اکتوبر2019ء میں شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ شہزادی
کیٹ بھی پاکستان تشریف لائے۔وہ جہاں جہاں بھی گئے پاکستانی عوام کے بہترین
اخلاق اور مثبت رویے کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔انہوں نے شمالی علاقہ
جات کا دورہ بھی کیا اور وہاں کی خوبصورتی کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرکے
یہ کہتے ہوئے "کہ ہم پھر پاکستان آئیں گے" اپنے وطن لوٹ گئے ۔ ۔برطانوی
ٹریول ایڈوائزری میں تبدیلی کا محرک شاید یہی اہم دورہ تھا ۔ برطانوی ہائی
کمشنر ڈاکٹر کرسچن ٹرنرکے مطابق انہوں نے یونیسکو کے خوبصورت مقامات کا
دورہ بھی کیا لیکن پاکستان کی سیاحت کی صلاحیت اور خوبصورتی کودیکھ کرمیں
حیران رہ گیا ۔ برطانیہ کے بعد امریکہ نے بھی پاکستان کی سیکورٹی کی
بہترصورت حال کااعتراف کرتے ہوئے اپنی ٹریول ایڈوائزری کو تبدیل کرکے
پاکستان کو سفر کے لیے محفوظ قرار دے دیا ہے ۔اقوام متحدہ نے سلامتی کی
بہترصورت حال پر پاکستان کو فیملی سٹیشن قرار دیا جبکہ پرتگال ‘ ناروے کے
سفری شرائط میں نرمی ‘ یورپین حکومتوں کی دلچسپی پاکستان کے سیاحتی مقامات
کے حوالے سے پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے ۔انہوں نے 2020ء میں تعطیلات کے
لیے پاکستان کو دنیا کا بہترین ملک قرار دیاہے ۔ میں سمجھتا ہوں پاکستان ‘
قدرت کا بہترین انعام ہے ہمیں اپنے ملک کی قدر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی
اور اخلاقی رویوں میں بھی مثبت تبدیلیاں لانی ہوں گی ۔ اس میں شک نہیں
سیکورٹی کی بہترین صورت حال ہماری عظیم فوج کی قربانیوں کا ثمرہے ۔ ابھی
چند ہفتے پہلے کی بات ہے کہ فرانسیسی کمانڈر ریئر ایڈمرل دیدیئر ملیترے نے
آرمی ایوی ایشن کے ان ہوا بازوں کو نیشنل ڈیفنس برونز میڈل سے نوازا۔ جنہوں
نے نانگا پربت میں مشکلات میں پھنسی ہوئی فرانسیسی کوہ پیما ایلزبتھ ریول
کو انتہائی نامساعد موسمی حالات میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بچایا تھا۔اسی
طرح آسٹریلیا کے کوہ پیماؤں کی زندگی بھی چند دن پہلے آرمی ایوی ایشن کے
پائلٹوں نے بچائی ۔جو قابل تحسین بات ہے۔بے شک ایسے واقعات پاکستان کے دامن
میں لگے ہوئے دہشت گردی کے دھبوں کو دھونے میں ممد معاون ثابت ہورہے ہیں ۔
یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ ویزا پالیسی میں تبدیلی کے بعد غیر ملکی سیاحوں
کی بڑی تعداد پاکستان کا رخ کررہی ہے ۔ اب اگر ہم پاکستانیوں کو اچھے دن
دیکھنا نصیب ہوہی رہے ہیں تو حکومتی ‘ انتظامی اورعوامی سطح پر ہمیں بھی
اپنے رویوں ‘ اخلاقی تقاضوں اور ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھانا ہوگا ۔ سب
سے پہلے یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ کون کونسے سیاحتی مقامات غیرملکی سیاحوں کے
لیے کھلنے ہیں۔انتخاب کے بعد وہاں تک رسائی کے لیے بہترین کشادہ شاہراہوں
یا موٹرویز کی تعمیر مکمل کی جائے ‘اور موٹروے کی طرح ہر پچاس کلومیٹر کے
فاصلے پر عالمی معیار کے ریسٹ ہاؤسز تعمیر کیے جائیں جہاں رہائش ‘ کھانے
پینے طبی سہولتوں کی فراہمی کے علاوہ بچوں اور بڑوں کے تفریحی مشاغل کا بھی
اہتمام بھی ہو جبکہ موٹروے پولیس کی طرح انتہائی دیانت دار اور فرض شناس
سپیشل پولیس فورس تیار کی جائے جو غیرملکی سیاحوں کا تحفظ ممکن بنا ئے ۔
سیاحتی مقامات پر موبائل سمیت ٹیلی فون اور بنکوں کے اے ٹی یم کی سہولتیں
بھی فراہم ہونی چاہیئے تاکہ رابطوں کے ساتھ ساتھ بوقت ضرورت مالی ضروریات
پوری کی جاسکیں ۔ بطور خاص کوہ پیماؤں کا سامان اٹھانے اور انہیں خدمات
فراہم کرنے والے(لوڈر) منتخب مقامی افراد کولائسنس جاری کیے جائیں تاکہ
جرائم پیشہ افراد کی کارستانیوں سے سیاحوں کو بچایا جاسکے۔کیونکہ اگر ایک
بھی غیرملکی سیاح کے ساتھ غلط کام ہوگیا تو پوری دنیا میں رسوئی ہوگی۔اگر
حکومت پاکستان چاہے تو دو بئی ‘ ملائیشیا ‘ ترکی ‘ ابوظہبی ‘ جنوبی
کوریااور جاپان جیسے ممالک کے سرمایہ کاروں کو سیاحتی علاقوں کو بین
الاقوامی معیار کے مطابق ڈویلپ کرنے اورذرائع آمد ورفت (موٹرویز)کو جدید
بنانے کے لیے" ٹرن کی " کی بنیاد پرکنٹریکٹ دیا جاسکتا ہے ۔جنوبی کوریا کی
ڈائیو کمپنی لاہور تا اسلام آباد موٹروے تعمیر کرچکی ہے اس سے بھی استفادہ
کیاجاسکتاہے۔ایسے سیاحتی علاقوں میں جہاں سیاحوں کی آمد کا زیادہ امکان ہے
وہاں فائیوسٹار ہوٹل‘ جدید سہولتوں سے آراستہ میڈیکل یونٹس اور فوری مدد کے
لیے آرمی ایوی ایشن کا الگ شعبہ قائم کیاجاسکتا ہے تاکہ بوقت ضرورت غیر
ملکی سیاحوں کی مدد کی جاسکے ۔ ایک احتیاط ضرور ملحوظ رکھی جائے کہ سیاحوں
کے روپ میں بلیک واٹر جیسے تخریب کار نہ آنے پائیں۔ جبکہ اپنے ایٹمی
پروگرام اوراثاثوں کا تحفظ کرنا بہت ضروری ہے ۔ عوام کے رویوں اور اخلاق کو
بہتربنانے کے لیے الیکٹرونکس میڈیا کا کردار اہمیت کا حامل ہے ۔ آجکل لاہور
سے شروع ہونے والا انڈس ٹی وی نے انٹرنیشنل چینل کے طور پر اپنی نشریات
شروع کی ہیں جو سیاسی آلودگی سے پاک پاکستان کی ثقافت ‘ تہذیب ‘ ہیروز کو
متعارف کروانے کے علاو ہ سیاحتی علاقوں‘ خوبصورت وادیوں اور کوہ پیماؤں کی
دلچسپی بڑھانے کے لیے اپنی نشریات کو بھرپور استعمال کررہا ہے ۔اگر باقی ٹی
وی چینلز بھی سیاسی آلودگی پھیلانے کی بجائے پاکستان کی تہذیب ‘ مختلف
مذاہب کے مقدس مقامات اور آثار قدیمہ پر ڈاکومنٹری فلمیں بناکر دکھائیں
تونہ صرف غیر ملکی بلکہ پاکستانی شہری بھی تفریحی مقامات کا رخ کرسکتے ہیں
شرط صرف یہ ہے کہ وہاں تک رسائی آسان ہو ۔ |