حضرت مولانا پیر اسد اللہ فاروق صاحب
تحریر
بابرالیاس
چیف ایڈیٹر
قلمدان ڈاٹ نیٹ ویب
یہ دنیا خیر ؤ شر کی بے مثل, اور لا تعداد مثالوں سے بھری ہوئی ہے, اس میں
کوئی شک نہیں کہ کائنات میں خیر کی جو مثالیں موجود ہیں انکی تعداد ؤ اہمیت
زیادہ ہے, لیکن دوسری طرف شر کی مثالیں بھی محفوظ ہیں جنکا مقصد لوگوں کی
عبرت ہے تاکہ لوگ بھلائی کا راستہ اختیار کریں,
انسان اگر ذاتی صفات کی بنیاد پر زندہ ؤ سلامت ہے تو اسکی محض وجہ اسکے
اعمال خیر ہیں,
خیر ایک چراغ ہے, جو جہالت, گم راہی, خود غرضی, ظلم ؤ ستم , لالچ ؤ ہوس
پرستی, انا ؤ مفاد پرستی کے اندھیروں میں ہدایت ؤ سلامتی, سکھ, چین, پیار ؤ
محبت اور الفت کی روشنی پھیلانے کی ضمانت ہے.
انسانیت کی بھلائی ؤ نیکی کے ایسے ہی چراغ تھے حضرت مولانا پیر سیف اللہ
خالد صاحب رحمتہ اللہ.
دنیا فانی ہے, زندگی عارضی ہے, سفر آخرت پر ہر انسان کو جانا ہے, کامیاب وہ
شخص ہے جو اپنے خیر ؤ بھلائی کے کام کو جاری رکھنے کے لئے اپنی اولاد کی
ایسی تربیت کر جاۓ کہ وہ اپنے والد کے ناصرف مشن خیر کو جاری رکھے بلکہ
ساتھ ساتھ تمام تعلق والدین کو مضبوطی سے تھام کر بھی چلیں اور والدین کی
طرف سے جاری خیر کے مشن کی بہتری کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رکھے,
یہ پیر سیف اللہ خالد صاحب کی پرورش کا ہی نتیجہ تھا کہ حضرت مولانا پیر
اسد اللہ فاروق صاحب نے اپنے عظیم باپ کی وفات کے بعد ناصرف اپنے اہل ؤ
عیال کو سنبھالا دیا بلکہ انکی قائم کردہ عظیم اسلامی درس گاہ جامعہ منظور
الاسلامیہ لاہور کی بھاگ دوڑ بھی سنبھالی,
گزشتہ دنوں حضرت مولانا تبسم تحسین صاحب کی رفاقت میں میں اور حضرت مولانا
قاری حفیظ اللہ صاحب مولانا تبسم صاحب کے وقت لینے پر حضرت مولانا پیر اسد
اللہ فاروق صاحب سے ملنا نصیب ہوا, ریل کے سفر سے رات دس بجے جامعہ منظور
الاسلامیہ لاہور پہنچیں,
میرے لیے یہ نیا تجربہ تھا کہ, جامعہ منظور الاسلامیہ کا نگران اعلی , پیر
سیف اللہ خالد صاحب رحمتہ اللہ کا بیٹا, خرابی صحت کے باوجود جامعہ منظور
الاسلامیہ کے استاد محترم حضرت مولانا اسید الرحمن صاحب کے کمرے میں صرف
ہمارے انتظار میں ہے,
ملاقات ہوئی, حال احوال کے بعد پیر اسد اللہ فاروق صاحب نے خاموشی سے اپنے
خادم خاص سے کھانے میں مچھلی کا انتظام کرنے کا کہا, خیر کھانا آیا, حضرت
نے ہمارے ساتھ کھانا کھایا, اور آرام کا فرما کر صبع گفتگو کا فرمایا,
رات جامعہ منظور الاسلامیہ میں حضرت پیر اسد اللہ فاروق صاحب کے لگواۓ گۓ
بسترے کیا اور میں سوچ رہا تھا کہ صبع حضرت کا رویہ ؤ وقت کیا ہوتا ہے,
خیر صبع ہوئی وقت نماز حضرت پیر اسد اللہ فاروق صاحب کی آواز کان پڑی کہ
السلام عیلکم و رحمتہ اللہ برکاتہ, مرحبا مولانا تبسم صاحب,
پیر صاحب نماز سے فارغ ہوۓ اور ہمیں اپنے ساتھ اپنے دفتر میں لے گۓ, وہاں
گفتگو کا آغاز ہوا,نہ جانے کب میں ان سے انکی محبت ؤ شفقت کی وجہ سے اتنا
فری ہو گیا کہ پیر سیف اللہ خالد صاحب رحمتہ اللہ کے فرزند جناب حضرت
مولانا پیر اسد اللہ فاروق صاحب نے مجھے اپنے پاس بیھٹایا,
(اس دوران ناشتہ بھی حضرت نے ہمارے ساتھ کیا)
میں نے بڑے سخت قسم کے سوال کیے, اعتراض کیا, تنقید کی, اختلاف کیا, اپنی
راۓ کو مقدم جانا, تعلیمی ؤ تدریسی نظام کے حوالے سے تبدیلی کا نعرہ لگایا,
دینی ؤ مذہبی آزادی کے استعمال ؤ سوچ ؤ فکر پر اپنی راۓ دی,
لیکن مجال ہے کہ پیر حضرت مولانا اسد اللہ فاروق صاحب کے ماتھے پر نہ شکن
تھا, نہ پیر صاحب کی آواز میں سختی تھی , نہ جواب میں غصہ ہو,
(اس دوران حضرت مولانا تبسم تحسین صاحب, حضرت مولانا قاری حفیظ اللہ صاحب
خاموشی سے مجھے اشارہ کرتے کہ گستاخی ؤ بے ادبی والے الفاظ استعمال نہ کرو,
تنقید براۓ تنقید نہ کرو)
بلکہ ایک مکمل علمی ؤ عملی زندگی کا نمونہ محسوس ہوۓ, میرے ہر طرح کے علمی
ؤ غیر علمی سوال کے جواب میں انکی طرف سے محبت, اعتماد, حسن اخلاق, اور نرم
لہجے سے بھرے الفاظ میرے دل و دماغ میں کھلبلی مچا دیتے تھے اور بے ساختہ
میرے دل سے پیر اسد اللہ فاروق صاحب کی پرورش ؤ تربیت کرنے والے ,خاک زمین
سونے والے پیر سیف اللہ خالد صاحب رحمتہ اللہ کے لیے دعا نکلتی کہ اللہ
کریم انکی قبر کو روشن فرماۓ جو اپنی بہترین دینی و سیاسی, فکری تعمیری
منازل کی کمان کے لیے بیٹے کی پرورش فرما گۓ,
پیر اسد اللہ فاروق صاحب سے ملاقات میری زندگی کا ایک باب ہے,بے علماۓ حق
پہچان ہیں یکجہتی کی , پیر حضرت مولانا اسد اللہ فاروق صاحب اپنے اکابر
دیوبند کی پگڑی بلند کرتے جا رہے ہیں, اپنے والد محترم حضرت پیر سیف اللہ
خالد صاحب رحمتہ اللہ کا عکس ہیں, اور دن رات خرابی صحت کے باوجود جامعہ
منظور الاسلامیہ لاہور کے معاملات والد ماجد حضرت مولانا پیر سیف اللہ خالد
صاحب رحمتہ اللہ کی سوچ ؤ فکر اور طریقہ کے مطابق سرانجام دے رہے ہیں, اللہ
کریم سلامت فرماۓ اور صحت عطا فرماۓ تاکہ اپنے والدین کی دینی ؤ مذہبی سوچ
ؤ فکر کہ سرور کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات
ہدایت عام کرنی ہیں بس اور زندگی کا فلسفہ نہیں ہے, پیر حضرت مولانا اسد
اللہ فاروق صاحب کی رخصت کرتے ہوئے یہ بات دل میں گھر کر گئ کہ بابرالیاس
صاحب اس جامعہ منظور الاسلامیہ لاہور کے لیے میرے والد محترم پیر سیف اللہ
خالد صاحب رحمتہ اللہ نے غیر تو غیر اپنوں کی تکلیفیں برداشت کی ہیں لیکن
استقامت اختیار کی رکھی اور ان شاءاللہ اللہ کریم سے دعا ہے کہ مجھے بھی
جامعہ منظور الاسلامیہ لاہور کی ترقی ؤ بہتری کے لیے قبول فرماۓ اور
استقامت عطا فرماۓ,
|