھا۔ جبکہ سپیشل پاورآف اٹارنی صرف مکان کرائے پر دینے کے لیے دیا گیا تھا۔ کسی قسم کا implied, expressed پاورآف اٹارنی مکان کی فروختگی کے لیے نہیں دیا گیا تھا۔ ہمیں سپیشل پاورآف اٹارنی کے حوالے سے کوئی شک نہ ہے۔ سپریم کورٹ یہ قرار دے چکی ہے کہ یہ غلط ہے کہ جنرل پاور آف اٹارنی کی ڈسکرپشن کا یہ مطلب ہے کہ پراپرٹی کو فروخت کردیا جائے ۔ اگر جنرل پاور آف اٹارنی سے فروختگی کا کام لینا ہے تو واضع طور پر اِس میں لکھا جائے کہ کونسی پراپرٹی کو فروخت کیا جانا ہے۔ اِس حوالے سےImam Din Vs Bashir Ahmed pld 2005 sc 418. کیس لاء بھی ہے۔

پاورآف اٹارنی میں واضع ہے کہ وہ صرف مکان کرائے پر دینے کے لیے دیا گیا تھا نہ کہ مکان فروخت کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔ اِس طرح سپر سٹرکچر جو کہ ایک غیر قانونی اتھارٹی پر منحصر ہے وہ گر پڑا ہے یعنی پاور آف اٹارنی فروختگی کے لیے نہ تھا۔

زبانی معاہدہ جو کہ رسیپونڈنٹ کو فروختگی کے لیے ہے کئی وجوہات کی بناء پر جھوٹا ہے۔ اِس طرح کے معاہدے کا written statement میں کوئی ذکر نہ کیا گیا۔ قانونی نوٹس کے جواب میں جو تضادات ہیں وہ یہ کہ ریسپونڈنٹ کا کہنا ہے کہ معاہد اکتوبر دو ہزار میں ہوا اُس کے بھائی اصغر علی کے ذریعہ سے۔پہلی مرتبہ ریسپونڈنٹ کی طر ف سے دخواست کو دی جانے والی رقم کا تذکرہ کیا گیا۔

.8 ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ قانونی نوٹس اور جواب دعویٰ اور جو کیس ریسپونڈنٹ نے دائر کیا ہے میں مبینہ زبانی معائدے کے گواہان کے نام ، زبانی دعوے کی تاریخ ، زبانی دعوئے کا مقام، زبانی دعوے کا وقت کا ذکر نہ ہے۔ ریسپونڈنٹ کے وکیل نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ جو Gaps ہیں اُن کو گواہان کے بیان حلفی کے ذریعے سے پورا کر لیا جائے گا۔ ہم اِس بحث سے مطمن نہ ہیں۔ ایسا سب کچھ پلیڈنگ سے باہر جانے کی واضع کوشش ہے اور یہ واضع طور پر after thoughts کے زمرئے میں آتا ہے۔ اِس طرح کے ایکشن کی اجازت قانون نہیں دیتا۔اِس عدالت نے زبانی معائدے کی بناء پر فروخت کیے جانے کے حوالے سے کئی فیصلہ جات دئیے ہیں۔ جو کہ اِس کیس میں نہیں ہیں۔

ایسے مقدمات جن میں زبانی معاہدے جات کی با ت کیجاتی ہے اُن کو شہادت اور پلیڈنگ میں جیتنے کے لیے جو امپرومنٹ کی جاتیں ہیں وہ اِن کیسز کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ عدالتیں تمام Requirements کو پورا کریں تاکہ صرف سچے کیس ہی ڈگری ہو سکیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ فراڈ ، دھوکہ دہی مہارت اور مقدمے کی مختلف مراحل پر آفٹر تھاٹس سے مقدمہ باز جیتیں ۔

اِسی طرح درخواست دہندہ کا رقم کو وصول کرنا صرف اور صرف beleated plea ہے۔ کیونکہ اِس کا ذکر نہ تو قانونی نوٹس اور نہ ہی جواب دعویٰ میں ریسپونڈٹ کیجانب سے اپنے اپیلٹ کیس میں کیا گیا ہے۔ جس رقم کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ بھی اتکApprove ہے ۔

ریسپونڈنٹ کے وکیل نے بحث کے دوران یہ کہنے کی کوشش کی کہ کرائے پر مکان دینے کے حوالے سے سکینہ بی بی کے نام جو پاورآف اٹارنی تھا۔ اور جو رقم ادا کی گئی تھی وہ دراصل مکان کی فروخت کی ٹرانزیکشن کے حوالے سے تھی۔ اور اُس پاور آف اٹارنی کودرخواست دہندہ نے پنی بہن کے حق میں کیا ہوا تھا۔ وکیل کیجانب سے جو بحث کی گئی ہے وہ افسانہ لگتا ہے اور حقائق کے منافی ہے۔ یہ سب کچھ قانون سے ہم آہنگ نہ ہے۔ہم نے حقائق، حالات، شواہد، پلیڈنگز کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں کہ ایسا معائدہ جو ریکارڈ سے ظاہر نہ ہو اور نہ ہی ٹرائل کی کسی سٹیج پر ظاہرکیا گیا ہو۔

مختصر یہ کہ ریسپونڈنٹ قانونی طور پر قابل قبول شواہد سے نہ تو زبانی معائدے کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوا اور نہ ہی سکینہ بی بی کو خاص پاور اٹارنی کے حوالے سے ثابت کیا جاسکا کہ جس سے وہ رسیپونڈنٹ کو مکان فروخت کر سکتی ۔ علاوہ ازیں ریسپونڈنٹ کی متبادل استدعا کہ مکان کی فروخت اُس کے حق میں ثابت ہوسکے کیونکہ ،تاریخ، وقت ، مقام اور زبانی معاہدہ کی شقیں اور کسی گواہ کا نام کسی بھی سٹیج پر پیش نہیں کیا جاسکا۔ سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژنل بنچ کا فیصلہ قابل اطلاق نہ ہے اِس کو set aside کیا جاتا ہے۔ سنگل جج کا فیصلہ بحال کی جاتا ہے ، ریسپونڈنٹ نے جھوٹی مقدمہ بازی کے ذریعے عدالت کا قیمتی وقت ضائع کیا ہے اِسے ایک لاکھ روپے جُرمانہ کیا جاتا ہے جو کہ سپریم کورٹ کہ دیامیر بھاشا ڈیم فنڈ میں جمع کروایا جائے اور پیسوں کی رسید عدالت کے رجسٹرار کو پیش کی جائے۔ اور اگر ریسپونڈنٹ جرمانہ ادا نہ کرئے تو اِس جرمانے کو لینڈ ریونیو کے بقایا جات کے طور پر وصول کیا جائے۔
اسی طرح کا ایک کیس بھی ہے کہ اﷲ بخش نے ایک کیس معاہدہ تعمیل مختص جسکا عنوان اﷲ بخش بنام امام وغیرہ تھا دائر کیا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اُن کے خاندان کے بڑئے جن کا نام احمد خان تھا نے زبانی معائدہ جائیداد 15-12-1962 کو کیا۔ جس کے مطابق 67 روپے فی مرلے کے حساب سے خریدی تھی اور ساری رقم امام کو گواہان کی موجودگی میں ادا کردی تھی اور زمین کا قبضہ احمد خان نے لے لیا تھا ۔ موجودہ ریسپونڈنٹ نے زمین پر تعمیر بھی کی اور اُس پر بجلی کا میٹر بھی لگوایا۔ احمد خان اور امام کی فیملی کے آپس میں خوشگوار تعلقات رہے۔ لیکن امام کی وفات کے بعد اُس کے وارثان نے معائدہ فروخت پر عمل درآمد کرنے سے انکار کردیا اور ریسپونڈنٹ کو کیس فائل کرنا پرا۔

درخوست دہندہ نے بھی ایک دعویٰ نورمحمد بنام احمد خان وغیرہ دائر کیا اور اِس میں یہ کہا گیا کہ اُن کے خاندان کے بڑئے جن کا نام امام تھا نے احمد خان اور اُن کے پیشرو کو متنازعہ پراپرٹی صرف رہنے کے لیے دی تھی اب وہ خالی نہیں کر رہے ہیں۔دونوں فریقین نے اپنا اپناجواب دعویٰ داخل کیا اور کچھ قانونی نکات اور کچھ حقائق بیان کیے ہیں۔ ٹرائل کورٹ نیمشترکہ طور پر کیسوں کے ایشو فریم کیے اور فریقین نے اپنی اپنی دستاویزی اور زبانی شہادتیں پیش کیں۔ٹرائل کورٹ نے دونوں دعویٰ جات کو 29-11-2011 خارج کر دیا۔ اور اپیلٹ کورٹ نے24-9-2013 کو دونوں کیسوں کی اپیل کو خارج کردیا۔

درخواست دہندہ اور ریسپونڈنٹ دونوں فیصلے سے معطمن نہ تھے۔ اِس لیے دنوں نے سول ریویژن ہائیکورٹ میں دائر کردی۔ ہائی کورٹ نے دونوں فریقین کو سُنا ،ریکارڈ ملاحظہ کیا اور ٹرائل کورٹ اور اپیلٹ کورٹ کے فیصلے کا بھی جائزہ لیا۔ دعویٰ تعمیل مختص جو کہ ریسپونڈنٹ اﷲ بخش وغیرہ نے اﷲ بخش بنام امام وغیرہ دائر کیا تھا کو ڈسکس کرتے ہوئے یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ فریقین کیجانب سے اپنے موقف کو پلیڈنگز میں حقائق کو بیان کرنا ہوتا ہے۔ اِس حوالے سے PLD 1976 SC 469 کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔

2006 SCMR 562 کے مطابق فریقین کو پلیڈنگز سے باہر شہادت دینے کی اجازت نہ ہے۔ شہادت نے پلیڈنگز میں بیان کردہ واقعات اور حقائق کی سچائی کو سچ ثابت کرنا ہوتا ہے۔ ریسپونڈنٹس سے زبانی معاہدہ کی بنیاد پر فروختگی کے معاہدہ کے حوالے سے کیس دائر کیا ہے جس میں وقت ، مقام، دن تاریخ اور گواہان کے نام نہ ہیں۔

حتی ٰ کہ DW-1 اپنے چیف بیان اور جرح میں معاہدہ کا وقت، جگہ ، اور گواہان تک کے نام بتانے میں ناکام رہا ہے۔ ریسپونڈنٹس نے پلیڈنگز اور شہادت میں زبانی معاہدئے کو ثابت کرنے کے لیے جو حقائق تھے وہ بیان نہیں کیے ہیں۔ جیسا کہPLD 2011SC 161 میں بیان ہوا ہے۔

سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے نے بطور چیف جسٹس جو ملکی نظام انصاف کے حوالے سے اظہار کیا تھا وہ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ انصاف میں تاخیر کی ایک وجہ عدلیہ کی نا اہلی ہے،وکلا ء سے ملکر سائلین کا استحصال کیا جاتاہے،ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا،نظام عدل میں تاخیر ناسور بن چکی ہے،ایک جج 55ہزار روپے روزانہ میں پڑتا ہے،کیا وہ اتنا کام کرتا ہے؟یہ ملک نہ ہوتا تو میں چھوٹا موٹا وکیل یا بنک آفیسر ہوتا، جو پس منظر میں ملک چلاتے تھے ان کی اب کوئی حیثیت نہیں سوات میں انقلاب کیوں آیا؟ جلد انصاف کی یقین دہانی تھی،بنیادی حقوق کا سکوپ ہم نے سمجھا ہی نہیں،تنقید ہو رہی ہے، مانتا ہوں کئی جگہ زیادتی ہوئی،سمندر پار پاکستانی یہاں جائیداد بناتے ہیں تو قبضہ ہو جاتا ہے،پھر 15سال سول کورٹ،اپیل،سیکنڈ اپیل، سپریم کورٹ، اتنے میں وہ فارغ ہو جاتا ہے۔ عدلیہ کی نااہلی بھی ہے، ججز مقدمات کی تاریخیں دیتے رہتے ہیں،مقدمات کا بروقت فیصلہ ہی نہیں کرتے،جو تنقید ہورہی ہے وہ کسی حد تک درست ہے،بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ایک جج ایک دن کیلئے55 ہزار روپے میں پڑتا ہے،کیا یہ جج اس کے مطابق کام کرتے ہیں جب ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو مقدمات میں تاخیر ہوگی اور عوام کا عدلیہ پر اعتماد ختم ہو گا،جہاں بے انصافی ہوگی وہ معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا، ملک نصیبوں والوں کو ملتا ہے بدقسمت ہوتے ہیں جن کا ملک نہیں ہوتا،پاکستان کسی نے تحفے میں نہیں دیا کیا ہم پاکستان کی قدر کررہے ہیں؟ ملک خیرات میں نہیں ملا اس کیلئے جدوجہد کی گئی، ایسے وکلا بھی تھے جوعدالتوں میں جھوٹ نہیں بولتے تھے، اپنے موکل اور عدالتوں کا احترام کرتے تھے اگر یہ سب نظام جھوٹ پر کھڑا ہے تو اس ملک کو کیا دیا جاسکتا ہے،ایک جج کو پوری ذمہ داری سے ان مقدمات کا فیصلہ کرنا ہے جو اسکے سامنے لگے ہیں،جج پیڈ ہالیڈے پر نہیں ہوتے،کفر کا معاشرہ تو رہ سکتا ہے لیکن بے انصافی کا نہیں، جس بندے کے مقدمے کی تاریخ پڑتی ہے وہ اسی وقت مرتا ہے ۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 453 Articles with 429926 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More