سلام عقیدت بقلم اورنگزیب
مختصر یہ کہ اچھے لگتے تھے۔۔۔
طویل یہ کہ تمہاری چاہت کی داستان لمبی تھی
زوال یہ کہ تم دور ہوگئے ہو۔۔۔
کمال یہ کہ تیرے بناء ہم جی کر بھی مر رہے ہیں ں
موت کاذائقہ تو ہر کسی نے چکھنا ہے کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مر کر بھی
امر ہو جاتے ہیں.جن کا نام اور کام ہمیشہ زندہ وپائندہ رہ جاتے ہیں کچھ
ایسے لوگوں میں ہی شمار ہوتا ہے نام میرے بھائی کا جو آج اس فانی دنیا سے
رخصت ہو گئے.نام تو اسداﷲ تھا چونکہ پریس کلب کے چئیر مین تھے اور علاقائی
سیاست میں ان کی فیملی قیام پاکستان سے چئیرمین منتخب ہوتی چلی آرہی تھی تو
چئیرمین صاحب کے نام سے پکارتے تھے نام کی طرح کام بھی شیروں کی طرح کرتے
تھے۔ دین کی خدمت کی منہ بولتی مثال مرکز جامعہ عثمانیہ مینار آج بھی گواہی
دے رہے ہیں۔ عرصہ دراز سے صحافت کے پیشے سے منسلک تھے تو مثبت صحافت کا علم
بلند کیا۔ اپنی قلم کو علاقائی مسائل کی نشاندہی کیلیے استعمال کیا۔ اچھے
مقرر بھی تھے اور علامہ اقبال کے شاہین بھی تھے۔ علامہ اقبال کے سینکڑوں
اشعار ازبر یاد تھے۔ خوش اخلاق تو تھے ہی ساتھ ساتھ خادم دین اور خادم عوام
بھی تھے. چئیرمین صاحب رخصت تو ہو گئے میرا قلم بھی آج ان کی رخصتی کو سلام
عقیدت پیش کرنا چاہا رہا ہے۔ اگرچہ شدید صدمے اور غم میں ہوں کچھ تنہائی
بھی محسوس ہو رہی ہے لیکن سلام عقیدت نہ لکھوں تو اپنے پیشے سے بھی زیادتی
ہو گی اور تادم مرگ قلم شرمندگی محسوس کرتا رہے گا۔ اس لیے آج ہی قرض اتار
رہا ہوں!
کیا لکھیں چئیر مین صاحب بتائیں ذرا۔۔۔آپ کے کہنے پر لکھتے تھے آج آپ ہی ہم
سے ناراض ہو کر ہمیشہ کے لئے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں ۔،اس راہ پر تنہا
چلنا مشکل لگ رہا ہے
اب کس کے سامنے اپنی داستاں بیان کروں۔۔۔اب کون ہے جو مجھے صحیح اور غلط سے
روکے گا۔کون ہے جو مجھے کالم لکھنے کا کہے گا۔ کون میری لکھی تحریروں کی
نوک پلک سنوارے گا۔ کون غلطیاں نکالے گا میریاں۔
کسی اپنے جیسے کو اپنی جگہ چھوڑ جانا تھا۔ہم نے تو آپ سے کوئی بے وفائی
نہیں کی۔یہاں بھی جب جب بھی آپ نے بلایا۔ہم نے آپ کی آواز پر لبیک کہا اور
آپ کو ساری زندگی ہماری خاطر لڑتے دیکھا۔
آخر کونسی ایسی غلطی ہوئی ہمارے پیارے بھائی جس کی وجہ سے آپ نے ہم سے
ہمیشہ کے لئے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ایک بار لوٹ آؤ نا اور آج کا سماء
دیکھو کہ کتنی دنیا آپ کے پاس کھڑی ہے اور کہہ رہی ہے اسد اسد تم ہمیں ذرا
سی رنجش پر چھوڑ رہے ہو لیکن کس کے سہارے پورے فیروز وٹواں میں سناٹا
چھاگیا ہے کیونکہ فیروزوٹواں خود چیخ چیخ کر یہ فریاد کر رہا ہے کہ کس
شخصیت کو آج آپ نے مجھ سے جدا کردیا خدا کے واسطے انہیں کہیں کہ واپس
آجائیں ہم کو آپ کے بناء فیروزوٹواں کون کہے گا کون مجھے پہچانے گا کون
مجھے تمہارے سوا نقشے میں ڈالے گا کون مجھے سوشل میڈیا پرنٹ میڈیا
الیکٹرانک میڈیا میں متعارف کروائے گا۔اسد اسد واپس آجاو نہ لوگ تمہارے
جاگنے کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں۔اور میرے نام سے آپ کو تلاش کرنے کی
کوشش کر رہے ہیں۔وہ سینکڑوں لوگ جن کی خدمت خلق فاؤنڈیشن کے تحت آپ نے مالی
مدد کی۔سینکڑوں لوگوں کے آپریشنز کروائے۔اور بہت ساری بیواؤں نادار یتیم
بچوں بچیوں کی شادی بیاہ پر پوشیدہ اور ذاتی طور پر انکی مدد کی۔علاقائی
مسائل حل کئے ۔اس لئے وہ سب آپ کے روٹھنے پر تشریف لائے ہیں اور آپ کو
منانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں ۔
عزیز ساتھیوں دوستوں بھائیوں بہنوں بزرگوں استادوں اور میرے صحافی برادری
کے معماروں موت یقینی ہے اور یہ ایک دن سب کو آ کر رہے گی۔ہمارے چیئرمین
صاحب نے خدمت خلق اور دیگر کئی اداروں میں دن رات ایک کرکے اپنی محنت کے بل
بوتے پر بے شمار خدمات پیش کی۔جن کو ایک پڑھا لکھا عقل مند شخصیت کا حامل
انسان کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتا۔
یہی وجہ ہے آپ کے اسی پیار نے اور لوگوں سے والہانہ محبت نے آج ثابت کردیا
ہے کہ آپ کا جنازہ فیروز وٹواں کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ ہوا ہے اور لحد
تک اتارتے ہزاروں لوگوں کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے رہے جیسے آپ کو پکار رہے
ہوں اسد اسد اٹھ جاو۔آپ کا یہ خلا کون بھرے گا۔ہم صحافتی اعتبار سے سیاسی
اعتبار سے سماجی اعتبار سے آج یتیم ہوچکے ہیں۔
لیکن آپ نے ہمیں مشکلوں پریشانیوں اور چیلنجز سے نمٹنے کا حل اور طریقہ
اچھی طرح سمجھایا اور عملا اسے ہم سے کروایا۔
میں اور ہم سب آپ کے نام کو آپ کی یادوں کو آپ کے ارادوں کو آپ کی خدمات کو
ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔ان شاء اﷲ
اﷲ پاک آپکو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق
دے۔
والسلام
اﷲ حافظ
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
|