یکساں تعلیمی نصاب : چند خدشات

گزشتہ دو کالموں میں ہم تعلیمی نصاب کے مفہوم ، حقیقت اور اسلامی تصور سے متعلق سیر حاصل بحث کر چکے ہیں۔ ہمارے سامنے اَب بھی وہی سوال سامنے ہے کہ کیا واقعی یکساں تعلیمی نصاب اس سال مارچ تک نافذالعمل ہوجائے گا۔ یہ سوال میرے گزشتہ کالم میں بھی تھا جس کا جواب میں ’نا‘ میں دے چکا ہوں کیوں اس کا جواب تا حال میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ ایک کام ہوسکتا ہے اور وہ ’انتظار ‘ ہے ، یعنی مارچ تک انتظار کرکے دیکھا جاسکتا ہے اور یوں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کے مصداق اس سوال کا جواب سامنے آجائے گا۔ موجودہ حکومت کی نیت پر ہمیں کوئی شک نہیں ہے اوریہ ہماری خواہش بھی ہے کہ ملک بھر میں یکساں تعلیمی نصاب رائج ہو اور سارے بچے یکساں تعلیمی نصاب پڑھیں۔ ہماری مزید خواہشات بھی ہیں کہ ملک بھر کے تمام بچوں کو یکساں تعلیمی سہولیات میسر آئیں کیوں کہ صرف استاد کو نصاب ہاتھ میں تھما دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ تعلیمی نصاب کی تیاری مقاصد ، مواد ، طریقہ ہائے تدریس اور جائزہ کے مراحل پرمشتمل ہوتی ہے۔ یکساں تعلیمی نصاب کے حوالے سے ان مراحلے کو مد نظر رکھ کر چند گزارشات اور خدشات پیش خدمات ہیں۔ اول ، تعلیمی مقاصد کا تعین نصاب کی تیاری میں اولین جز ہوتا ہے۔ تمام صوبوں کے لئے تیار ہونے والے یکساں تعلیمی نصاب کے لئے ہمارے اسلامی ، دینی ، قومی اور نظریاتی مقاصد ایک ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ تمام طلباء کے اندر اسلامی شعائر پیدا ہوں اور وہ حب الوطنی کے جذبے سے معمور ہوں۔ یہاں تک بات ٹھیک ہے لیکن جب صوبوں کی ضروریات کی بات آئے گی تو ہر صوبے کی ضروریات مختلف ملیں گی۔ اس لئے اُن کے مقاصد بھی جدا ہوں گے۔ خیال رہے کہ تعلیمی مقاصد معاشرے کی ضروریات سے آخذ کیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک صوبے کو زرعی گریجویٹ یا ڈپلومہ ہولڈر کی ضرورت ہے تو ہم اُن کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیمی مقاصد متعین کریں گے۔ اور اگر ہم صوبے کی ضروریات کو پس پشت ڈال کر اپنے مقاصد فنی و پیشہ وارانہ گریجویٹ یا ڈپلومہ ہولڈر کے مطابق ترتیب دے دیں تو تعلیمی نصاب سود مند ثابت نہ ہوگا ۔ اور اگر ہم تعلیمی مقاصد جدا رکھیں تو اسی لحاظ سے ہمیں تعلیمی مواد یکجا اور ترتیب دینا ہوگا۔ یہی وہ اولین خدشہ ہے کہ ایسی صورت حال میں یکساں تعلیمی نصاب کیسے ترتیب اور رائج کیا جائے گا۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم تمام طلباء کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکیں، اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ دوم ، جیسا کہ ہمیں پتہ ہے کہ تعلیمی نصاب کی تیاری میں مواد کا انتخاب اور ترتیب دوسرا مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ تب ہی کامیابی سے پائے تکمیل کو پہنچے گا جب ہمارے مقاصد بالکل واضح ہوں۔ اگر ہم ملک بھر کے لئے تعلیمی مقاصد ایک جیسے متعین کر لیں، پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اگر صوبوں کی ضروریات کے مطابق جدا جدا مقاصد ہوں تو تعلیمی مواد کی یکسانیت ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ وہ پوائنٹ ہوگا جہاں سے یکساں تعلیمی نصاب کی باتیں دَم توڑ جائیں گی۔ سوم ، یہاں ہم فرض کر لیتے ہیں کہ پورے ملک میں تعلیمی مقاصد اور مواد یکساں رائج ہوجاتا ہے ۔ اَب اس کو پڑھانے کا ذمہ دار استاد ہوگا کیوں کہ نصاب اسی کے سپرد کیا جاتا ہے جو کمرہ جماعت ، مدرسے یا لیبارٹری میں اپنے مقاصد کو مد نظر رکھ کر پڑھاتا ہے۔ ہمارے ملک میں اساتذہ کی بھرتی کا عمل یکساں نہیں ہے۔ یہ تب ممکن ہے کہ جب ہم شعبہ تعلیم میں ٹیچر ایجوکیشن کے پروگرام کو صحیح سمت دیں کیوں کہ معیاری تعلیم کا حصول اسی میں مضمر ہے۔ ٹیچر ایجوکیشن ہمیں اچھے اور بہترین استاد فراہم کرتی ہے ۔ اس کی مثال یوں لی جا سکتی کہ یہ ادارے ملٹری تربیتی اداروں کی طرح ہوتے ہیں جو ملک کو تربیت یافتہ جوان مہیا کرتے ہیں اور جن کا کام ملکی سرحدات کی حفاظت کرنا ہوتا ہے جب کہ یہ ادارے ماہر اساتذہ پیدا کرتے ہیں جو ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس شعبے کو پچھلے ستر سالوں میں نظر انداز کیا گیا ہے اور ہم اس آس پہ بیٹھے میں کہ ہمارا تعلیمی نظام بہتر نتائج دے گا، یہ محض ہماری خام خیالی ہے۔ جب آپ کا استاد ہر لحاظ سے مہارت کا حامل نہیں ہوگا تو وہ معماران قوم کی تعلیم و تربیت کیسے کر پائے گا۔ تعلیم میں استاد ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ تعلیمی نفسیات ، تدوین نصاب ، تحقیق ، جائزہ و پیمائش ، انتظام و انصرام ، تدریسی حکمت عملیاں اور منصوبہ بندی وغیرہ تک کا آخری سرا استاد پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ ایسے استاد کے لئے صرف جنرل ایجوکیشن ہی کافی نہیں ہے بلکہ ٹیچر ایجوکیشن بھی نہایت ضروری ہے۔چہارم ، تعلیمی نصاب کا آخری مرحلہ جائزے کا ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے امتحانی نظام پر یقین نہیں ہے ،ہم اپنے طلباء کو ایٹا ، این ٹی ایس ،ایف ٹی ایس وغیرہ جیسے لیبارٹریوں میں ٹیسٹ کر نے کے بعد انہیں مختلف شعبوں یا تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں۔ پس اگر ہم یکساں تعلیمی نصاب رائج کرنے کے لئے کمر بستہ ہیں تو سب سے پہلے ہمیں ان تمام خدشات کا سد باب کرنا ہوگا۔
 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 205 Articles with 265441 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.