ہندوستان کا مسلمان ہندو اکثریت کے ساتھ زندگی گزار
رہا ہے ۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہندو سماج کے اندر وقوع پذیرہونے والی سیاسی،
معاشرتی اور نفسیاتی تبدیلیوں کی معلومات حاصل کرے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں
مثلاً ان مسائل کو جانے بغیر ہم انہیں حل کرنے میں کوئی تعاون نہیں کرسکتے
۔ ان مشکلات پر قابو پائے بنا وہ نہ خود جبر واستحصال سے نجات حاصل کرسکتے
ہیں اور نہ عدل وقسط کے قیام میں ہمارے ساتھ اشتراکِ عمل کرسکتے ہیں ۔ یہ
بھی ایک حقیقت ہے کہ اس معلومات کے بغیر امت مسلمہ دعوتِ دین کی ذمہ داری
کما حقہُ نہیں ادا کرسکتے۔ اس سلسلے میں وشوہندو مہاسبھا کے آنجہانی قائد
رنجیت بچن کے حالات زندگی کا مطالعہ معاون ہوسکتاہے کیونکہ یہ سیاسی ، دینی،
اخلاقی اور مذہبی تبدیلیوں کا عکاس ہے ۔
وشو ہندو مہاسبھا کے رہنما رنجیت بچن کا نام اس کے قتل سے قبل شاید ہی کسی
نے سناتھا۔ اس کی موت کے بعد پتہ چلا کہ وہ ایک نام نہاد عالمی تنظیم کا
بین الاقوامی صدر تھا ۔ابتداء میں اس کے قتل کو پولس نے چوری کا معاملہ
بناکر پیش کیا اور کہا کہ حملہ آوروں نے رنجیت بچن کے گلے میں پڑی سونے کی
زنجیر اورموبائل فون چھیننے کی کوشش کی ۔ اس چھینا جھپٹی کے دوران حملہ
آوروں نے رنجیت بچن کے سر پر فائر میں گولی مار کر اسے ہلاک کردیا ۔ پولس
نے اپنے بیان میں گنجائش رکھتے ہوئے مزید کہا کہ جرم کو منصوبہ بند قتل کے
بجائے لوٹ مار کی واردات کے طورپر پیش کرنے کے لیے یہ قاتل کی ایک چال بھی
ہو سکتی ہے ۔ جمہوری نظام میں کسی مجرم پر ہاتھ ڈالنے سے قبل دو چیزوں کا
خیال رکھا جاتا ہے۔ اول کہیں وہ اپنا آدمی تو نہیں اور دوسرے اس کو سزا
دلوانے سے اپنے رائے دہندگان ناراض تونہیں ہوں گے ۔ یہ دونوں خطرات اگر نہ
ہوں تب تو کارروائی ہوتی ہے ورنہ ہیرا پھیرا کی جاتی ہے ۔
رنجیت بچن قتل کے دن وہ حضرت گنج کے قریب گلوب پارک کے پاس صبح کی سیر
کررہا تھا۔ اس کے ساتھ زخمی ہونے والے دوست کو کنگ جارج میڈیکل کالج کے
ٹروما سینٹر میں علاج کے لیے داخل کیا گیا ۔ اس معاملے کی تفتیش میں پولیس
نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے قاتلوں کو جائے واردات پر پہنچانے والی
بولینو کار کو شناخت کیا اور بولینو کار کے مالک دپیندر ورما کو گرفتار
کرلیا جو ٹرین سے ممبئی بھاگ گیا تھا ۔ دپیندر اتفاق سے رنجیت کی پہلی بیوی
اسمرتی کا چچا زاد بھائی ہے۔ اس سے پوچھ تاچھ کے بعدرنجیت نامی شوٹر اور اس
کو جائے واردات تک پہنچانے والے ڈرائیور سنجیت کا بھی سراغ مل گیا۔ رنجیت
ہنوز فرار ہے اور اس کا پتہ بتانے والے کے لیے انتظامیہ نے پچاس ہزار کے
انعام کا اعلان کررکھا ہے ۔ قوی امید ہے کہ وہ بھی جلد گرفتار ہوجائے گا۔
ان گرفتاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ اگر پولس چاہے تو بڑی تیزی کے ساتھ مجرمین
کو گرفتار کر سکتی ہے لیکن اگر کسی مجرم کے پاس پولس کو کھلانے پلانے کے
لیے وافر مقدار میں دھن دولت ہو یا اس کے رسوخ طاقتور سیاستدانوں تک ہوں تو
ساری چستی وپھرتی زنگ آلود ہوجاتی ہے۔
رنجیت بچن کا معاملہ ہندو ذہن کے فکری و سیاسی انتشار کی بھی غمازی کرتا
ہے۔ موت کے وقت یوگی کے حلقۂ انتخاب گورکھپور کے اس باشندے کی عمر صرف ۴۰
سال تھی۔ ۲۲ سال کی عمر میں اس نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز سماجوادی
پارٹی سے کیا ۔ سماجوادی پارٹی کے زمانۂ عروج میں ۲۰۰۹ تک اس نے ریاستی
گیر سطح پر سائیکل یاترا کا اہتمام کرکے اکھلیش یادو کو خوش کردیا ۔
۲۰۱۴میں مودی لہر کے بعد اس دلچسپی سائیکل سے ختم ہوگئی اوروہ ہندو
مہاسبھا میں شامل ہوگیا ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی نظریاتی تبدیلی
نہیں بلکہ سیاسی مفادات کے پیش نظر کیا جانے والا فیصلہ تھا ۔ دوسال تک
ہندو مہاسبھا میں رہنے کے بعد اس نے محسوس کیا کہ تنظیم کے ریاستی صدر اسے
اہمیت نہیں دے رہے ہیں تو الگ سے اپنی وشوا ہندو مہاسبھا بناڈالی یعنی اس
کے پس پشت ہندوتوا کی محبت نہیں بلکہ سیاسی آرزو مندی کارفرما تھی ۔
ایک ہندو نوجوان کے معاشرتی مسائل کو رنجیت کی مددسے سمجھنے کی کوشش کی
جائے تو پتہ چلتا ہے کہ رنجیت کی پہلی شادی ا سمرتی سے ہوئی لیکن سماجوادی
سائیکل کی سواری کے دوران اس کی ملاقات کالندی شرما سے ہوگئی۔ ۲۰۱۷ میں
کالندی کے بھائی نے گورکھپور پولس تھانے میں رنجیت پر اس کی بہن کو پریشان
کرنے کی شکایت درج کرائی لیکن وہ باز نہیں آیا اور کالندی شرما سے اس نے
دوسری شادی کرلی ۔ یہ حسن اتفاق ہے تجرد پسندی میں یقین رکھنے والا سنگھ
پریوار برہماچاریہ کی تبلیغ کرتے ہوئے مسلمانوں پر تعدد ازدواج کا الزام
لگاتا ہےمگر وشوا ہندو مہاسبھا کے رہنما کی دوشادیوں پر اعتراض نہیں کرتا۔
کالندی شرما نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس کے شوہر کو مسلمانوں نے قتل
کردیا کیونکہ وہ اسے دھمکی دے رہے تھے حالانکہ وشوہندو مہاسبھا کے ایک
قریبی نے یہ بھی بتایا چونکہ وہ کبھی نفرت انگیزتقریر نہیں کرتے تھے اس لیے
انہیں کسی انتہاپسند سے کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ اس کے برعکس وشوہندو مہاسبھا
کی لکھنو یونٹ کے صدر شیوکمار پرشاد کالندی کی تائید میں کہتے ہیں کہ مختلف
مذاہب کے ماننے والوں کی جانب سے باباجی کو دھمکیاں ملتی تھیں ۔ رنجیت نے
حکومت سے سیکیورٹی طلب کی تھی اگر وہ مل جاتی تو یہ قتل نہیں ہوتا۔ اس سے
پتہ چلتا ہے اپنے گروکی موت سے بھی کس طرح سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی
جاتی ہے
لکھنو میں جاری اس شور شرابے سے دور پولس کی نظر گورکھپور میں رہنے والی
رنجیت کی پہلی بیوی اسمرتی پر مرکوز تھی ۔تفتیش کرنے والوں کو اس لیے شک
تھا کہ ہرروز جھنڈے والان پارک میں چہل قدمی کی خاطر جانے والا رنجیت قتل
والے دن گلوب پارک کیوں گیا؟ عام طور دھیمے چلنے والا شخص اس دن دوڑ کیوں
رہا تھا اور اپنی بیوی سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر کیوں تھا؟ ا سمرتی پر
پولس کا شک کو سی سی کیمرے سے نکالی گئی بولینو کی تصاویر نے یقین میں بدل
دیا ۔ بولینو کے مالک دپیندر نے بتایا کہ وہ اسمرتی سے شادی کرنے کا
خواہشمند تھا لیکن طلاق کامعاملہ عدالت میں معلق تھا ہونے کے سبب وہ شادی
نہیں کرپارہے تھے ۔ اسی لیے اسمرتی اور دپیندر نے مجبور ہو کر قتل کی سازش
رچی ۔
اس طرح گویا رنجیت کے قتل میں عدلیہ کے پیچیدہ نظام کا حصہ بھی کھل کر
سامنے آگیا۔فی الحال عدالت نے طلاق کو بے حد مشکل بنا رکھا ہے۔ رنجیت اور
اسمرتی اگر مسلمان ہوتے تو یہ معاملہ اس قدر سنگین نہ ہوتا۔ رنجیت بہ
آسانی چار ماہ میں طلاق دے کر اسمرتی سے الگ ہوجاتا یا اسمرتی کسی قاضی کے
توسط سے خلع حاصل کر لیتی ۔ سچ تو یہ ہے کہ جس طرح نکاح کو مشکل بنانے سے
جنسی جرائم میں زبردست اضافہ ہوا ہے اسی طرح طلاق کو مشکل بنا دینے کے دو
متضاد اثرات رونما ہورہے ہیں ۔ اول تو لوگ عدالت کے چکر کاٹتے کاٹتے تنگ
آکر اسمرتی اور دپیندر کی مانندقتل و غارتگری پر اتر جاتے ہیں یا نکاح سے
بیزار ہوکر ناجائز تعلقات استوار کرکے زندگی گزارنے میں عافیت سمجھتے ہیں ۔
مغرب میں خاندانی نظام کے درہم برہم کا یہی بنیادی سبب ہے۔ اب اس آسیب نے
ہندوستانی سماج کو بھی اپنے آہنی پنجے جکڑنا شروع کردیاہے ۔ رنجیت بچن کا
قتل اس حقیقت کا شاخسانہ ہے۔ بی جے پی کو چاہیے کہ ہکساں سول کوڈ لانے یا
بچوں کی تعداد پر پابندی لگانے کے بجائے ان سنگین مسائل کو حل کرنے پر توجہ
دے۔
|