بھارت میں ایک قدیم کہانی بہت
مقبول ہے ۔کہانی کچھ یوں ہے کہ دس اندھے آدمی سفر پر نکلتے ہیں ۔انہیں ایک
سے دوسرے گاؤں جانا ہے اور درمیان میں ایک ندی بہتی ہے۔ ندی گہری نہیں ہے
لیکن پانی کا بہاﺅ اس قدر تیز ہے کہ دور ہی سے اس کی سانپ جیسی پھنکار واضح
طور پر سنائی دیتی ہے ۔ تمام اندھے ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر ندی
میں اترتے ہیں اور انتہائی احتیاط سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے کامیابی
سے دوسر ی طرف جانکلتے ہیں ۔ دوسرے کنارے پر پہنچ کر ایک اندھا کہتا ہے۔
”ٹھہرﺅ ہم اپنی گنتی کرلیں پانی کا بہاﺅ خطرناک حد تک تیز تھا‘ کہیں ہمارا
کوئی ساتھی پاﺅں اکھڑ جانے کے سبب منہ زور ریلو ں ہی میں نہ بہہ گیا ہو“ ۔ایک
دو آوازیں اس کی تائید میں بلند ہوتی ہیں اور گنتی کا عمل شروع ہوجاتا ہے ۔
پہلے گنتی کا مشورہ دینے والا خود گنتی کرتا ہے ‘بعد میں دوسرا اور تیسر ا
۔ لیکن ہر بار ان کی پریشانی بڑھتی ہی جاتی ہے کیونکہ گنتی دس تک پہنچنے سے
پہلے ہی نو پر رک جاتی ہے ,جبکہ گاﺅں سے چلتے وقت اندھوں کی مجموعی تعداد
دس تھی ۔ اس پر انہیں یقین ہوگیا کہ ایک اندھا ندی پار کرتے ہوئے پانی کے
تندریلوں میں بہہ گیا ہے۔ اب انہیں سفر کی ہوش کہاں رہتی ‘ وہیں کہاں رہتی
‘ وہیں کنارے پر بیٹھ گئے اور لگے آہ زاری کرنے ۔
کچھ ہی دور ایک آدمی کافی دیر سے اندھوں کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کر رہا
تھا اور چہرے کے تاثرات سے لگتا تھا کہ بار بار چھوٹتے ہنسی کے فواروں کو
بہت مشکل سے ضبط کرنے کی کوشش میں ہے۔جب اندھوں کا رونا پیٹنا عرو ج پر
پہنچ گیا تو و ہ ان کے پاس آیا اور پوچھنے لگا:”آخر بات کیا ہے؟ کیوں رو
رہے ہو“
”ندی کے ظالم پانی کی تیز ی ہمارا ایک دوست کھا گئی ہے‘ہائے ‘اس کی بجائے
میں بہہ گیا ہوتا“ایک اندھے نے کہا اور بعد میں دیگر تفصیل بھی بیان کی‘ تو
نووارد نے ایک بار پھر بڑی مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی اور بولا:”گھبرانے کی
کوئی بات نہیں‘تمہارا دوست لوٹ آئے گا ۔ تم سب قطار بنا لو‘ اب تمہاری گنتی
میں کروں گا۔ طریقہ یہ ہوگا کہ قطار میں جو سب سے پہلے بیٹھا ہوگا میں اس
کے سر اپنا جوتا ایک بار ماروں گا اور وہ زور سے چلا کر کہے گا : ایک۔
دوسرے کو دو جوتے پڑیں گے اور وہ باآواز بلند”دو“پکارے گا،اسی طرح تیسرا
اندھا تین جوتے برداشت کر کے ”تین“کی صدا دے گا اور یہ سلسلہ ہونہی آگے
بڑھتا رہے گا“۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جوتے مارنے والا گنتی کو دس تک لے جانے میں کامیاب
ہوگیا کیونکہ وہ د ور کھڑا دیکھ رہا تھا کہ جو اندھا بھی گنتی شروع کر تا
ہے وہ اپنے آپ کو شمار ہی نہیں کر تا ۔لہذا ہر بار گنتی نو پر رک جاتی
تھی۔اندھوں نے اپنا دسواں ساتھی مل جانے کی خوشی میں جوتے مارنے والے کا دل
کی اتھا ہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا ،انہوں نے اس کے پاﺅں چھوئے اور کہا
کہ آپ ہمارے لئے ”پرماتما “کے برابر ہیں۔ ہم سب کو پورا یقین ہے کہ ہمارا
ایک ساتھی گم ہو گیا تھا ۔کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ گمشدہ اندھا اچانک
کیسے ظاہر ہوگیا‘۔‘
وہ آدمی بولا” یہ ایک خفیہ راز ہے جو تم کبھی بھی نہیں جان سکتے لہٰذا اپنی
راہ لو اور میرا دماغ چاٹنے سے باز رہو۔“ اندھوں نے کہا” جو حکم سرکار“اور
دوبارہ پاﺅں چھوکر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔
اس کہانی میں اندھوں کی گنتی پوری کرنے والے آدمی نے جس” خفیہ راز“ کا ذکر
کیا ہے ، وہ ہے ”اپنے آپ کو بھول جانا“ ۔یہ انسان کی پرانی عادت ہے بلکہ یہ
کہا جائے کہ بھولنا انسانی فطرت میں شامل ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا ۔اکثر
اوقات ہم پوری ز ندگی ہی خود فراموشی میں ضائع کر دیتے ہیں جس کی وجہ حقائق
سے دور رہنا اور سچائی کا سامنا نہ کر نا بھی ہے ۔خود فراموش ہونا ہماری
زندگیوں میں رچ بس چکا ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں اور ہر انسان کے پاس اس
کی اپنے دلائل ہو تے ہیں ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان سب کچھ جانتا ہے ، ہر
چیز کا مشاہدہ کرتا ہے لیکن پھر بھی بعض اوقات اپنی ذات تک اس کی نظر نہیں
جاتی ہے ۔حضرت انسان دوسروں کو سمجھانے کی کوششیں تو بہت کر تا ہے مگر اپنی
ذاتی اصلاح کی جانب کوئی توجہ نہیں دیتا ہے۔ہمارے معاشرے کا بھی یہ المیہ
ہے کہ ہم لوگ دوسروں کی خامیوں کی جانب زیادہ توجہ دیتے ہیں اور دوسروں کو
بھی اس بارے میں آگاہ کرنا اپنا بنیادی فرض سمجھتے ہیں مگر اپنے اندر موجود
خامیوں کو دور کرنے کی سعی نہیں کر تے ہیں جس کی وجہ سے حالات جو ں کے توں
ہی رہتے ہیں۔ہمارے پاکستانی معاشرے کے لوگ سیاست دانوں کے کردار پر تو
انگلیاں اُٹھاتے ہیں مگر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ وہ انہی کے ووٹوں کی
بدولت اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں انہی کے ٹیکسوں کی رقوم سے عیاشی کر تے ہیں
اور بنیادی ضرورت زندگی سے بھی انکو محروم کر تے ہیں۔مگر ہم لوگ سب کچھ جان
بوجھ کر بھی انہی کو اپنی تقدیر کا مالک بنالیتے ہیں اور قصور وار بھی اپنے
آپ کو تسلیم نہیں کر تے بلکہ سیاستدانوں کے دامن میں ہر چیز ڈالتے ہیں کہ
یہ تو انکا ذاتی فعل ہے۔ہر انسان اگر اپنی ذات پر توجہ دے دے تو بہت سے
مسائل اس کے حل ہو سکتے ہیں مگر آج کے تیز ترقی یافتہ دور میں حضرت انسان
کے پاس نہ تو اپنے لئے وقت ہے اور نہ ہی کسی اپنے عزیز واقارب کے لئے‘جس کی
بناء پر اصلاح ممکن نہیں ہو سکتی ہے حالانکہ اگر اپنی اصلاح کر دی جائے تو
معاشرے سے بہت سی برائیوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔محض دوسروں کیطرف انگلیاں
اُٹھانے سے تبدیلی ممکن نہیں ہوسکتی ہے۔دوسرے ہی صرف معاشرے میں شامل نہیں
ہیں ہماری اپنی ذاتی ذات بھی اس میں حصہ دار ہے جب تک ہم اپنے آپ کو بھولتے
رہیں گے ہمارا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوپائے گا۔اس لئے ہمیں اپنی خود
فراموشی کی عادت سے چھٹکارہ پانا ہوگا تاکہ ہمیں خوشیاں حاصل ہو سکیں ضروری
نہیں کہ اُن اندھوں کی طرح ہماری زندگی میں بھی کوئی آئے اور ہمیں سید ھی
راہ کی جانب گامزن کرے۔دوسروں کو خوشیاں اور مدد فراہم کر تے وقت اپنی ذات
کو بھی سوچنا چاہیے کہ ہمیں بھی خوش ہونا ہے وگرنہ ہم ساری زندگی بہت سی
چیزوں سے محرومی کی کسک ہی محسوس کر تے رہیں گے؟ |