رات کے بارہ بج رہے تھے اور میں سونے کی ناکام کوشش کر
رہی تھی۔ شام سے سر درد کی تکلیف کی وجہ سے میں نے بچوں اور میاں صاحب کو
جلد کھانا کھلا کر خود دس بجے کے فوراَ بعد ہی سونے کے لئے بستر پر آ گئی
تھی- لیکن خدا ہدایت دے ہمارے دو گھر چھوڑ کر پڑوس والوں کو جن کے ہاں آج
مہندی کی تقریب نے سارے اہل محلہ کومشکل میں ڈال دیا تھا۔ مجھے اب اپنے سے
زیادہ بچوں کی فکر ہو رہی تھی جنہوں نے اسکول کے لئے صبح سویرے اٹھنا ہے
لیکن گانوں کی اونچی آواز سے وہ با مشکل ہی سو پا رہے تھے۔
یہ تو ہمارے گھر کی صورتحال تھی، باقی محلے میں موجود درجنوں گھروں میں بھی
یہی صورتحال ہو گی۔ ہر مرتبہ شادی بیاہ کی تقریبات کے دنوں میں یہی صورتحال
نظر آتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایسی ہی تقریب کے موقع پر اونچی آواز میں میوزک
کو کم کرانے کی درخواست پر میرے شوہر جب ان گھر والوں کو کہنے گئے تو وہ
اہل گھرانہ ناراض ہوگئے کہ آپ کو ہماری خوشیاں اچھی نہیں لگ رہیں اس لئے
برداشت نہیں ہو رہا۔
آخر ہمارے معاشرے میں ایسا رویہ کیوں ہے؟ ایسی کونسی خوشیاں ہوتی ہیں جن
میں دوسروں کو تکلیف دینا لازم سمجھا جاتا ہے؟ کیا ہمیں معلوم ہے کہ دنیا
کے مہذب معاشروں میں کیا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے؟ یورپ امریکہ اور دیگر
ممالک میں اگر آپ کے گھر سے پڑوس کے گھر میں شور شرابہ یا میوزک کی آواز سے
پڑوسی کو تنگ کیا تو وہ فورا ًپولیس کو بلا سکتا ہے اور آپ کے خلاف
کارروائی ہو سکتی ہے۔
بحیثیت مسلمان اگر ہم یہ دیکھیں کہ ہمیں اسلام اپنے پڑوسیوں کے متعلق کیا
تعلیمات دیتا ہے اور پڑوسیوں کو تنگ کرنے اور ان کے حقوق کے خلاف ورزی پر
اللہ اور اس کے رسول نے کیا وعیدیں بتائی ہیں تو ہم کبھی بھی اپنے پڑوسیوں
کو پریشان کرنا تو دور اس سوچ کو بھی قریب نہ آنے دیں۔
تو جانیے احادیث مبارکہ کی روشنی میں کہ ایک پڑوسی کے دوسرے پر کیا حقوق و
فرائض ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو
کوئی اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کو
تکلیف نہ پہنچائے۔ جو شخص اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین رکھتا ہو وہ اپنے
مہمان کی عزت کرے۔ اور کوئی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ
اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے“۔
(صحیح بخاری:6018)
دوسری جگہ فرمایا ”واللہ ! وہ ایمان والا نہیں واللہ! وہ ایمان والا نہیں،
واللہ ! وہ ایمان والا نہیں۔ “ عرض کی گئی: اللہ کے رسول ! کون؟ آپ نے
فرمایا: ”جس کا ہمسایہ اس کی اذیتوں سے محفوظ نہ ہو۔ “
(صحیح بخاری:6016)
اسی طرح ایک جگہ مزید فرمایا کہ ’’ جس کی ایذا رسانی سے اس کے پڑوسی محفوظ
نہ ہوں ، وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔ ‘‘ (46: صحیح مسلم)
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حضرت
جبرئیل علیہ السلام ہمیشہ مجھے ہمسائے کے متعلق وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ
میں نے گمان کرلیا وہ ہمسائے کو وارث (یعنی کہ وراثت میں حصہ دار) بنادیں
گے۔ “ (صحیح بخاری:6015
افسوس کہ آج کا مسلمان نہ تو دنیاوی اعلیٰ اخلاقی اقدار کو سمجھ رہا ہے اور
نہ ہی یہ ان بہترین باتوں کو جو اس کے مذہب نے انتہائی سچے الفاظ میں بتائی
ہیں۔ جس پر عمل نہ کر کے ہم اپنی دنیا و آخرت کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
لہٰذا آئیں اس بات کا عہد کرلیں کہ ہم آج سے اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال
رکھتے ہوئے انہیں کسی قسم کی تکلیف یا ایذا رسائی کا ذریعہ نہیں بنیں گے۔ |