از قلم : منہال زاہد سخی
آپ کو پتا ہے سوچنے سے پہلے نیت اور ذہن صاف رہتا ہے ۔ اور چاہے آپ اچھا
سوچیں لیکن ساتھ میں آپ کے ذہن میں منفی سوچ ضرور جنم لے گی ۔ اور منفی سوچ
آپ کو اچھی سوچ سے زیادہ عمل کے قابل لگے گی ۔
اک دفعہ میں گراؤنڈ میں کرسی پہ بیٹھے منظر سے لطف اندوز ہورہا تھا ۔ دو
پٹھان بچوں کے بیچ ایک کھیل کھیلا جارہا تھا ۔ جسے پنجابی زبان میں چک ڈنڈا
اور پتاسا بھی کہتے ہیں ۔
کھیل اس طرح ہے کہ دو اینٹوں کو اتنے فاصلے پر رکھا جاتا ہے کے ان میں کوئی
ڈنڈا آسانی سے گزر جائے ۔ اینٹوں پر گیند کو رکھا جاتا ہے ۔ ڈنڈے کو اینٹوں
کے بیچ سے اٹھا کے گیند کو بلند کر کے ڈنڈے سے گیند کو ہٹ شارٹ مارنی ہوتی
اور اسے مقررہ حدود کے پار پھیکنے ہوتا ہے ۔ اور اگر گیند حدود سے پار نہ
ہوئی تو جہاں جا کے رکی وہاں سے مخالف کھلاڑی گیند اٹھا کے اینٹوں پہ مارے
گا اگر لگ گئی تو کھلاڑی آؤٹ ۔ نہ لگنے کی صورت میں ایک رن کا اضافہ ہو
جائے گا۔
دو پٹھان بچے یہ کھیل رہے تھے میں بڑے لگاؤ سے انہیں دیکھ رہا تھا ۔ جو ایک
فطرتی بات گزرے ہوئے بچپن کو دیکھنا ہے تو بچوں کو دیکھ لو ۔ ایک پٹھان بچے
نے شارٹ ماری تو دوسرے نے اسے حد پار ہونے سے پہلے روک لیا ۔ اصولاً اس نے
اس جگہ سے گیند ماری اینٹوں کو ۔ اینٹوں کو گیند چھو کر گزر گئی ۔ مگر
مارنے والے کو پتا نہیں لگا اور وہ واپس اپنی جگہ پر جانے لگا ۔ لیکن دوسرا
کہتا لگ گیا ہے اور باری اسے دے دیتا ہے ۔
اس واقعہ نے مجھے سوچنے پہ مجبور کر دیا ۔ اگر میں اسکی جگہ ہوتا تو کبھی
بھی اسے باری نہ دیتا ۔ پھر ایک اور خیال آیا یہ بڑے ہو جائیں گے تو یہ بھی
ایسا ہی کریں گے جیسا ہم کرتے ہیں ۔
مجھے پھر سمجھ آگئی کہ چھوٹا بچہ فوت ہوجائے تو جنت میں کیوں جائے گا ۔ اس
لئے کہ وہ سوچتا نہیں نہ اپنے فائدے کا نہ کسی کے نقصان کا ۔ اس کی نیت پر
خلوص ہوتی ہے ۔ اس کے دل میں کھوٹ نہیں ہوتا ۔ اگر وہ چھوٹی عمر میں فوت ہو
جائے تو جنت میں اس لئے جاتا ہے کہ وہ تو بالکل پاک ہوتا ہے ۔ اس کے تو
پیشاب پر چھینٹے مارنے سے پاک ہو جاتا ہے۔
چھوٹا بچہ کچھ سوچتا نہیں ۔ نہ ۔ اسے کوئی مفاد ہوتا ہے اور نہ کسی سے کوئی
مطلب ۔ پر جیسے جیسے عمر میں اضافہ ہوتا ہے وہ دنیا کی رنگینیوں سے آنکھیں
ملاتا ہے اور آہستہ آہستہ ان ہی ہو کے رہ جاتا ہے ۔ سوچتا تو وہ اچھا ہے
مگر اس کے ساتھ اک منفی سوچ بھی ابھرتی ہے ۔ جسے وہ پرکشش اور مزہ سے بھر
پور جان کر اسے لائحہ عمل میں لاتا ہے ۔ اور اس کا دل آہستہ آہستہ سفید سے
کالا ہو جاتا ہے ۔
جوانی میں بھر پور منفی سوچوں اور غلط رستوں پر چل کر جب وہ بڑھاپے کو
پہنچتا ہے ۔ تواسے اپنا بچپن بہت یاد آتا ہے ۔ اور وہ جان جاتا ہے کہ وہ
جوانی میں کیا گل کھلا کر بڑھاپے میں پہنچا ہے ۔ بڑھاپے کو بچپن کا دور
ثانی کہا جاتا ہے۔ بس فرق اتنا کہ بچپن میں گناہ نہیں ہوتا ۔ اور بڑھاپے
میں جوانی میں کئے گئے گناہوں کی معافی طلب ہوتی ۔
بچپن کا دور تھا اک سہانہ زمانہ
کاش کہ لوٹ جائے وہ پرانا زمانہ
|