بے لوث مخلوق خدا کی خدمت کرنے والوں میں سے ایک نام آپ
نے عبدالستار ایدھی صاحب کا بھی سنا ہوگا، جب ان کی وفات ہوئی تو میں یہ
سوچنے لگا کہ اب لاوارث اور غریب لوگوں کا کیا بنے گا،اس میں یقیناً میں سو
فیصد غلط تھا؛ کیونکہ میرا اتنا زیادہ تجربہ اور مشاہدہ ابھی نہیں تھا، مجھ
جیسے کم علم کو بعد میں پتا چلا کہ ہر دور میں اور ہر میدان میں اللہ
تعالیٰ نے اپنے کچھ خاص بندے ایسے پیدا کیے ہیں، جن کا مقصد اور ہدف ہی یہی
ہوتا ہے کہ "کسی نا کسی طرح اس فانی دنیا میں مخلوق خدا کی خدمت کر جاؤں"
میری مراد آج کل کی مختلف ادبی تنظیمیں ہیں، جنہوں نے اس مادیت کے دور میں
بھی ادب کے ارتقا اور ترقی کے لئے بغیر کسی لالچ و حرص کے اپنے آپ کو کوشاں
کر رکھا ہے،جن کا مقصد ملک پاکستان کے باذوق احباب کو ایک پلیٹ فورم پر جمع
کر کے اردوادب کے میدان میں اجتماعی جدوجہد کیلئے تیار کرنا، اور نئے
لکھاریوں کی تلاش جواپنی بات قلم وکتاب کے ذریعے اپنے پیاروں تک پہنچانے کی
خواہش رکھتے ہیں، ان کا بنیادی مقصد معیاری ادب اور اختراعی صلاحیتوں کو
فروغ دینا ہے، اور ہر پڑھے لکھے نوجوان کے ہاتھ میں قلم تھمایا جا سکے
اوراسی جدوجہد کو قائم رکھا جاسکے..!
ادبی تنظیموں کی یہ کاوش بہت ہی عمدہ اور قابل ستائش ہے، جس پر ان کے تمام
سربراہان کو سلام پیش کرنا چاہیے، لیکن معذرت کے ساتھ کچھ افراد ان تنظیموں
میں بقول ندیم نظر صاحب کے" ایسے بھی ہیں جو اپنا اپنا منجن بھیج رہے ہیں
اور دبی آواز میں ان کا یہ عمل کہہ رہا ہوتا ہے کہ ادب برائے فروخت قیمت
فقط....!!!؟؟؟
چنانچہ ہمارے اساتذہ کرام نے ہماری تربیت کا یہ بھی حصہ بنایا تھا کہ اگر
کسی میں ننانوے خامیاں ہیں اور ایک خوبی ہے تو اس کو دیکھ کر اس سے محبت
کرو،اس وجہ سے یہ سب ہمارے ہیں۔
لیکن ہمارے پاکستان میں میری نظر میں دو ادبی فورم ( اسلامک رائٹرز موومنٹ
پاکستان اور پاسبان بزم قلم ) ایسے ہیں جن کے سربراہان ماشاءاللہ بہت ہی
اخلاص اور سچی لگن سے کام کر رہے ہیں، میری بھی آپ سب نئے لکھنے والوں کو
دعوت عام ہے کہ ان میں سے کسی ایک سائبان کا سایہ ضرور حاصل کریں...!
دراصل آج کی اپنی اس چھوٹی سی تحریر میں اپنے کچھ خاص لکھاری دوستوں کا
تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جن سے 9 فروری بروز اتوار ایکسپو سنٹر جوہر ٹاؤن
لاہور میں ملاقاتیں ہوئیں۔
جن میں قابل ذکر اساتذہ کرام میں سے محترم ندیم نظر صاحب، شعیب مرزا صاحب،
نذیر انبالوی صاحب اور محترمہ عمارہ وحید صاحب ہیں اور دوستوں میں سے
چئیرمین مدثر کلیم سبحانی صاحب ،ہمارے میزبان حافظ عثمان صاحب،دور سے تشریف
لانے عمیر حنفی صاحب، احمد ضیاء صاحب، محمد سجاد صاحب، عبداللہ صاحب، ہمارے
بزرگ دوست حفیظ چوہدری صاحب، مولانا اسامہ قاسم صاحب، نعیم اختر ربانی
صاحب، حسنین معاویہ صاحب، ظاہرا ننھے تاجر بلال حجازی صاحب اور دیگر رفقاء
کرام جن کے مجھے نام معلوم نہیں وغیرہ سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔
یہ سب ایسے ادیب دوست ہیں، اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ لفظ
"دوست" زبان پرآتے ہی ذہن میں ایک باوفا، بے لوث اور پُرخلوص انسان کاخاکہ
سا ابھرتاہے،اصل دوست تووہی ہوتاہے جومشکل میں کام آئے اورہمیشہ اچھائی کی
تلقین کرے۔بعض لوگ دوستی کے لبادے میں دشمنوں سے بھی بدترکرداراداکرتے ہیں
اوراپنے دوست کوراہ راست سے بھٹکاکراللہ تعالیٰ کاباغی بنادیتے ہیں ، یوں
برے دوستوں کی صحبت کی وجہ سے انسان جنت کاراستہ کھودیتاہے ۔
صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالع ترا طالع کند
قیامت کے روز بُرے دوستوں کاڈساہواانسان کف افسوس ملتے ہوئے کہے گاکہ: اے
کاش میں نے فلاں کواپنادوست نہ بنایاہوتا، لیکن اس وقت یہ افسوس وپشیمانی
اورندامت کے آنسوکسی کام نہ آئیں گے۔اسی لیے توآپ ﷺ نے ایک مسلمان
کوخبردارکرتے ہوئے فرمایاکہ :دوست بنانے والااپنے دوست کے دین پرہوتاہے ،
اس لیے تم دوست بناتے ہوئے جانچ لوکہ تم کسے دوست بنارہے ہو۔
مسلمان برے دوستوں سے بچتے ہوئے اللہ کے نیک اورصالح بندوں سے محبت
اوردوستی کرتاہے۔وہ سب لوگ جواللہ اوراس کے رسول ﷺ کے باغی اورفاسق ہیں،وہ
ان سے بغض رکھتاہے۔ گویااللہ اوراس کے رسول ﷺ کی محبت اس کی محبت ہے
اوراللہ ورسول ﷺ کی دشمنی اس کی دشمنی ہے۔رسول اللہ ﷺ کاارشادعالی ہے
:جوشخص اللہ کے لیے محبت وبغض رکھے اوراللہ ہی کے لیے کوئی چیزدے اورروکے،
تواس نے اپناایمان مکمل کرلیا۔(سنن ابی داؤد)
اچھے لوگوں سے میل جول رکھنااوردوستی کاہاتھ بڑھاناایک پکے مومن کی شان ہے
،جیساکہ حضورﷺ نے فرمایا:مومن دوستی لگاتاہے اوراس سے دوستی کی جاتی
ہے(اور)اس شخص میں کوئی خیرنہیں ہے جونہ توکسی سے مانوس ہوتاہے اورنہ ہی اس
سے کوئی مانوس ہوتاہے۔(مسنداحمد)
اچھے دوست بنانے والوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے عظیم خوشخبری سنائی ہے
کہ:عرش کے اردگردنورکے منبرہیں ، ان پرنورانی لباس اورنورانی چہروں والے
لوگ ہوں گے، وہ انبیاء وشہداء تونہیں مگرانبیاء وشہداء ان پررشک کریں
گے۔صحابہ کرام ؓ نے عرض کی ’’اے اللہ کے رسول ﷺ ! ہمیں بھی ان کی صفات بیان
کیجئے ‘‘۔آپ ﷺ نے فرمایا:یہ لوگ اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے
، ایک دوسرے کے پاس بیٹھنے والے اوراللہ ہی کے لیے ایک دوسرے کی ملاقات
کوآنے والے ہیں۔(سنن نسائی)
اچھے لوگوں سے دوستی رکھنااللہ تعالیٰ کی محبت کاذریعہ ہے ۔حدیث قدسی میں
ہے ،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:میری محبت ان کے لیے ثابت ہوچکی ہے جومیرے لیے
ایک دوسرے سے ملتے ہیں اورمیری محبت ا ن لوگوں پرثابت ہوچکی ہے جومیری
خاطرایک دوسرے کی مددکرتے ہیں۔
(مستدرک حاکم)
یہی نہیں بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کے عرش کے سائے
کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا، اس وقت اللہ تعالیٰ سات بندوں کواپنے عرش
کاسایہ نصیب کریں گے، جس میں سے وہ دوآدمی بھی ہوں گے جواللہ کے لیے ایک
دوسرے سے محبت رکھتے اوراللہ ہی کے لیے ایک دوسرے سے جداہوتے ہیں۔(صحیح
بخاری)
ایک شخص اپنے ساتھی کی ملاقات کوجارہاتھاتواللہ تعالیٰ نے راستے میں اس کے
لیے ایک فرشتہ مقررکیا۔فرشتے نے اس شخص سے پوچھا:کہاں جارہے ہو؟وہ شخص کہنے
لگا:اپنے فلاں بھائی (دوست)سے ملنے جارہاہوں ۔فرشتے نے کہا:اس کے پاس کسی
کام سے جارہے ہو؟کہا:نہیں۔فرشتہ پھرکہنے لگا:تمہاری اس سے کوئی رشتے داری
ہے؟فرشتے کونفی میں جواب ملاتوپھربولا:اس کاتم پرکوئی احسان ہے جوچکانے
جارہے ہو؟اس شخص نے پھرنفی کی، اس پروہ فرشتہ پھرپوچھنے لگا:توپھرتم اس کے
پاس کیوں جارہے ہو؟وہ شخص کہنے لگا:مجھے اس (دوست)سے اللہ کے لیے محبت ہے
،اس لیے اسے ملنے جارہاہوں۔یہ سن کرفرشتے نے اسے خوشخبری دی کہ : مجھے اللہ
تعالیٰ نے تیرے پاس بھیجاہے کہ تجھے اطلاع دوں کہ اللہ وسبحانہ وتعالیٰ تجھ
سے محبت کرتے ہیں کہ تُونے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اس شخص سے محبت کی ہے
اوراللہ تعالیٰ نے تیرے لیے جنت واجب کردی ہے۔
اللہ تعالیٰ میرے ان ادیب دوستوں کو ہمیشہ سلامت رکھے اور خوش رکھے،جو بے
لوث مخلوق خدا کی خدمت کرنے میں گامزن ہیں۔
پاسبان بزم قلم کے صدر حافظ عثمان صاحب نے دو جانی پہچانی ادبی شخصیات کو
بھی دعوت دی تھی، جن کا انٹرویو میں نے خود لیا تھا اور ایسی عجیب وغریب
حقیقتوں سے پردہ چاک کیا کے ہم حیرت کی وادیوں میں غوطہ زن ہونے لگے، ان
شاءاللہ بہت جلد ان کا انٹرویو لکھ کر بھیجوں گا۔
|