یہ تقریباً 18 ویں یا 19 ویں صدی کی بات تھی جب شادی ایک
انمول اور مُقدس بندھن سمجھا اور مانا جاتا تھا لیکن اب چونکہ 21 وی صدی ہے
نیا دور ہے، نیا زمانہ ہے۔ ہر رشتہ ہر تعلق میں تبدیلی آتی جارہی ہے تو پھر
شادی کا بندھن کیوں پیچھے رہے۔ آج کے دور میں شادی ایک مُکمل کاروبار کی
حیثیت اختیار کر چُکی ہے۔ دوسرے الفاظوں میں کہا جاۓ تو شادی کرنا اور
کروانا ایک اچھا خاصا مُنافع بخش کاروبار بن ُچکا ہے جو ہر گُزرتے دن کے
ساتھ معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کرتا جارہا ہے۔ شادی اب صرف لڑکیوں کا
مسٕئلہ نہیں بلکہ لڑکوں کے لیے بھی دردِ سر بنتا جارہا ہے۔ اب صرف لڑکیوں
کے ماں باب ہی رشتوں کے لیے پریشان نہیں ہوتے بلکہ لڑکے والے بھی مناسب
رشتوں کی خاک چھانتے دکھاٸ دیتے ہیں۔ کہیں من چاہا جہیز نہیں مل پارہا تو
کہیں مناسب جوڑ۔ حتّیٰ کہ لڑکا لڑکی اپنی عزتِ نفس کا گلہ گھونٹ کر اپنے
وجود کی منہ مانگی قیمت لگتا بھی دیکھ رہے ہیں۔ معزرت کے ساتھ مگر یہ شادی
سے کٸ زیادہ سودے بازی معلوم ہوتی ہے۔ سودے بازی کا بازار لگا ہوا ہے۔ ہر
کوٸ بکنے کو تیار بیٹھا ہے بس دام مُنہ مانگا ہو۔ ان سب کے ذمہ دار کہیں نہ
کہیں ہم خود ہی ہیں۔ یہ بازار لگا نے والے یہ کاروبار کرنے والے ہم خود ہی
ہیں۔ آس پاس ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ خدا نا خواستہ شادی نہیں ہوٸ تو
کوٸ بہت بڑا جُرم سرزرد ہوگیا ہو۔ شادی ہو تب بھی مسلٕہ نہ ہو تو الگ
الرجی۔ نہ چین سے جیتے ہیں اور نہ جینے دیتے ہیں لوگ۔ اگر چہ مذہبی نقطہِٕ
نظر سے شادی میں جلدی کرنی چاہیے تاکہ آپ کا ایمان مُکمل ہو اور گُناہ عظیم
سے محفوظ رہا جاسکے مگر رُکیے۔۔۔۔۔ ذرا سوچیے۔۔۔۔۔ کیا شادی کرنا یا ہونا
انسان میں اختیار میں ہے۔۔۔۔؟؟؟ اگر ہے تو یہ معا شرہ "نمرہ اور اسد" کی
شادی کو تنقید کا نشانہ کیوں بنا رہا ہے۔۔۔۔؟؟؟ یہ تو خوش إٓین بات ہے مگر
صد افسوس ہمارا معاشرہ زنا کی تو اجازت دیتا ہے مگر پسند کی شادی کی نہیں۔
"بیٹا/بیٹی کی شادی کب کر رہے ہو۔۔۔۔؟؟؟" ، "تُمہاری اب تک شادی نہیں
ہوٸ۔۔۔۔۔؟؟؟" ، "بالوں میں سفیدی آگٸ ہے اب تو شادی کرلو" ، "تمہاری عمر کے
لڑکے / لڑکیوں کے دو دو بچے ہیں" اور "پڑوسیوں کے بچے جوان ہونے کو آۓ ہیں"
یہ چند ایسے تلخ سوالات اور جُملے ہیں جن کی تلخی ناقابلِ برداشت ہوتی
جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے خود کُشی کی اموات کی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ والدین پر
ڈباٶ ڈال کر اُنہیں بلاوجہ کی ذہنی پریشانی اور ڈپریشن میں ڈھکیلا جا رہا
ہے۔ شادی خوشی کے بجاۓ ناقابل ِحل مسٕلہ بنا دیا گیا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ
شادی صرف اور صرف نصیبوں کا کھیل ہے اور نصیب کا وقت مُتعین ہے۔ فطرت نے ہر
کام کا ایک طے شُدہ وقت رکھا ہے پھر یہ کیسے مُمکن ہے کہ شادی وقتِ مقررہ
سے پہلے ہوجاۓ۔
والدین کی اپنی اولاد کے لیے فکر و پریشانی فطری ہے اور وہ کسی حد تک فکر
مند ہونے پر حق بجانب بھی ہیں۔ ہر ماں باب کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی
زندگی میں ہی اپنی اولاد کو اُس کے گھر کا ہوتا دیکھیں۔ اُسے خوش و خرّم
زندگی گُزارتا دیکھیں اور سب سے بڑھ کر مُستقبل کا تحفُظ دینا مقصود ہوتا
ہے تاکہ ان کے بعد اولاد در بدر نہ بھٹکے۔ یہ اور بات ہے کہ نصیب کا لکھا
انسان کو ہر حال میں ملنا ہی ہے پھر چاہے وہ زمانے کی ٹھوکریں ہی کیوں نہ
ہوں۔ شادی ہونے یا نہ ہونے سے اس کا کوٸ تعلق نہیں نہ ہی شادی اس بات کی
ضمانت ہے کہ اس کے بعد کوٸ غم و پریشانی زندگی میں نہیں آۓ گی۔ بہرحال
انسان کے اختیار میں صرف اور صرف کوشش ہوتی ہے۔ اولاد کی شادی کرنا ماں باب
کا بڑا فریضہ ہے اور وہ اس کے لیے جتنی کوششیں کریں کم ہے مگر ہھر بھی اتنا
ضرور یاد رکھا جاۓ کہ محض اپنا فریضہ ادا کرنے کی خاطر اولاد کو اندھے
کُنوے میں نہ ڈھکیل دیا جاۓ نہ ہی اگلے کو یہ باور کرایا جاۓ کہ وہ آپ پر
بوجھ ہے۔ بلکہ اُس کی خوشی اور معیار کو اوّلین ترجیح دی جاۓ۔ اس کی پسند
نا پسند کا خیا ل رکھا جاۓ۔ اگر اُس کی کوٸ پسند ہے تو اس پر سنجیدگی سے
سوچا جاۓ۔ اس کی پسند کا احترام کیا جاۓ اُسے محض اپنی ناک اور جھوٹی انا
کی خاطر نہ ٹھکرایا جاۓ خصوصاً آج کل کے ایسے ماحول میں جہاں اچھے رشتوں کا
ویسے ہی کال پڑا ہوا ہے۔ کم از کم اس سے دو خاندانوں کا بھرم تو قإم رہتا
ہے اور سب سے بڑھ کر آپ کے بچّے روایتی ٹھکراۓ جانے کی اذیت سے دوچار نہیں
ہوتے اور نہ ہی آپ کو رشتے والیوں کے چکّر کاٹنے پڑتے ہیں۔
معاشرے میں شادی کا روایتی طور طریقہ تو یہی رإج تھا کہ باقاعدہ اور با
ضابطہ طور پر رشتہ آۓ اور شادی کردی جاۓ مگر یہ تقریباً ختم ہوتا جارہا ہے
اور جو طریقہ زور پکڑتا جارہا ہے اُسے معاشرہ مُکمل طور پر قبول کرنے پر
آمادہ ہی نہیں اور وہ ہے پسند کی شادی۔ ان دونوں کے درمیان شادی کا وہ
تیسرا طریقہ بھی ہے جو شاید سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے نہ صرف شادی کرنے والے
فریقین کے لیے بلکہ دو گھرانوں کے لیے بھی اور وہ ہے "بروکری سسٹم" یا
"دلالی نظام". ایک ایسا نظام جو آج کل ایک اچھے خاصے مُنا فع بخش کاروبار
کی شکل اختیار کر چُکا ہے۔ شادی وہ مُخلص بندھن ہوتا ہے جو ہر طرح کے لالچ
و طمع اور شرطوں سے آزاد ہونا چاہیے مگر بد قسمتی سے یہ اب کاروبار بن چُکی
ہے اور کاروبار میں تو شرطیں بھی ہوتی ہیں، لین دین کا سودا بھی طے کیا
جاتا ہے اور نفع نقصان بھی دیکھا جاتا ہٕے۔ ایسا صرف بروکری سسٹم میں ہی
نہیں ہورہا بلکہ پسند کی شادی کا بھی یہی معیار بنتا چلا جارہا ہے تاہم فرق
صرف اتنا ہے کہ پسند کی شادی میں پھر کہیں سمجھوتے کی ُگنجاٸش نکل آتی ہے ۔
اُونچ نیچ قابلِ قبول بن جاتی ہے۔
ایسے اشخاص جن کی شادی نہیں ہو رہی یا ہو پا رہی وہ یا ان کے والدین نا
چاہتے ہوۓ بھی اس بروکری سسٹم کا سہارا لینے پر مجبور ہوگۓ ہیں۔ ایسا نظام
جس میں ایک عورت دونوں گھرانوں کے درمیان رشتے کی بات کُچھ شرطوں کی بُنیاد
پر کرتی ہے۔ یعنی دونوں جانب سے کُچھ نہ کُچھ وصول کیا جاتا ہے۔ گویا
مجبوری کا بھرپور فإدہ اُٹھایا جاتا ہے۔ پہلے پہل یہ سلسلہ صرف ایک عورت
تک محدود تھا مگر اب یہ ایک مُکمل نیٹ ورک بن ُچکا ہے۔ اب ایک عورت نہیں
بلکہ عورتوں کا گروہ ایک رشتہ کرانے میں شامل ہوتا ہے۔ سب کے الگ مزاج سب
کے الگ تقاضے۔ والدین کو ہر اک کے مُنہ لگنا پڑتا ہے۔ سب کی منّت سماجت
کرنی پڑتی ہے۔ مُنہ ما نگی لالچ پوری کرنی پڑتی ہے۔ یہ جانتے ہوۓ بھی کہ
شادی سُکھ کی ضمانت نہیں۔ لڑکا لاکھ قابل ہو، لڑکی چاہے کتنی ہی سُگھر کیوں
نہ ہو یہ مسٕلہ سبھی کو درپیش ہے۔ فإدہ صرف ان درمیان کی عورتوں کو پہنچتا
ہے۔ دونوں طرف سے خوب بٹورتی ہیں۔ 100 میں سے 90 کیس ایسے ہوتے ہیں با قی
10 فیصد ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں جنکا مقصد صرف اور صرف رضاۓ الٰہی ہوتا
ہے مگر ایسی عورتیں آٹے میں نمک برابر پاٸ جاتی ہیں۔
بروکری سسٹم میں ایسا عجب قصّہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ خود کے گھر میں غیر
شادی ُشدہ بہن، بیٹی، بھاٸ یا بیٹا موجود ہوتا ہےاور چلتے بنتے ہیں اوروں
کی شادیاں نمٹا نے۔ روزانہ شام ڈھلے سُرخی پاٶڈر لگا کر کسی نہ کسی کے گھر
شام کی چاۓ پینا یا پھر لوگوں کو اپنے گھر کے چکّر لگوانا تو جیسے ان کا
پسندیدہ مشغلہ ہو۔ عمر رسیدہ توعمر رسیدہ اب دیگر خواتین بھی اس کاروبا ر
کا حصّہ بنتی جارہی ہیں۔ با قاعدہ نظام الاوقات کے تحت کام کیا جاتا ہے۔
شرطیں اور ضا بطے وقواعد ایسے کہ خدا کی پناہ۔ پریشان والدین کواگر اتنی
خبر ہوجاۓ کہ فلاں جگہ فلاں بندی رشتے کرواتی ہے بس پھر وہ اولاد کی خاطر
ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ در بدر کی خاک چھانتے ہیں۔ بھانٹ بھانٹ کے
لوگوں کے مُنہ لگتے ہیں یہاں تک کہ اپنی عزّتِ نفس تک نیلام کردیتے ہیں صرف
ایک رشتہ کے لیے۔ رشتہ ہونے سے پہلے کی اذیت الگ اور پھر بعد کے غم الگ
برداشت کرنے پڑتے ہیں گویا یہ طے ہے کہ ماں باب کو مرتے دم تک اولاد کی
خوشیوں پر قُربان ہونا ہی ہے۔ اتنے پر بھی معاشرہ یہ کہ اُٹھتا ہے کہ اسے
تو اولاد کی شادی کی پڑی ہی نہیں۔ بیٹھے بیٹھے اولاد کی کماٸ کھانے کی عادت
ہوگٸ ہے اسی لیے اولاد کو بوڑھا کر رکھا ہے۔
اس کاروبا ر کا انداز ہی نرالا ہے۔ کسی کو رشتے کروانے کے لیے زیور چاہیے
تو کسی کو کپڑے لتھے اور کسی کو مخصوص رقم۔ رشتے کا معیا ر رقم پر مقرّر
کیا گیا ہے۔ جتنا پیسہ دیا جاۓ گا اُتنا ہی اچھا رشتہ تلاش کیا جاۓ گا۔
پیسہ پھینک تماشہ دیکھ والا معاملہ ہوتا ہے۔ یہ کاروبا ر نہیں تو اور کیا
ہے۔۔۔۔؟؟؟ جہا ں جتنا مُنا فع چاہیے ہو اتنا ہی زیادہ سرمایہ لگایا جاۓ۔
اصل کاروبار میں پھر بھی نقصا ن کی ضمانت دی جا تی ہے جبکہ اس میں قیمتی
اثاثہ بھی جا تا ہے اور کسی قسم کی کوٸ ضمانت بھی نہیں ملتی۔
آج کل والدین کی فکروں کا یہ عالم ہے کہ دورانِ تعلیم ہی اپنے بچّے پچیوں
کے لیے رشتے کروانے والیوں سے رابطے قإم کرنا شروع کردیے جاتے ہیں تاکہ
بعد میں پریشانی نہ ہو۔ کچھ تو بچوں کی تعلیم تک بیچ میں چھوڑوا دیتے ہیں۔
میری تمام والدین سے گُزارش ہے کہ سمجھداری کا مظاہرہ کریں ایسا ہرگز نہ
کریں۔ اپنے فریضہ کی ادإیگی آپ پر لازم ہے مگر اس کی خاطر اولاد کو انُ کے
بُنیادی حقوق سے محروم نہ کریں۔ شادی ہونا یا نہ ہونا نصیب کی بات ہے۔
اُمید کا دامن تھامیں رکھیں۔ معاشرہ کے ڈر اور ڈباٶ میں آکر اولاد کو بوجھ
نہ سمجھیں۔ انہیں اذیت نہ پہنچاٸں۔ اپنی عزت ِ نفس اور خود داری کا سودا نہ
کریں۔ شادی کے معاملے میں بے جا جلدبازی سے گُریز کریں۔ رشتے والیوں پر
مُکمل اور اندھا اعتماد نہ کریں نہ ہی ان کی ہر فرمإش پوری کریں۔ نہ خود
پریشان ہوں نہ ہی اولاد کو ڈپریشن کا شکا ر بنایے بلکہ انہیں خود اعتمادی
اور خود مُختاری دے کر اس قابل بنایے کہ وہ خود کو ہر طرح کے حالات کے
سانچھے میں ڈھال سکے حتیٰ کہ خدا کی ذات کے علاوہ کسی کی مُحتاج نہ رہے۔ |