ایک بوڑھے آدمی کو پودا لگا تے
دیکھ کر لو گوں نے کہا ” بابا جی آپ کیوں اتنی تکلیف اٹھا تے ہو جب تک یہ
پھل دینے کے قابل ہو گا آپ اس دنیا میں نہیں ہوں گے “اس پر بو ڑھے آدمی نے
کہا ”میں جا نتا ہو ں کہ جب یہ تنا ور درخت بن جا ئے گا تو میں اسکا پھل
کھا نے کے لیے اس دنیا میں نہیں رہوں گا لیکن یہ در خت میں نے اپنے فا ئدے
کے لیے نہیں لگا یا میرے بزرگوں نے جو در خت لگا ئے تھے اس کے پھلو ں کو
میں نے استعمال کیا اب یہ درخت میں اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے لگا
رہا ہوں“کہنے کو یہ چھوٹی سی معمولی کہا نی ہے لیکن اس میں سمجھنے والوں کے
لیے بڑی حکمت ہے خا ص کر ہم جیسی نا سمجھ قوم کے لیے جو اپنے قیمتی جنگلا ت
بڑی بے دردی سے صا ف کرتے جا رہے ہیں اس با ت کو جا نے سمجھے بناء کہ ان
جنگلا ت سے ما حو ل پر کیا اثر پڑتا ہے بارش سیلا ب کی تبا ہ کا ریاں کس
طرح یہ روکتے ہیں ہمارے تو دین اسلا م میں بھی شجر کا ری کو عبا دت کا حصہ
کہا گیا ہے اور ہر ے بھرے درخت کو کا ٹنا گناہ قرار دیا گیا ہے۔
آج جب پوری دنیا میں ارتھ ڈ ے منا یا جا رہا ہے،اس با ت کی اہمیت بڑ ھ جا
تی ہے کہ ہم اپنی زمین اور اسکے ما حول کو بہتر کرنے کے لیے کیا تدا بیر سو
چتے ہیں اور کس طر ح ان پر سختی سے عمل پیرا بھی ہیں، تاکہ ہما ری آنے والی
نسلوں کو یہ دنیا ایک خو بصورت انداز میں مل سکے پوری دنیا میں ما حو لیا
تی آلو دگی اور زمینی وسا ئل کے بے دریغ استعما ل نے بے شما ر مسا ئل کھڑ ے
کردیے ہیں ہمیں بھی اپنے ملک کے ان مسا ئل پر تو جہ دینے کی اشد ضرورت ہے
آلو دگی ہما ری رگوں میں دوڑتے ہو ئے خون کی طرح ہما رے ما حول کا جز بنتی
جا رہی ہے یہ وہ بیما ری ہے جو خاموش قاتل کی طرح ہما رے ما حول کو دیمک کی
طرح چا ٹتی جا رہی ہے بد قسمتی سے اس بیما ری کے جراثیم ہم انسان نے خود
پھیلا ئے ہیں جب کو ئی چیز پھیل جا ئے تو پھر کئی حصو ں میں تقسیم بھی ہو
جا تی ہے یہی و جہ ہے کہ آج آلو دگی کی کئی اقسام مثلاً فضائی آلو دگی ،
تیزابی آلودگی ، آبی آلودگی اور صوتی آلو دگی ( نو ائز پو لوشن ) ہمارے ما
حول کا حصہ ہیں۔ ۹۶۹۱ءمیں سانتا با ربرا (کیلو فور نیا ) کے ساحلو ں پر سفر
کے دوران گیلو رڈ نیلسن نے دیکھا کہ اس کے خوبصورت ساحلو ں کو تیل نے بری
طرح آلو دہ کر دیا ہے اس نے اپنے طور پر لو گو ں کو صاف ما حول سے آگاہی کے
لیے کو ششیں شروع کی اور بالا ٓخر ۲۲ اپریل ۰۷۹۱ءکو پوری دنیا میں با ضا
بطہ طور پر ما حول کا عالمی دن منا نے کا اعلا ن کر دیا گیا اس پروگرام میں
دس لا کھ امریکیوں نے شرکت کی جن میں کالج اور یورنیورسٹیوں کے طلباء سے لے
کر عام آدمی تک نے ما حول کی آلودگی پھیلا نے والی فیکٹریوں ، آئل، پا ور
پلا نٹس، خام سیوریج، جنگل کا نقصان ، اور فضائی آلو دگی کے خلاف اعلا ن
جنگ کیا ان کے اس احساس ذمہ داری نے ان ملکوں کو بڑی حد تک ما حولیا تی آلو
دگی سے چھٹکا رہ دلا دیا اس سلسلے میں میڈیا نے بھی اہم کر دار ادا کیا اور
روزانہ کی بنیا د پر ایک گھنٹے کا پرو گرام عوام کی آگا ہی کے لیے پیش کیا
جس کا عنوان تھا ” ارتھ ڈے ۔ ہما ری بقا کا سوال “
پا کستا ن میں انو ار منٹ پرو ٹیکشن کو نسل کے نام سے ۴۸۹۱ء میں ایک ادارے
کی بنیا د رکھی گئی اس کا قیام پا کستان انو ار مینٹل پرو ٹیکشن آر ڈینس
۳۸۹۱ء کے سیکشن ۳ کے تحت عمل میں آیا اس آرڈینس کے تحت صدر پا کستا ن کی سر
بر اہی میں یہ ادارہ ا جلا س بلا نے کا پا بند ہے لیکن افسو س نا ک با ت یہ
ہے کہ اپنے قیا م کے ۹ سالو ں تک اس ادارے کا ایک بھی اجلا س نہیں بلا یا
گیا ۰۱ مئی ۳۹۹۱ء کو نگر اں وزیر اعظم بلخ شیر مز اری کی سر بر اہی میں اس
کا پہلا اجلا س ہو ا ، انھو ں نے شور ، مو ٹر گا ڑیو ں کے دھو یں ،میو نسپل
، صنعتوں سے گیسو ں کے اخرا ج کو نیشنل کو ا لٹی اسٹینڈر ڈ کی منظو ری دی
مگر ان پر عمل در آمد نہ ہو سکنے سے ان کی سا ری کو ششیں بے سود ثا بت ہو
ئیں ،اس ادارے کا آخری اجلا س پچھلے سال ۹۲ ما رچ کو صد ر آصف علی کی کی سر
بر اہی میں ہوا جس میں در یاؤں اور ند یو ں کے پا نی کا انتہا ئی مضر صحت
ہو نا ،صنعتی آلو د گی ، روزا نہ ٹنو ں کے حساب سے گلیو ں اور ہسپتا لو ں
کا کچر ا اور نا کا رہ مو اد کو ٹھکا نے لگا نے کا کو ئی خا طر خو اہ انتظا
م نہ ہو نا اور جنگلا ت میں در ختو ں کا خطر نا ک حد تک کم ہو نا جیسے اہم
مسا ئل پر غور کیا گیا ۔
آبا دی بڑھنے کے ساتھ ساتھ قدرتی و سا ئل پر بھی دباؤ بڑ ھتا جا رہا ہے
جنگلا ت ختم کر کے نئی بستیاں آباد کی جا رہی ہیں، جنگلا ت میں کمی ہو نے
کے سبب موسم میں جو تبد یلیا ں ہو رہی ہیں اس سے ما ہر ین ارضیا ت نے بھیا
نک خطرے سے تعبیر کیا ہے دنیا کے ممالک نے اس پر تو جہ دینی شروع کر دی ہے
، کیو نکہ اگر جنگلا ت ختم ہو گئے تو حیو انی زند گی کا وجود بھی ختم ہو جا
ئے گا ما ہر ین کے مطا بق با اثر لو گو ں کی لکڑی کی تجا رت اور آبا دی کے
پھیلا ﺅ کے سبب پوری دنیا میں تقریباً ہر سال پچاس لا کھ ایکڑ جنگلا ت ضا
ئع ہو رہے ہیں خود ہما رے ملک میں ہرے بھرے در خت کا ٹنے پر پا بند ی ہے
،مگر اس کے با وجود قا نون کی خلا ف ورزی کرنے والے گر فت سے با ہر رہتے
ہیں ایک پو دے کو در خت بننے میں بر سوں لگ جا تے ہیں اس لیے جہا ں در خت
لگا نا ضروری ہیں وہا ں سر کا ری سطح پر لو گوں میں درختو ں کی حفا ظت کا
شعور بھی پیدا کر نے کی ضرورت ہے ۔ اس وقت زمین کو انسا نوں نے بےدریغ
استعما ل سے آلو دہ کردیا ہے اس آلو دگی نے تر قی پذیر ممالک کو سب سے زیا
دہ نقصا ن پہنچا یا ہے سو یہا ں بھی ہما رے عوام کو بنیا دی سہو لتیں بھی
میسر نہیں پا نی جو زندگی کی اشد ضرورت ہے ہماری اپنی غلطیو ں سے پا نی
انتہا ئی آلو دہ ہو چکا ہے ہم آئے دن ساحل پر آلو دہ پا نی کی وجہ سے ہز
اروں مچھلیو ں کے مردہ پا ئے جا نے کی خبر اخبا رو ں اور ٹی وی پر د یکھتے
ہیں یہ آلو دہ پانی قد رتی تو ازن کے بگا ڑ کا سبب اور فصلیں تبا ہ کر نے
کا با عث بھی بنتا ہے ۔ کیمیکل فیکٹری اور چمڑے کے کا ر خا نو ں کا فضلہ
گٹر کا پا نی ، کو ڑا کرکٹ سب سمند رمیں بہا دیا جا تا ہے جو سمندر کے پا
نی کو ز ہریلا کرنے کا سبب بنتا ہے اور ا س میں رہنے والی حیات کو بھی
نقصان پہنچا تا ہے ان مسا ئل سے نبٹنے کے لیے سخت ترین قانو ن بنا نے کی
اور اس پر عمل در آمد کر انے کی اشد ضرورت ہے اس سلسلے میں لو گو ں کے شعو
ر اجا گر کر نے کے لیے اسکو لو ں اور مسجدو ں میں چھوٹے چھو ٹے پروگرا م کے
ذر یعے لو گو ں میں آگا ہی پیدا کی جا سکتی ہے ۔
ہما را ملک قد رتی وسا ئل سے مالا مال ہے جو معا شی تر قی کے لیے بنیا دی
جز ہے لیکن بد قسمتی سے و سائل کے بے در یغ استعما ل نے ہما ری زمین کو خطر
ے سے دو چا ر کر دیا ہے یہ سب را توں را ت ٹھیک ہو نے وا لا نہیں آبی و فضا
ئی آلو دگی ، غر بت ،اور آبا دی میں بے تحا شا اضافہ وہ اسبا ب ہیں جو صحت
مند ما حو ل کے لیے کسی طو ر بھی سود مند نہیں اسکا ایک طر یقہ تو یہ ہے کہ
ہم ہا تھ پر ہا تھ دھرے بیٹھ جا ئیں یا پھر دوسرا بہتر طر یقہ اپنا ئیں اور
جوا نمر دی سے ا ٹھ کر حالا ت کا مقا بلہ کر یں اور آنے وا لی نسلوں کے لیے
صحت مند معا شر ہ کی تعمیر کر یں جو ہر قسم کی آلو دگی سے پا ک ہو یہ مسئلہ
اب ایک عالمی صورت اختیا ر کر گیا ہے حکو متیں اور ادارے تنہا کچھ نہیں کر
سکتے ہر شخص کو اپنے و سائل میں ر ہتے ہو ئے ما حو لیا تی آلو دگی دور کر
نے کی کو شش کر نی ہو گی اگر ہم آلودگی برائے جہا د کی کوشش کریں انفرادی
طور پر ہر آدمی چھ ما ہ میں ایک پودا لگا ئے اور چھ ما ہ تک اس کی پرورش
ایک بچے کی طرح کر ئے یہ نہ صرف ہما ری آکسیجن کی کمی کو پو را کر ے گا
بلکہ تیزی سے بڑ ھتے ہو ئے در جہ حرارت میں بھی کمی آجا ئے گی اگر ہر شخص
اپنے حصے کا کام انجا م دے تو ہما را ملک بھی ایک صا ف ستھر ے معا شرے میں
تبد یل ہوجائے ۔۔ |