فکرِ فردا

 عطیہ رانی چیف ایگزیکٹو کشمیر رائٹرز فورم پاکستان
14فروری۔۔ دیکھا جائے تو ایک عام سا دن ہے عام سی تاریخ ہے جو سال کے بارہ مہینوں میں کئی بار آتی ہے۔ لیکن 14 فروری کو خاص دن کیوں بنایا گیا کیوں اس دن کو اہمیت دی گئی؟ آج سے دس پندرہ سال پیچھے چلے جائیں تو اس دن کا نام سننے میں خال خال ہی آیا ہوگا لیکن آج اس دن کو نوجوان نسل جس اہتمام کے ساتھ مناتی ہے اتنے اہتمام کے ساتھ شاید عید کبھی بھی نہیں منائی ہوگی۔۔۔ سوشل میڈیا نے اس رسم کو بڑھاوا دے کر معاشرے میں گناہ کی دعوت کو عام کردیا نوجوان اپنی محبوباؤں کو پھولوں کا تحفہ دیتے ہیں چند پیسوں کے عیوض عزتوں کی نیلامی کی جاتی ہے اور اب تو بے حیایی کا یہ عالم ہے کہ کالجز۔ یونیورسٹیز کے بعض نام نہاد طالب علم سر عام یہ فحش کام کرتے ہیں. یہ ہی وجہ ہے 14 فروری کو پھول کثرت سے فروخت ہوتے ہیں اور بازار میں پھولوں کی قلت پڑجاتی ہے.۔۔

اﷲ اکبر!! ٹیلی فون, موبائل, فیس بک, واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے ذریعے نامی محبت اور ویلنٹائن ڈے کی مبارکباد دی جاتی ہیں. اسی طرح بے حیایی پر بنی مواد اور تصویریں شئر کی جاتی ہیں۔۔ کیا ہم امت مسلمہ کو یہ زیب دیتا ہے کہ کسی کی بہن۔ بیٹی۔ سے محبت کے جھوٹے وعدے کر کے انھیں گھر سے باہر آنے پہ مجبور کریں؟ کیا ہماری بہنوں کو یہ زیب دیتا ہے کہ ایک غیر محرم کی محبت میں گرفتار ہوکر اپنی عزت اپنے والدین کی عزت کو نیلام کردیں؟ صرف چند تحائف اور چند پھولوں کے لئیے اپنی پھولوں جیسی زندگی کو خاردار جھاڑی میں بدل دیں نہایت افسوس کا مقام ہے معاشرہ جس تیزی سے تباہی کی جانب جارہا ہم سوچ بھی نہیں سکتے اس کا انجام کتنا بھیانک ہوگا۔۔۔۔۔ ہر عمل کا ردِعمل ہوتا ہے۔دنیا مکافاتِ عمل ہے مت بھولو یہ ایک قرض ہے جو تمھارے ہی گھر سے ادا ہوگا لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی۔۔۔
('' جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اہل ایمان میں بے حیایی پھیل جائے, ان کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عزاب ہے. (النور: 19)

ہم کیوں دین سے دور ہیں کیوں قرآن کی ان آیات کو نہیں سمجھتے ان پہ عمل نہیں کرتے؟

ویلنٹائن ڈے منانا ہے اپنے جائز رشتوں کو تحائف دیں ان سے محبت کریں پیار بانٹیں۔ لیکن افسوس فروری کی یہ تاریخ جانے کتنے گھروں کی عزتیں نیلام کرتی ہے جانے کتنی بیٹیاں۔ بہنیں ہوٹلوں اور پبلک پلیس۔ ریسٹوران میں اپنی نام نہاد محبت کے ساتھ ٹائم پاس کر کے ایک پھول لے کر اپنی نازکی کو کھو دیتی ہیں۔۔۔ کتنے ہی لڑکے معصوم لڑکیوں کو ایک پھول دے کر کسی کے گلشن کی کلیوں کو مسل ڈالتے ہیں۔ کیا یہ بے حیائی نہیں ہے؟ ایسے دن کا فائدہ کچھ لوگ ایسے اٹھاتے ہیں ایسے کسی کپل کی ویڈیو بناکر انھیں بلیک میل بھی کرتے ہیں اور نتیجہ۔ خودکشی تک پہنچ جاتا ہے۔۔۔ لمحہ فکریہ! ہے امت مسلمہ کے لئیے۔ میں نے مانا محبت ایک فطری عمل ہے محبت ہوجاتی ہے اور محبت محرم نا محرم نہیں جانتی لیکن کیا ہی اچھا ہو اس محبت کو ایک نام دیا جائے جو ہمارے مذہب میں جائز بھی ہے اور سنت بھی۔۔ نکاح '' کرنا ہی ہے تو نکاح کر کے اس دن کو اس رشتے کو جائز بنائیں حرام نہیں۔۔۔۔

جو شخص محبت کے دعوے کرتا ہے یا کرتی ہے اس کو پہلی فرصت میں دعوت نکاح دیں اگر وہ سچا یا سچی ہوگی یا ہوگا تو کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔۔۔ کبھی اپنی محبت کی عزت سے کھیلنے کی کوشش نہیں کرے گا۔۔۔ لیکن اگر وقت گزاری یا دلگی کر رہا ہے تو آپ کے سامنے کھل کر آجائے گی اس کی نام نہاد محبت۔۔۔۔۔

ویلنٹائن کیا ہے کسی سے پوچھ لیں اس کا ایک ہی جواب ہوگا پیار کرنے والوں کا دن ہے۔ عجیب سی بات ہے پیار کرنے والے بھی تاریخ دیکھ کے پیار کم اور زیادہ کرتے ہیں؟ پیار تو ہر دن کرنا چائیے محبت ہر دن ہونی چائیے لیکن اپنے جائز اور خونی رشتوں سے کیا آپ نے یہ دن اپنے والدین کو پھولوں اور تحفائف دے کر منایا ہے ؟ کیونکہ والدین سے زیادہ تو کوئی پیار نہیں کرتا آپ کو

کیا آپ اپنی بیوی کے ساتھ یہ دن مناتے ہیں؟ کیا اپنے بچوں کے لئیے تحائف پھول لاتے ہیں چودہ فروری کو؟ مجھے لگتا ہے سو میں سے 20% لوگ شاید اپنی بیوی یا اپنے شوہر کے ساتھ اس دن کو مناتے ہونگے۔۔۔۔۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اپنی تباہی کا سامان نہ خریدیں اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں ۔۔۔ یہ حدیث ایسے ہی موقع کے لئیے بیان کی گئی ہے۔۔۔۔۔
(تم غیر محروم عورتوں کے پاس جانے سے پرہیز کرو (بخاری و مسلم)

ذرا اپنا چہرہ آئنیں میں دیکھ, تجھے کس رسول پاک ﷺ سے نسبت ہے؟ تو سوچ زرا۔ تیری منزل کیا ہے؟ تیرا دل تو محبت رسول پاک ﷺ کا امین ہے. مگر تو اپنے دل میں کس کو بسائے ہوئے ہے؟

اب ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس برائی کو روکنے کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہر ممکن کوشش کریں.لوگوں میں دینی تعلیمات اور اسلامی اقدار کا شعور بیدار کریں, بالخصوص اپنی سوسائٹی, اسکول, کالجز, یونیورسٹیوں اور کوچنگ سنٹروں میں۔۔ دینی تعلیمات کو عام کریں اور خدارا اس بے حیائی کا خاتمہ کریں۔۔۔
(اٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا '')

Rasheed Ahmed Naeem
About the Author: Rasheed Ahmed Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmed Naeem: 47 Articles with 40448 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.