بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
"افشو السلام بینکم"
یعنی "السلام علیکم " کہنے کو آپس میں رواج دو
السلام علیکم کا کیا معنیٰ ہے ؟ اس کے معنوں سے ہی السلام علیکم کی اہمیت
واضح ہو جائے گی ۔
عربی لغت میں سلام کے معنیٰ ہیں:
خدا تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک ، تسلیم و رضاء ، امن و سلامتی ،
عیوب و نقائص سے براءت و حفاظت ، آرام و سکون ، امان و حفاظت ، صلح ۔
"السلام علیکم " ایک دعا ہے ۔ جس کے معنیٰ ہوئے :
تم امن و سلامتی سے رہو، خدا تعالیٰ تمہاری ہر مشکل سے حفاظت فرمائے ، ہر
عیب اور نقص سے پاک رکھے ، زندگی میں آرام و سکون عطاء فرمائے اور میں
تمہاری طرف صلح کی طرح ڈالتا ہوں ۔
اس کے ساتھ جب ایک مسلمان بھائی آنحضرت ﷺ کے سکھائے ہوئے طریق کے مطابق
"ورحمۃ اللہ وبرکاتہ " کہتا ہے تو اس میں یہ بھی شامل ہو جاتا ہے کہ خدا
تعالیٰ کی رحمت اور اس کی بے شمار برکتیں تم پر ہوں ۔ اس دعا کو اگر ہم
اپنے مسلمان بھائی کے لئے سمجھ کر کریں اور وہ بھی سمجھے تو ہر دو کے
درمیان کوئی ناراضگی اور رنجش باقی نہ رہے ۔اور ایک پر امن معاشرہ قائم ہو۔
السلام علیکم کی دعا در اصل جنت والوں کے لئے اور جنت میں بولا جانے والا
کلمہ ہے ۔ اور در اصل اگر ہم اپنے معاشرے کو جنت نظیر بنانا چاہتے ہیں تو
اس کو رواج دینا ہوگا۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔
وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ وَعَلَى الْأَعْرَافِ رِجَالٌ يَعْرِفُونَ كُلًّا
بِسِيمَاهُمْ وَنَادَوْا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ
لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ (الأَعراف 47)
اور ان کے درمىان پردہ حائل ہوگا اور بلند جگہوں پر اىسے مرد ہوں گے جو سب
کو اُن کى علامتوں سے پہچان لىں گے اور وہ اہلِ جنت کو آواز دىں گے "سلام
علیکم "کہ تم پر سلام ہو جبکہ ابھى وہ اُس (جنت) مىں داخل نہىں ہوئے ہوں گے
اور (اس کى) خواہش رکھ رہے ہوں گے
سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (الرعد 25)
سلام ہو تم پر بسبب اس کے جو تم نے صبر کىا پس کىا ہى اچھا ہے گھر کا انجام
{لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا وَلَا تَأْثِيمًا (26) إِلَّا قيلًا
سَلَامًا سَلَامًا } (الواقعة 26-27)
وہ اس مىں کوئى بےہودہ ىا گناہ کى بات نہىں سنتے مگر ”سلام سلام“ کا قول
قرآن کریم کی سورہ صافات میں مختلف انبیاء پر سلام بھیجا گیا ہے ۔ جیسے
حضرت نوح ؑ پر ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰؑ ، حضرت ہارون ؑ ، آخر پر
فرمایا
{ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ} (الصافات 182)
اور سلام ہو سب مُرسلىن پر
وہ کلمہ جو خدا تعالیٰ نے تمام مرسلین کے لئے استعمال کیا اس کلمہ کو
آنحضرت ﷺ نے اپنی امت میں عام کرنے کا کہا ۔ اس دعا کی فضیلت میں یہ آیات
کافی اور تشفی بخش ہیں ۔
میرے پیارے خدام بھائیو ! اس سے بڑھ کر اس کلمہ کی فضیلت کیا ہوگی کہ ہمارے
پیارے خدا تعالیٰ کا ایک نام " سلام " بھی ہے ۔
اب خاکسار چند احادیث اس حوالہ سے پیش کر کے اپنی گزارشات کو ختم کرتا ہے ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم اس وقت تک جنت
میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک ایمان نہ لے آؤ اور تم اس وقت تک ایمان نہیں
لاسکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ۔ کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں
اگر تم وہ کر لو تو آپس میں محبت کرنے لگو گے (وہ یہ ہے کہ)"افشوا السلام
بینکم "آپس میں سلام کو رواج دو۔
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب بیان انہ لا یدخل الاجنۃ الا المؤمنون ۔۔۔۔)
حضرت عمران بن حصین ؓ نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے
کہا " السلام علیکم"۔ آپؐ نے اسے سلام کا جواب دیا۔ پھر وہ بیٹھ گیا ۔ آپؐ
نے فرمایادس(نیکیاں) ۔ پھر دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا " السلام علیکم
ورحمۃ اللہ " ۔ آپؐ نے اسے جواب دیا ۔ اور وہ بیٹھ گیا۔ آپؐ نے فرمایابیس
(نیکیاں ) ۔ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا "السلام علیکم ورحمۃ اللہ
وبرکاتہ" ۔ آپؐ نے اسے جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا ۔ نبی ؐ نے فرمایا
تیس(نیکیاں )۔
(ابو داؤد 5195)
ایک حدیث میں نماز کو ترک کرنے والوں کے لئے آپؐ نے اپنی ناراضگی کا اظہار
اس طرح کیا ہے
"سَلِّمُوا عَلیٰ الْیَہُوْدِ وَ النَّصَاریٰ ، وَلَا تُسَلِّمُوْا عَلیٰ
یَھُوْدِ اُمَّتِیْ"۔ قِیْلَ : وَمَنْ یَھُوْدُ اُمَّتِکَ؟ قَالَ :
"تُرَّاکُ الصَّلوٰۃِ"
یعنی یہود یوں اور عیسائیوں پر سلامتی بھیجو۔ لیکن میری امت کے یہودیوں پر
سلامتی مت بھیجنا۔ آپؐ سے پوچھا گیا۔ آپؐ کی امت کے یہود ی کون ہیں ؟ آپؐ
نے فرمایا" نماز ترک کرنے والے"۔
(الموضوعات الکبریٰ حدیث نمبر 509)
آپ کی دعاؤں کا طالب
ملک ظفراللہ |