گزشتہ دن میرے دوست فیروز حسن زئی نے فون کرکے حال
احوال پوچھنے کے بعد مجھ سے ضلع تور غر کے مسائل پر گفتگو شروع کردی اور
ضلع تور غر کے موجودہ صورتحال کے بارے میں مجھے ایک عالم دین سے ملانے کے
لیے ایم پی آر کالونی اورنگی ٹاؤن بلایا ۔ مفتی عزیز اﷲ تور غر میں ایک بڑا
نام ہے وہ جمعیت علمائے اسلام تور غر کے امیر بھی ہے ، علاقے میں کسی کا
جھگڑا ہو یا کوئی دیگر معاملہ ہو تو مفتی عزیز اﷲ احسن انداز میں اس مسئلے
کو جرگہ یا شرعی اصولوں پر حل کردے تھے ہیں۔ وہ کچھ دنوں سے کراچی میں قیام
پذیر ہے ایک جرگے کے سلسلے میں ۔راقم فیروز حسن زئی کے ساتھ ایک صحافی دوست
خالد محمود کے گھر گئے جہاں مفتی صاحب کے ساتھ حیات خان ، مفتی عبدالعلیم
حسن زئی اور کچھ دیگر دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ میری پہلی ملاقات تھی
گرچہ خاندانی ربت ان سے کافی پرانا تھا ، مگر میرا رابطہ ان سے اس سے قبل
کبھی نہیں ہوا تھا ۔ خو شگوار علیک سلیک کے بعد تور غر کے مسائل پر مفتی
صاحب نے لب کشائی کی اور تور غر کے مسائل کی داستان پر داستانیں سنادی ،
گران سب کو تحریر کرنا شروع کردیا جائے تو ایک زخیم کتاب کی صورت اختیار کر
جائیگی یہ تحریر۔
تورغر خیبر پختون خواہ کا پچیس واں ضلع ہے ، 2011ء کو وجود میں آنے والا
ضلع تور غر اس سے قبل ضلع مانسہرہ کے ماتحت ایک نیم قبائی علاقہ اور نام
کالا ڈھاکہ تھا ۔ تورغر کو 2011ء میں اے این پی کے دور حکومت میں ضلع کا
درجہ دیا گیا تھااور جدباء کو اس کا ضلعی ہیڈ کوارٹر نامزد کیا گیا۔ اس وقت
توغر کل آبادی 2 لاکھ 60 ہزار تھی آج تین لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔ ضلع قدرتی
طورپر دو حصوں میں تقسیم ہے رقبے کے لحاظ سے کچھ حصہ دریائے سندھ کے اس پار
یعنی شانگلہ، بونیر اور صوابی کی طرف دوسرا حصہ مانسہرہ کی جانب واقع ہے۔
یہاں پانچ بڑے قبائل حسن زئی‘ مداخیل‘ نصرت خیل‘ اکازئی اور بسی خیل و
دیگرچھوٹے قبائل سادات ،اخون خیل اور کمار لوہار وغیرہ وغیرہ آباد ہیں جن
میں سب سے بڑا قبیلہ بسی خیل کا ہے۔ ضلع تین تحصیل جدبا، کنڈر و حسن زئی
اور میرہ مداخیل پر مشتمل ہے اگرچہ نام سے تو یہیں لگتا ہے کہ یہاں کالے
پہاڑ ہوں گے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ پہاڑوں کا بیشتر حصہ سرسبز
ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ تورغر کی جگہ شین یا سبزغر نام دیتے لیکن حکمرانوں
نے کالا ڈھاکہ کا لفظی ترجمہ کرکے اس خوبصورت اور سرسبزوشاداب علاقے کو
تورغر کا نام دیکر ناانصافی کی ہے۔
تور غر کوضلع کا درجہ ملے نو سال ہوگئے مگر آج بھی تور غر کے باسی بنیادی
سہولیات سے یکسر محروم ہے ،پینے کا صاف پانی ہے نہ معیاری سکول‘ سڑکیں
کنڈرات کی نظیر ہے ‘صحت کی سہولیات نہ ہونے کے باعث لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر
مرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ تعلیم کے بغیر ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں
ہوسکتا،اسی طرح صحت مند قوم کے بغیر بھی خوشحال معاشرے کا تصور ناممکن ،
حکمران لوگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے بلند وبانگ دعوے توکرتے ہیں
لیکن عملاً صورتحال کچھ اور ہے،تور غر کے سرکاری ہسپتال تو بھوت بنگلوں کا
منظر پیش کرتے ہیں اور مریض مجبوراً پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینک کا رخ
کرتے ہیں جہاں مسیحا کی شکل میں درندے ان کی کھال اتارتے ہیں۔ یہ باتیں
بتاتے ہوئے مفتی عزیز اﷲ کی آنکھیں نم ہوئی مزید بتایا کہ تور غر کو ضلع
بناتے وقت یہ معاہدہ حکومت پاکستان کے ساتھ تے ہوا تھا کہ وہ تین سالوں میں
ضلع کو تمام بنیادی سہولیات دیدینگے ، اسی طرح کا ایک وعدہ ایوب خان کے دور
میں بھی ہوا تھا جب تربیلا ڈیم بنایا جارہا تھا ، آج بھی تربیلا ڈیم کے
وعدے کی طرح وعدہ کر کے تور غر کے باسیوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑکیا گیا
ہے ۔
ضلع تور غر میں صحت عامہ کے بارے میں مفتی صاحب نے کہا کہ ابھی تک یہاں
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہے نہ ہی تینوں تحصیلوں میں کسی بی ایچ یو کو
تحصیل ہسپتال کا درجہ دیا گیا ہے۔ ضلع بھر میں 9 بی ایچ یوز کام کر رہے ہیں‘
ڈاکٹروں سمیت کل 310افراد کا عملہ تعینات ہے‘ ایمرجنسی کی صورت میں
ایمولینس کی کوئی سہولت نہیں ہے اس دور دراز پہاڑی علاقوں کے لیے کم ازکم
دس ایمبولینسز کی اشد ضرورت ہے، کسی بھی مرکز میں لیبارٹری، ایکسریز اور
الٹرساونڈ کی سہولت نہیں‘ لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے خواتین مریضوں کو
انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور حاملہ خواتین کو بٹگرام یا ایبٹ
آباد لے جانے میں بہت سے مسائل درپیش ہوتے ہیں کیونکہ علاقے کے غریب لوگ
وہاں تک جانے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اس لیے یہاں گائنی ا سپیشلسٹ
کی تعیناتی بے حد ضروری ہے۔ پورے ضلع میں کوئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر نہیں ہے اور
نہ ہی مریضوں کے داخلے کا بھی کوئی انتظام ہے۔ حادثے یا دیگر ایمرجنسی کی
صورت میں صرف فرسٹ ایڈ فراہمکر کے مریض کو آگے روانہ کیا جاتا ہے ۔
یہ باتیں سنے کے بعد راقم نے مفتی صاحب سے سوال کیا کہ آپ لوگ اس کے باوجود
خاموش کیوں ہے ؟ جس کا جواب مفتی عزیز اﷲ صاحب نے یوں دیا کہ ہم خاموش نہیں
اور نہ ہی خاموش ہونگے اپنے جائز حق کے لیے ہر پلیٹ فارم پر جائینگے ۔ اسی
سلسلے کے لیے ہم کراچی آئے ہوئے ہے ، یہاں تور غر کے باسیوں کی ایک بڑی
تعداد آباد ہے انہیں سے ملاقات اور ایک گرینڈ قومی جرگہ منعقد کرنے کا
ارادہ ہے جو آئندہ اتوار یعنی 9فروری کو پٹیل پاڑہ میں منعقد ہونے جارہاہے
، اس جرگے میں تور غر کے تمام چھوٹے پڑے اقوام شریک ہونگے ۔ مقصد جرگہ یہ
ہے کہ نو سال ہوگئے آج تک ہمیں ہمارے جائزحقوق نہیں دیئے گئے ، اس کے لیے
کوئی ٹھوس راس اقدام کیئے جائے تاکہ ہماری عوام بھی ملک کے دیگر اضلاع کی
طرح بنیادی سہولیات سے محروم نہ رہے ۔ مفتی صاحب نے کہا کہ ضلع تور غر کی
محرومیاں ختم ہونے کا وقت آپہنچا ہے وہ دن دور نہیں جب حکومت تور غر کے
باسیوں جائز مطالبات تسلیم بھی کریگی اور حل بھی ،ان شااﷲ ۔۔۔
اﷲ تعالیٰ ہم تمام پاکستانیوں کے حال پر رحم فرمائے (آمین)
|