وقتی اور سستی شہرت نہیں

اس وقت ہزاروں لاکھوں پاکستانی دنیا کے دوسرے ملکوں میں مقیم ہیں اور اپنے اپنے میدان کار میں بہترین کام کرکے پاکستان کے لیے نام کما رہے ہیں۔ کئی ڈاکٹرز،انجینئرز،بزنس مین اور سائنسدان خود کو اپنی خداداد صلاحیتوں اور شبانہ روز محنتوں سے ان ملکوں کے بہترین پروفیشنل ثابت کرچکے ہیں بلکہ سیاست میں بھی سرگرم عمل ہیں اور یورپ کے کئی ممالک کی پار لیمنٹوں تک پہنچ چکے ہیں۔ ان محب وطن پاکستانیوں نے وہاں کئی فلاحی،ادبی اور سماجی تنظیمں بھی بنارکھی ہیں جن کے تحت وہاں کی معاشرتی زندگی پر مثبت انداز میں اثر انداز ہو رہے ہیں، اگر ایسے پاکستانیوں کی فہرست بنائی جائے تو اچھی خاصی لمبی فہرست بنے گی لیکن دوسری طرف ایک قابل افسوس امر یہ ہے کہ ان ہی میں سے چند ایسے لوگ اور نام بھی ہیں جو شاید جب اپنی صلاحیتوں سے اپنی جگہ نہ بناسکے تو انہوں نے ایک انتہائی آسان اور آموزدہ نسخہ آزمانا شروع کیا اورشہرت اور دولت دونوں کمانے میں کامیاب رہے اور وہ نسخہ ہے اپنے ملک اور خاص کر اپنی فوج کے خلاف یا تو بیانات دو یا لکھو اور دولت بھی کماؤ اور شہرت بھی حاصل کرو اور جب ضرورت ہوکہ پاکستان یا افواج پاکستان کے خلاف بولنا ہوتو بھاری معاوضے کے تحت یہ خدمات بھی فی الفور مہیاّ ہوں۔ ایسے چہروں اور ذہنوں میں حسین حقانی کے قبیلے کے کئی نام شامل ہیں جن میں حال ہی میں ایک اور پاکستانی کو بھی شہرت نصیب ہوگئی ہے۔ جس نے افواج پاکستان کے سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع کے قانون اور ترمیم پرتنقید کی ہے اور ان صاحب کا نام ہے عاقل شاہ۔ ان کا مضمون اخبار نیو یارک ٹائمزمیں شائع ہواہے۔یہ صاحب اکلو ہوما یونیورسٹی کے ایر یاسٹڈی سنٹر میں جنوبی ایشیاکی سیاست کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور ایک ایسی ہی کتاب کے مصنف بھی ہیں جس کا نام Democrary - Military Politics in Pakistan The Army and ہے اور اب جو مضمون انہوں نے لکھاہے اُس کا موضوع ہے کہ کیسے پاکستانی سیاستدان فوج کی مدد کرتے ہیں۔ اس بات سے اختلاف نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کی غلطیاں ہی فوج کو حکومت تک لاتی ہے لیکن یہ توقع کرنا جیسا کہ ہمارے کچھ سیاستدان کرتے ہیں کہ فوج کو دشمن ملک کی فوج سمجھ کر اس کی مخالفت کی جائے اور عوام فوج اور حکومت کے بیچ میں نہ پُر ہونے والے خلاء پیدا کئے جائیں، ایسا کرنے کے لیے انہیں کچھ لکھنے والوں کی مدد درکارہوتی ہے اور انہیں بہت سارے محب وطن پاکستانیوں میں سے ایسے لوگ بھی مل جاتے ہیں جو ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں۔ عاقل شاہ بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہے جو اپنے مضامین میں پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں اور اپنے اس مضمون میں بھی اس نے افواج پاکستان کے سربراہوں کی مدت ملازمت پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ سات جنوری کو جلدی میں ایک آئین سازی کی گئی اور مدت ملازمت میں توسیع کی گئی جبکہ در اصل یہ آئین سازی سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر کی گئی۔ اس ترمیم سے اختلاف یا اتفاق کا حق سب کو حاصل ہے لیکن اسے بد نیتی پر مبنی قرار دینا کچھ قرین انصاف نہیں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ آیئن میں ترامیم کسی بھی ملک اور حکومت میں ہوتی رہتی ہیں یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہوا ہے کہ اسے مسلسل زیر بحث لایا جائے اور متنازعہ بنانے کی کوشش کی جائے۔ ابھی حال ہی میں بھارت میں فوج کے لیے یونیفارم میں ہی ایک پورا نیا عہدہ تخلیق کیا گیا جسے سی ڈی ایس یعنی چیف آف ڈیفنس سٹاف کا نام دیا گیا اور جنرل بپن راوت کو اکسٹھ برس کی عمر میں اس عہدے پر تعینات کیاگیا جو اس سے پہلے بھارت کے چیف آف آرمی سٹاف رہے ہیں۔ اس نئے عہدے کی تخلیق اور جنرل بپن راوت کی تعیناتی پر نہ تو وہاں تنقید ہوئی اور نہ انگلی اٹھائی گئی نہ ہی اسے اچھال اچھال کر متنازعہ بنایا گیا نہ اپنے ملک کے اخباروں نے اس پر تنقید ی مضامین شائع کیے اور نہ بھارتیوں نے دوسرے ممالک میں اس پر تبصرے کرکے اسے دنیا کی نظر میں کوئی غیر معمولی اقدام بناکر پیش کرنے کی کوشش کی اور یوں ایک تبدیلی لاکر بڑے آرام سے اسے رائج کیا گیا۔ عاقل شاہ اور اس قبیلے کے دوسرے لکھاریوں سے درخواست ہے کہ وہ بھارت میں متنازعہ شہریت بل، کشمیر میں اُس کی زیادتیاں یا عام طور پر ہونے والے مسلم کش اقدامات پر قلم اٹھائیں اور ملک کی خدمت میں شامل ہوجائیں نہ کہ دوسرے معاشروں اور ملکوں میں اپنی فوج کے خلاف ایک نکتہء نظر پیدا کریں جو پہلے ہی پاکستان کے خلاف ایک منفی رویہ اور سوچ رکھتے ہیں۔اپنے ملکی اور سیاسی مسائل کو دوسروں کے لیے اپنے ہی ملک کے خلاف ایک ثبوت بنا کر پیش کرنے سے گریز کریں۔ آپ اپنے پسندیدہ اور غیر پسند یدہ سیاسی رہنما کے لیے بھی لکھیں لیکن قومی اداروں کو متنازعہ نہ بنائیں اپنے قلم سے ملک کے لیے نیک نامی کمائیں بدنامی نہیں۔اس نکتے کو سمجھیں اور دیکھئے کہ آپکو اس میں بھی عزت ملے گی اگرچہ آہستہ روی اور مشکل سے لیکن ہوگی دیر پا اور مضبوط۔وقتی اور سستی شہرت نہیں۔
 

Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552111 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.