انسان کی طرف سے سب سے بد تر گناہ تکبر ہے
، اس گناہ کی شناعت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب یہ براہ راست یا بالواسطہ
اللہ کے مقابلے میں ہو۔ اللہ انسان کے ہر گناہ کو معاف کرسکتا ہے اور کرتا
بھی ہے ،مگر تکبر کو وہ کبھی بھی معاف نہیں کرتا۔ قرآن میں ہے کہ اللہ ہر
گناہ معاف کردے گا سوائے شرک کے ۔اگر غور کیا جائے تو شرک میں انسان یہی
کرتا ہے کہ وہ اللہ کی بڑائی کے مقابلے میں کسی اور کی بڑائی کا اقرار کرتا
ہے، اور یہ کبر ہے گرچہ اس کا تعلق براہ راست اس کی اپنی ذات سے نہیں، یعنی
اس نے کبر کی نسبت اپنی طرف نہیں کی،اس کا تعلق غیر کی ذات سے ہے کہ شرک
کرنے والے نے اللہ کے مقابلے میں اس کو بڑا بتایا جس کو وہ الوہیت میں شریک
کر رہا ہے۔اور اس طرح اس نے کبر کی صفت جو صرف اللہ کے لئےخاص ہے کسی دوسری
جاندار یا غیر جاندار مخلوق سے وابسطہ کردی۔اسی لیے غیراللہ کو سجدہ حرام
ہے یہاں تک کہ انبیا علیہم السلام کو بھی سجدہ حرام ہے، اس کی وجہ بھی یہی
ہے کہ انسان غیراللہ کو سجدہ کرتے وقت اللہ کے علاوہ کسی اور کو اہمیت دیتا
ہے اور اس کی بڑائی کا اعتراف کرتا ہے۔قرآن میں ہے: ‘الا لہ الخلق والامر’
پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے اور اس کائنات کا انتظام بھی وہی چلا رہا
ہے۔نہ تخلیق میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ ہی کائنات کا نظام چلانے میں
کوئی اس کا شریک ہے۔اور ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:‘لیس کمثلہ شئی’ کہ اس جیسی
کوئی چیز اس پوری کائنات کے کسی گوشہ میں نہیں۔وہ سب سے جدا اور سب سے الگ
ہے،کوئی اس کا ہمسر نہیں اور کوئی اس کے برابر نہیں۔
کبر دو طرح کا ہوتا ہے، ایک کبر یہ ہے کہ کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے
مقابلے میں اپنی بڑائی کا اظہار کرے، جیسا کہ عام طور پر لوگ کیا کرتے ہیں،
اس کی بعض شکلیں اتنی مخفی ہوتی ہیں کہ بعض اوقات ان کا اداراک کرپانا بھی
مشکل ہوتا ہے، مثلاً اگر ہم اپنے آپ سے کم حیثیت والے انسان کے ساتھ اٹھنا
بیٹھنا،بات کرنا اور اس کی دعوت قبول کرنا پسند نہیں کرتے ، محض اس وجہ سے
کہ وہ کسی نہ کسی حیثیت سے ہم سے کمتر ہے تو یہ بھی ایک طرح کا کبر ہے،
چاہے ہم اس کو کوئی بھی نام دیں، اپنی نفاست پسندی کہیں یا کوئی اور نام
دیں۔بہت کم لوگ ہیں جو کبر کی اس قسم سے بچ پاتے ہیں۔کسی کو اپنی دولت کا
نشہ ہوتا ہے اور کسی کو علم کا نشہ اور جب جب یہ نشہ ان کی رگ وپے میں خون
کے ساتھ دوڑتا ہے تو وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور
کیا کر رہے ہیں۔اور دوسرا کبر وہ ہے جو انسان اللہ کے مقابلے میں کرتا ہے،
جیسا کہ ماضی میں فرعون نے کیا تھا۔ ہماری آج کی دنیا میں بھی بہت سارے
فرعون ہیں، جو اللہ کے مقابلے میں کبھی کھل کر اور کبھی ڈھکے چھپے انداز
میں اپنی بڑائی کا اظہار کرتے ہیں۔اور ان میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے
جو یا تو کسی ملک کے سربراہ ہیں،فوجی کمانڈر ہیں،بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک
ہیں یا علم وفن کے میدان میں ان کی شہرت دنیا کی آخری سرحدوں کو چھو رہی
ہوتی ہے۔
ماضی میں جتنے لوگوں نے بھی تکبر کیا اور اللہ کے سامنے اپنی بڑائی کا
اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اسی دنیا میں سخت سزا دی ۔تاکہ بعد میں
آنے والی نسلیں جان لیں کہ اللہ تکبر یعنی بڑائی، خودپسندی کو پسند نہیں
کرتا۔فرعون کی مثال ہم سب کے سامنے ہے۔اور اللہ نے اس کے جسم کو آج تک
باقی رکھا ہوا ہے تاکہ ہم سب لوگ عبرت حاصل کریں۔ اور ہر وقت اللہ سے ڈرتے
رہیں۔ فرعون کا نام تو لوگوں کے ذہن میں اس لئے محفوظ رہ گیا کہ اس کا
تذکرہ خود اللہ نے اپنی کتاب میں کردیا۔ورنہ اللہ جانے ایسے کتنے چھوٹے بڑے
فرعون اب تک گزر چکے ہیں جنہوں نے کبر کیا اور اللہ نے ان کو سخت سزا
دی۔بڑائی اللہ کی شان کو زیب دیتی ہے اور اللہ کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی
بڑائی کا اظہار ہو۔ ہم جو دنیا میں حیرت انگیز مخلوقات اور عجائبات دیکھتے
ہیں وہ اس لئے بھی وجود کا جامہ پہنتی ہیں کہ انسان ان کو دیکھے ان سے
فائدہ اٹھائے اور اللہ کی بڑائی کا اعتراف کرے۔ہم جب اذان دیتے ہیں اور
نماز پڑھتے ہیں تو اللہ کی اسی بڑائی کا اعتراف کرتے ہیں۔اور غیر اللہ کی
بڑائی کا انکار کرتے ہیں۔ |