اس وقت عالمگیر سطح پر صحت عامہ کے تحفظ کے حوالے سے
کرونا وائرس کووڈ۔19 کا چیلنج درپیش ہے۔چین سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں
کرونا وائرس کے پھیلاو اور گھمبیر صورتحال نے نہ صرف عالمی حکمرانوں بلکہ
دنیا بھر کے طبی ماہرین کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
چین میں حکومتی اقدامات اور وائرس کی روک تھام اور کنٹرول کے لیے اپنائی
جانے والی موثر پالیسیوں سے بہتر نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔ کرونا وائرس سے
شدید طور پر متاثر ہونے والے صوبہ حوبے اور اُس کے صدر مقام ووہان کے علاوہ
چین بھر میں متاثرہ افراد کی تعداد اور شرح اموات میں نمایاں کمی آئی
ہے۔صوبہ حوبے اور ووہان شہر میں بھی وائرس سے متاثرہ مریضوں کی صحت یابی کی
شرح مسلسل بلند ہو رہی ہے اور نئے کیسوں کی تعداد میں کمی واقع ہونا شروع
ہوئی ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ اب تک چوالیس ہزار سے زائد افراد مکمل صحت یابی کے
بعد اسپتالوں سے فارغ کر دیے گئے ہیں۔چین بھر میں صوبہ حوبے سے باہر دیگر
علاقوں میں اس وقت نئے کیسوں کی تعداد مسلسل "سنگل ڈیجٹ " میں آ رہی
ہے.چین کے اکثریتی علاقوں میں معمولات زندگی بتدریج بحال ہو رہے ہیں،صنعتی
سرگرمیاں شروع ہو رہی ہیں، چین میں موجود مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنی
پیداواری سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے ، دفاتر میں ملازمین کی شرح حاضری
مسلسل بلند ہو رہی ہے، زراعت جدت کے تحت فروغ پا رہی ہے اور چینی سماج کی
مختلف نوعیت کی عارضی منجمد سرگرمیوں کی پرجوش بحالی کا مشاہدہ کیا جا سکتا
ہے۔
ایک جانب اگر چین میں یہ مثبت پیش رفت ہے تو دوسری جانب دنیا کے اکثر ممالک
میں کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیس باعث تشویش اور فوری لازمی اقدامات کے
متقاضی ہیں۔جنوبی کوریا ، اٹلی،جاپان،ایران،پاکستان ،امریکہ، خلیجی ، یورپی
اور افریقی ممالک سمیت دیگر خطوں میں کرونا وائرس کووڈ۔19 کا پھیلاو ثابت
کرتا ہے کہ یہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے ۔موجودہ صورتحال میں کرونا وائرس کسی
ایک ملک یا خطے تک محدود نہیں رہا ہے بلکہ حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے
تو عالمی سطح پر اسے صحت عامہ کے تحفظ کے لیے درپیش ایک "گلوبل چیلنج" قرار
دیا جا سکتا ہے۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس جنگ میں وائرس کو شکست دینے کے سوا
دوسرا کوئی چارہ نہیں ہے۔مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیسے اس جنگ میں فتح حاصل
کی جائے ؟
چین میں موجودگی کے دوران بطور مبصراگر چینی حکومت کے کرونا وائرس کی روک
تھام اور کنٹرول کے اقدامات ،پالیسی سازی اور موثر لائحہ عمل کو دیکھا جائے
تو چند روشن پہلو نمایاں نظر آتے ہیں۔ان میں چین کی اعلیٰ سطح کی قیادت کی
کرونا وائرس کووڈ۔19 کے خلاف جنگ میں عملی شمولیت ، افرادی وسائل کی پیشہ
ورانہ مہارت ، مالیاتی وسائل کی وافر دستیابی، ٹیکنالوجی اور جدت کا بہترین
استعمال اور عوام کی رضاکارانہ شمولیت نمایاں ہیں۔
چین کے صدر شی جن پھنگ کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں فوری طور پر وزیر اعظم
لی کھہ چھیانگ کی زیر صدارت ایک مرکزی رہنماء گروپ تشکیل دیا گیا اور چینی
وزیر اعظم نے خود صوبہ حوبے اور ووہان شہر میں انسداد کرونا وائرس کی
سرگرمیوں کی نگرانی کی۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے مختلف اجلاسوں کی سربراہی
سمیت خود بھی متعدد مقامات کے دورے کیے اور انسداد وبا سے متعلق امور کا
جائزہ لیتے ہوئے ضروری احکامات موقع پر جاری کیے۔اس وقت بھی مرکزی رہنماء
گروپ کے اعلیٰ عہدہ دار بدستور ووہان شہر اور صوبہ حوبے میں موجود ہیں اور
اپنی نگرانی میں انسداد وائرس کی سرگرمیوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
چینی حکومت کی جانب سے تمام سطحوں کی حکومتوں کو بر وقت مالیاتی وسائل
فراہم کیے گئے اور یہ باور کروایا گیا کہ ایسا کوئی عذر قابل قبول نہیں ہو
گا جسمیں مالیات کی کمی کا جواز پیش کیا جائے۔چین کے مرکزی بنک کی جانب سے
سبسڈی اور قرض کی مد میں معاونت جاری ہے.چین کی کیپیٹل مارکیٹ جس میں اسٹاک
مارکیٹ اور بانڈ مارکیٹ شامل ہیں ، کی جانب سے کرونا وائرس کی روک تھام اور
کنٹرول کی کوششوں میں خاطر خواہ فنڈز فراہم کیے گئے ہیں، چین کی مخیر
شخصیات اور اہم اداروں نے بھی اس ضمن میں ہر طرح کی مالی امداد فراہم کی
ہے۔
چینی حکومت کی جانب سے ملک کے تمام علاقوں سے طبی عملے کو ووہان شہر اور
صوبہ حوبے بھیجا گیا ہے اور اب تک طبی کارکنان کی تعداد اکتالیس ہزار سے
تجاوز کر چکی ہیں۔چین کی پیپلز لبریشن آرمی کا چار ہزار سے زائد طبی عملہ
بھی کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں شامل ہے۔ پندرہ سو سے زائد طبی اہلکار خود
بھی وائرس سے متاثر ہوئے اور کچھ اہلکاروں نے دوسروں کی جانیں بچاتے ہوئے
اپنی زندگیاں بھی قربان کی ہیں۔
حکومت کی جانب سے حفاظتی ملبوسات ،ماسکس اور دیگر طبی سازوسامان کی کمی کو
پورا کرنے کے لیے مختلف صنعتوں سے وابستہ چینی صنعت کاروں کو متحرک کیا گیا
۔ ماسک کی یومیہ پیداواری صلاحیت اس وقت گیارہ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جو
یکم فروری کے مقابلے میں بارہ گنا زیادہ ہے۔کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے
تمام متعلقہ صنعتیں اس وقت فعال ہیں اور طبی آلات و سازوسامان کی طلب کو
مد نظر رکھتے ہوئے اقدامات جاری ہیں۔
چینی عوام بھی اپنی حکومت کے شانہ بشانہ کرونا وائرس کے خلاف جدوجہد میں
مصروف ہے۔دفاتر ،کاروباری مراکز اور تمام عوامی مقامات پر ماسک کی پابندی
پر عملدرآمد لازم ہے ، شہری بلاضرورت گھروں سے باہر نکلنے سے اجتناب کر
رہے ہیں۔ریلوے اسٹیشن ،ہوائی اڈوں ،سب وے اور بس اسٹیشن پر خصوصی اسکینرز
نصب کیے گئے ہیں تاکہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہر شخص کی لازمی اسکریننگ
کی جا سکے۔ رضاکار ہر گلی محلے میں موجود ہیں تاکہ کسی بھی آبادی میں
داخلے کے وقت ہر شخص کا جسمانی درجہ حرارت نوٹ کیا جائے اور کوائف کی جانچ
کی جا سکے۔5G ٹیکنالوجی سمیت روبوٹس اور خصوصی ڈرونز کا موثر طور پر
استعمال جاری ہے تاکہ کرونا وائرس کووڈ۔19 کی روک تھام اور کوششوں کو آگے
بڑھایا جا سکے۔
چین کا یہ وہ بے مثال ماڈل ہے جس کو عالمی سطح پر بھی ڈبلیو ایچ او سمیت
دیگر اداروں اور ممالک نے سراہا ہے۔اسی ماڈل کی بدولت چین نے کرونا وائرس
کے پھیلاو کی رفتار کو انتہائی سست کرتے ہوئے دنیا کے دیگر ممالک کو لازمی
اقدامات کے لیے وقت فراہم کیا ہے ،اگرچہ چین کو ان اقدامات کی خود ایک
بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ کرونا وائرس کووڈ۔19 کے مرکز ووہان شہر
اورصوبہ حوبے میں نئے کیسوں کی تعداد میں کمی کو بلاشبہ فتح کی نوید قرار
دیا جا سکتا ہے مگر چین سمیت دیگر دنیا سے اس وبا کے مکمل خاتمے کے بعد
حتمی جیت کے حصول میں انسانیت کی فتح ہے۔
|