ہر ملک کے پاس ثقافت اور تاریخ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک
قومی زبان بھی ہوتی ہے۔ زبان ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے انسان اپنے
خیالات کا اظہار کرتا ہے۔ زبان کسی بھی انسان کے جذبات اور احساسات کے
اظہار کے لیے ایک قدرتی اور موثر ذریعہ ہے۔ دنیا میں مختلف علاقوں یا خطوں
میں مختلف ذبانیں بولی جاتی ہیں. ویسے تو دنیا میں لا تعداد بولیاں بھی
بولی جاتی ہیں لیکن میرا یے کالم یا مضمون اُن ذبانوں کا ذکر کرتا ہے جو
مختلف ممالک کی قومی زبانیں ہیں. اسی طرح پاکستان کی قومی زبان اردو کو
تصور کیا جاتا ہے. لفظ اردو کا مطلب لشکر ہے یعنی مختلف ذبانوں کا مجموعہ
ہے. لیکن بڑے افسوس اور دُکھ کے ساتھ یے کہنا پڑ رہا ہے کے یے صرف تصور کیا
جا سکتا ہے یا یے بولا جا سکتا ہے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے. جسطرح کا
سلوک ہم اپنی قومی زبان کے ساتھ کر رہے ہیں غیرتمند اور ترقی پسند قومیں
ایسا نہیں کرتیں. پاکستان کے اندر تو دفتری ذبان انگریزی ہے صرف ایک
نوٹیفیکیشن کی حد تک محدود ہے کے اردو ہماری قومی یا دفتری و سرکاری ذبان
ہے. پاکستان ہی کیا بلکہ جنوبی ایشیا میں انگریزی زبان کو ترقی دی جا رہی
ہے. یے بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ انگریزی ایک ذبان نہ کے قابلیت اور
بیکاری کا لیبل.انگریزی بولنے سے ملک ترقی نہیں کرتے بلکہ قوم کے کردار سے
ملک ترقی کرتے ہیں. آپ کی اور میری یعنی پاکستان کی قومی زبان اردو کی
تاریخ موجود ہے. اس ذبان کے اندر جتنا وزن اور اثرورسوخ ہے وہ انگریزی ہی
کیا عربی کے اعلاوہ اور کسی زبان میں اتنا اثرورسوخ نہیں. اس ذبان کی سب سے
بڑی خوبی یے ہےکہ اس میں آپ حسبِ ضرورت کسی بھی ذبان کا لفظ استعمال کر
سکتے ہیں. اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اپنی قومی زبان اردو کی احثیت خود ختم
کر رے ہیں. وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کرتیں جو اپنا نظریہ, تہذیب وثقافت اور
ذبان بھول جائیں. دنیا میں کئی ایسے مملک موجود ہیں جو اپنی قومی زبان کو
فروغ دے رہے ہیں اور ترقی کر رہے ہیں. جیسا کے چین کے اندر چینی. ایران کے
اندر فارسی. فرانس کے اندر فرینچ. یے وہ ممالک ہیں جو اپنی قومی ذبان کے
فروغ کے ساتھ ساتھ ترقی بھی کر رہے ہیں. میرا یے خیال باکل نہیں کہ انگریزی
نہ بولی جاۓ ضرور بولی جاۓ لیکن ایک حد تک یعنی جہاں ضرورت پڑے. میں بھی
انگریزی بولنے کا شوق رکھتا ہوں اور بولنے کی کوشش بھی کرتا ہوں. اگر میں
انگریزی کو اپنی قومی زبان اردو سے بہتر سمجھوں تو یے میری نادانی ہی نہیں
بلکہ میری حب الوطنی پر بھی سوالیہ نشان ہے. میرا یے کالم یا مضمون لکھنے
کا بلکل یے مقصد نہیں کہ میں انگریزی زبان پر تنقید کر رہا ہوں یا انگریزی
بولنے کے بلکل خلاف ہوں بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنی قومی زبان کو
فروغ دینا یہ ہمارا فرض ہے. |