میڈیا ایسا پلیٹ فارم ہے جس کی طاقت ایک مسلمہ حقیقت
ہے۔سوسائٹی میں سنوار یا بگاڑ پیدا کرنے میں اس کا اہم کردار ہوتا ہے۔میڈیا
اگر درست جہت کام کرے تو مثبت معاشرہ تشکیل پاتا ہے اوراس کا منفی رجحان
نسلوںکو پستی کی جانب بہاکر لے جاتا ہے ۔
ہر ریاست اپنے میڈیا اورابلاغ کی حدود متعین کرتی ہے۔وطن عزیز میں بھی اسی
مقصد کے لیے’’ پیمرا‘‘ کا مضبوط ادارہ موجود ہے مگر افسوس! دیگراداروں کی
طرح اس کی گرفت بھی شدید کمزوردکھائی دیتی ہے۔
اس وقت ٹی وی چینلز پر پیش کیے جانے والے ڈرامے ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔
کیونکہ ان کے ذریعے ہماری دینی ،ملی اوراخلاقی قدریں کھورہی ہیںبلکہ ہماری
نسلوں کو تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔یقیناپاکیزہ معاشرہ اچھے ابلاغ سے ہی
فروغ پاتا ہے مگر یہاں کسی خاص ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ایک ہی پیغام کو
بیک وقت کئی ڈراموں کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہوتی ہے۔ صرف
ڈراموں کے نام اور کردار بدلتے ہیں لیکن موضوع اور اس میں موجود پیغام وہی
مخصوص ہوتے ہیں۔اس حوالے سے درد دل کے ساتھ سوچنے اورکچھ کرنے کی ضرورت
ہے،کیا کبھی کسی نے غور کیاکہ کچھ مخصوص اورحساس موضوعات پر ہی کیوں ڈرامے
بنائے جارہے ہیں؟ ان موضوعات پر ڈرامے کیوں نہیں بنائے جاتے جو ہمارے
معاشرتی ، خاندانی ،ملی اوراخلاقی مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل پیش کریں
۔
گزشتہ دنوں ایک ڈرامے کی بہت زیادہ شہرت دی گئی۔ اس کے کلپ سوشل میڈیا پر
وائرل کرکے تشہیر کی جاتی رہی ۔اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک شادی شدہ عورت
اپنے شوہر کو چھوڑ کرآشنا کے ساتھ بغیر نکاح کے رہ رہی ہے،ان کابچہ ماں باپ
کے درمیان ہوئی طلاق سے لاتعلق اپنی استانی سے اپنے باپ کے تعلقات
استوارکروا رہا ہے۔ محبت کے نام پر بے حیائی،بے وفائی، طلاق اورناجائز
تعلقات ڈرامے کا مرکزی خیال نظر آتے ہیں۔ وطن عزیز کی اسلامی روح اور
پاکستانی تہذیب و ثقافت کو مجروح کرتے ہوئے اس ڈرامے میں ہندو بھگوان اور
مورتیوں کو بھی متعارف کروایا گیا ہے۔اس اخلاق باختہ اورگندے ڈرامے کی آخری
قسطیں سینما گھروں میں دکھانے کا اعلان کیا گیا تو کروڑوں روپے کے ٹکٹ
فروخت ہوئے۔
اسی طرح کچھ ڈرامے ایسے بھی پیش کئے جارہے ہیں جن کا مرکزی خیال جادو
ٹونا،توہم پرستی ،اللہ سے تعلق کو توڑ کر لوگوں میں جادو کے عمل کے ذریعے
اپنا ہر کام کرنے کی ترغیب، لڑکیوں کا گھر سے بھاگ کر شادی کرناہے۔
سوشل میڈیا پر ایسے ہی ڈرامے کا ایک کلپ نظر سے گزرا جس میں ایک لڑکی کو جب
طلاق ہوتی ہے تو وہ بجائے پریشان ہونے کے سب کے سامنے خوشی اورفخر کا اظہار
کرتی ہے ، اس سے قوم کی بیٹیوں کوپیغام دیا جارہا ہے کہ گھر ٹوٹنا ،خاوند
سے جھگڑ کر طلاق لینا، اپنی مرضی سے دوسرے مردوں سے تعلق رکھنا کوئی عیب
نہیں۔گویا بیک وقت اسلام ، اخلاق اورمشرقی روایات کا مذاق اڑایا جا رہا
ہے۔حالانکہ میاں بیوی کا رشتہ دنیا میں بننے والا وہ پہلا رشتہ ہے جو کہ
معاشرے اور خاندان کی بنیاد ہوتا ہے۔جتنا یہ رشتہ مضبوط ہوگا اتنا ہی
خاندانی نظام اور آنے والی نسلوں کا اخلاقی اورمعاشرتی تحفظ ہوگا۔قرآن
مجید میں بھی اللہ تعالی نے خاندانی نظام کو مستحکم اور قائم رکھنے کی
تلقین کی ہے جبکہ ہمارا میڈیا چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہی عورت کو گھر توڑتا
ہوا دکھا رہا ہے۔ اسلام نے عورت کو جومقام دیاہے اس میں عورت کے حقوق کے
ساتھ ساتھ اس کے کردار میں محبت، الفت، قربانی اور وفا شامل ہے۔عورت امیر
ہو یا غریب، پڑھی لکھی ہو یا ان پڑھ ،اپنی گھریلو زندگی میں خوش ہو یانہ ہو
، وہ اپنے بچوں اور گھر کو بچانے کے لیے ہزاروں قربانیاں دیتی ہے لیکن بچوں
کی جدائی اورگھر توڑنا گوارا نہیں کرتی۔
صد افسوس! ہمارے میڈیا نے عورت کو خود غرض، لالچی، بے رحم اور بدکردار
دکھانا شروع کر دیا حالانکہ عورت اپنی فطرت کے اعتبار سے کبھی ایسی تھی اور
نہ ہے مگر ڈراموں کے ذریعے اس کی بھر پور ذہن سازی کر کے رشتوں کے تقدس اور
احترام کو پامال کر وایا جارہا ہے۔ میڈیا اگرچاہے تو اصلاحی ڈرامے پیش کرکے
نسلوں کی فکر ی تعمیر اور معاشرے کو سدھارنے میں اہم کردار اداکر سکتا
ہے۔شاید اس میڈیا کواستعمال ہی اس کام کے لیے کیا جاتا ہے کہ ہمارے گھروں
تک ایسی آوارگی اور بے حیائی پہنچائے جو ہماری دنیا و آخرت کو جہنم بنا
دے۔
بچوں کے ذہنوں کو یہ اتنا متاثر کرتے ہیں کہ وہ ان کرداروں اورڈائیلاگز کو
اپنے کلاس فیلوزمیں شیئر کرتے ہیں اوران کو کاپی کرنے کی کوشش کرتے
ہیں۔خدارا! اپنے گھرانوں کو اس آگ سے بچالیں، بچوں کو ایسی مثبت مصروفیات
دیں جن کی بدولت وہ اس آگ سے بچ جائیں اوراپنے اخلاق و کردار کو سنوار
لیں۔ایسے ڈراموں کو قبول کرنا اوران کے نقصانات پر خاموش رہنا یہ ہمارے
ایمان کا امتحان ہے۔فرمان نبوی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق برائی کو
دیکھ کراسے بزور بازویابزور زبان و قلم روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اگر یہ
بھی ممکن نہ ہوتو دل میں برا جانتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں دعا
ضرور کرنی چاہیے اور یہ ایمان کا کمزور ترین مرحلہ ہے۔
ضروری ہے کہ اس بارے میںایمانی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے متحد ہوکر آواز
اٹھائی جائے۔ پیمرا اور دوسرے متعلقہ اداروں کے سامنے احتجاج ریکارڈ کروایا
جائے۔ یہ کام خود بھی کریں اور دوسروں سے بھی کروائیں۔ پیمرا کی ویب سائٹ
کا لنک دیا جارہا ہے۔براہ کرم ایسے ڈراموں کے خلاف شکایت کیجئے کہ یہ ہمارے
مذہب،دین ، تہذیب اور معاشرتی اقدارو روایات کے برعکس ہیں۔ |