کورونا وائرس سے خوفزدہ انسان۰۰۰خالق کائنات سے رجوع ہوں

اﷲ رب العزت جو خالق کائنات ہیں ، وہی اپنی قدرتِ کاملہ کے ذریعہ مرض اور شفا ء کا دینے والاہے۔ آج دنیا میں کورونا وائرس کی وجہ سے سخت احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں۔ کئی ممالک چین اور ایران سے آنے والوں کو اپنے اپنے ملک میں آنے سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہ مرض پھیلتا ہی چلا جارہا ہے کئی ممالک اس کی زد میں آچکے ہیں۔ مرض کے پھیلاؤ کے لئے چاہے جتنے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کئے جائیں اس کے تدارک کے لئے اﷲ رب العزت سے رجوع ہونا ضروری ہے ۔ دنیا میں دہشت گردی کے حوالے سے مسلمانوں پر ظلم و ستم کیا جاتا رہا ہے۔ چین میں ایغور مسلمانوں پر جو مظالم کا سلسلہ جاری ہے اس کی رپورٹس منظر عام پر نہیں آتی، ان مسلمانوں کو نماز، قرآن پڑھنے پر پابندی ہے ، روزہ نہیں رکھ سکتے ‘اسلامی احکامات پر عمل کرنے نہیں دیا جاتا،سنت رسول ﷺ کے مطابق مسلمان زندگی نہیں گزار سکتے۔ہوسکتا ہے کہ یہی وجہ ہونگی چین میں مہلک بیماری نے آگھیرا ہو اور اس کے بعد یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ، عرب ممالک بھی اس کی زد میں آچکے ہیں۔عذاب الٰہی کسی بھی صورت میں نازل ہوسکتا ہے ، لیکن جہاں پر اﷲ کو راضی کرنے والے بندے ہوتے ہیں ان مقامات پر خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے مختلف طریقوں سے آزمائش میں ڈالتے ہیں اور پھر اس سے چھٹکارہ بھی عطا فرماتے ہیں ۔ ان ہی شکر گزار اور نیک بندوں کی وجہ سے ملک میں امن و سلامتی کی فضاء بحال رہتی ہے ، ورنہ آج جس طرح چین کی حکومت سب کچھ رکھ کر بھی کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ذرائع ابلاغ کے ذریعہ جو خبریں منظر عام پر آرہی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ کورونا وائرس میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے اوراسکی وجہ سے صورتحال عالمی سطح پر سنگین ہوتی جارہی ہے۔ عالمی سطح پر چین یکہ و تنہا ہوتا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہیکہ یہ وہی مظلوم ایغور مسلمانوں کی بددعاؤں کا نتیجہ ہے کہ چین کی حکومت پریشان کن صورتحا ل سے دوچار ہے۔ خلیجی ممالک نے بھی کورونا وائرس سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کررہے ہیں۔سعودی عرب نے کورونا وائرس جیسی مہلک بیماری کے پھیلاؤ اور اس سے بچنے کے لئے کئی ممالک کے عمرہ زائرین کاعارضی طور پر مملکت میں داخلہ معطل کردیا ہے۔ عرب نیوز اور دیگر سعودی ذرائع کے مطابق سیاحتی ویزے پر ان ممالک سے آنے والے افراد کا مملکت میں داخلہ معطل کیا گیا ہے جہاں سعودی صحت حکام کے طے کردہ معیار کے مطابق نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ ہے۔سعودی عرب میں کورونا وائرس کے خطرے کو روکنے کیلئے وسیع تر اور رہنمایانہ اصولوں کے تحت جی سی سی ممالک کے شہریوں کی قومی شناختی کارڈ کے ذریعہ مملکت آمد و رفت کو بھی معطل کردیا گیا۔ سعودی عرب کے محکمہ پاسپورٹ نے ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور زمینی سرحدی چوکیوں سے سعودی عرب آنے والے تمام مسافروں کو نیا ہدایات نامہ جاری کیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ جو افراد مملکت آنے سے پندرہ روز قبل تک چین میں قیام پذیر رہے ہیں تو ایئر پورٹ، سی پورٹ یا زمینی سرحدی چوکی پہنچنے پر امیگریشن حکام کو اس حوالے سے آگاہ کریں۔ مملکت کی جانب سے ہوائی اڈوں، بندرگاہوں اور زمینی سرحدی چوکیوں پر کورونا وائرس کا پتہ لگانے اور متاثرین کے علاج کیلئے سینٹر بھی قائم کئے گئے ہیں۔ سعودی وزارت صحت نے وائرس سے بچاؤ اور انسداد کے قومی مرکز کے تعاون سے کورونا وائرس کے سدباب کیلئے سخت احتیاطی تدابیر مقرر کررکھی ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے دیگر خلیجی ممالک میں مزید احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے ہیں جبکہ بعض نے کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کے سفر پر پابندی عائدکردی ہے۔ کویت اور بحرین میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد,26 26بتائی جارہی ہے۔ کویتی وزارت تعلیم کا کہنا ہیکہ ہنگامی منصوبے پر عمل کرتے ہوئے یونیورسٹیاں ، کالجز ، اسلامی مراکز اور اوقاف کے مراکز تا ہدایت ثانی بند رہیں گے۔ کویتی محکمہ شہری ہوا بازی نے جاپان اور سنگاپور کیلئے پروازیں معطل کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔اس کے علاوہ کویت نے ایران، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور اٹلی کیلئے تمام پروازیں معطل کرنے کا اعلان بھی کیا ۔بحرین نے عراق اور لبنان جانے اور آنے والی تمام پروازیں معطل کرنے کا اعلان کیا ہے اور دونوں ممالک کے شہریوں کو بحرین کا ویزہ نہیں دیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ بحرین کے محکمہ شہری ہوابازی نے دبئی اور شارجہ کیلئے دو دن پروازیں معطل رکھنے کا اعلان کیا تھا اس میں مزید دو دن کا اضافہ کیا گیا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے بھی اپنے شہریوں پر چین، جنوبی کوریا ، اٹلی ، ایران اور تھائی لینڈ جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔ وزارت خارجہ متحدہ عرب امارت نے اٹلی میں موجود اس کے شہریوں کو واپس لانے کیلئے جمعرات کو خصوصی پرواز چلائی ہے۔ جبکہ امارات کی مقامی فضائی کمپنیوں نے ایران کیلئے تمام پروازیں معطل کردیں۔ امارات نے بھی عارضی طور پر بحرین کیلئے پروازیں معطل کردیں۔عراقی حکومت نے بھی ملک میں تمام تعلیمی ادارے دس روز کیلئے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عراقی وزارت داخلہ کے مطابق احتیاطی تدابیر کے طور پر ملک کے تمام سینما گھر، کلب، چائے خانے، چائے کے ہوٹل نیز عوامی مقامات پر لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس طرح عرب خلیجی ممالک میں کورونا وائرس کے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں ، چین اور ایران سے آنے والے مسافروں کے ذریعہ ان ممالک میں بعض کیسز منظر عام آئے ہیں جس کے بعد سخت احتیاط برتی جارہی ہے۔

مصر کے سابق حکمراں کا انتقال
مصر کے سابق صدر حسنی مبارک 91سال کی عمر میں انتقال کرگئے انہیں سرکاری فوجی اعزازکے ساتھ چہارشنبہ کو سپردلحد کردیا گیا۔ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے حسنی مبارک کے اہل خانہ سے تعزیت کی ۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیےکہ حسنی مبارک 30سال تک مصر کے حکمراں رہے ، وہ صدر انور السادات کے قتل کے بعد 14؍ اکٹوبر1981ء میں مصر کے حکمراں بنے۔ 2011میں بہار عرب کے نتیجہ میں مصر میں حسنی مبارک کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی احتجاجی مظاہرے ہوئے ۔ جس کے بعد فوجی کارروائی کے ذریعہ انہیں 11؍ فروری 2011کو اقتدار سے محروم کردیا گیا۔ حسنی مبارک کو انقلاب کے زمانے میں مظاہرین کی ہلاکتو ں میں ملوث ہونے کا جرم ثابت ہوا تھا ۔ کیونکہ احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لئے فوج کا استعمال کیاگیا تھا جس میں بتایاجاتا ہیکہ 800سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس طرح 18دن تک چلنے والے مظاہروں نے آخرکار 30سال تک اقتدار پر رہنے والے صدر جیل جانا پڑا۔ اس کی سزا کو کالعدم قرار دیا گیا اور انہیں مارچ 2017میں رہا کردیا گیا۔حسنی مبارک کے دور میں مذہبی آزادی نہیں تھی۔ اخوان المسلمون نے مصر میں اسلامی تشخص کو بحال کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ حسنی مبارک کے بعد جمہوری طور پر منتخب ہونے والے صدر محمد مرسی کو موجودہ صدر وسابق فوجی سربراہ نے فوجی بغاوت کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کردیا تھا۔ واضح رہے کہ 2012ء میں مصر میں حکومت مخالف تحریک کے بعد محمد مرسی مصر کے پہلے منتخب صدر بنے لیکن ایک سال کے بعد فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے فوجی بغاوت کے ذریعہ انہیں اقتدار سے بے دخل کردیا۔عبدالفتاح السیسی کی حکومت نے 2013ء میں اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ الفتاح کے دورِ اقتدار میں اخوان المسلمین کے ہزاروں کارکنوں کو ہلاک و زخمی کیا گیا اور ہزاروں اخوانیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ محمد مرسی کے سینکڑوں حمایتیوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ محمد مرسی سے متعلق اچانک میڈیا میں خبر عام ہوئی کہ 17؍ جون 2019کو عدالت میں سنوائی کے دوران مرسی گرگئے اور میڈیکل رپور ٹ کے مطابق وہ دورہ قلب کی وجہ سے انتقال کرگئے۔ انہیں قاہرہ میں دفن کیا گیا۔ سمجھا گیا تھاکہ محمد مرسی کے دورِاقتدار میں مصر میں اسلامی تشخص بحال ہوگا لیکن عبدالفتاح السیسی نے مذہب اسلام کی آزادی کو پھلنے پھولنے سے روکا رکھا۔

سلطنت عمان کے قومی ترانے میں تبدیلی
سلطنت عمان کے حکمراں سلطان ہیثم طارق السعید نے عمان کے قومی پرچم ، لوگو اور قومی ترانے میں تبدیلی کے احکام جاری کئے ہیں۔ 10؍ جنوری 2020کو سلطان قابوس بن سعید کا79سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا وہ پانچ دہائیوں تک عمان کے فرمانروا رہے۔ بتایا جاتا ہیکہ قومی ترانے کے آخری فقرے کو حذف کردیا گیا ، ان میں ملک کے سابق فرمانروا سلطان قابوس بن سعید کا نام شامل تھا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ پہلے ترانے میں سلطان قابوس کو ملک کی تعمیر و ترقی کی کلید کے طور پر پیش کیا جارہا تھا جبکہ نئے ترانے میں دعائیہ کلمات شامل کئے گئے ہیں۔

افغانستان میں قیام امن ۰۰۰
افغانستان میں قیام امن کے سلسلہ میں کی جانے والی کوششیں کامیابی کی سمت رواں دواں دکھائی دے رہی ہے ، امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ایک ہفتے کی جنگ بندی کے بعد29فروری کو امن معاہدے پر دستخط ہونا طے پایا ہے۔ اس موقع پر قطر کے سفیر صقر بن مبارک نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے پاکستان میں ملاقات کرکے انہیں تقریب میں شرکت کیلئے خصوصی دعوت دی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ افغان مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے میں پاکستان اور قطر کا کلیدی کردار ہے۔اب دیکھنا ہیکہ افغانستان میں واقعی قیام امن کا آغاز ہوتا ہے یانہیں۔ کیونکہ افغانستان کے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو کئی دہائیوں سے یہاں کے عوام ظلم و بربریت کا شکار ہوتے رہے ہیں ۔ اور یہ ظلم و ستم انکے اپنوں نے بھی کیا اور غیروں نے بھی۔

مہاتیر محمد ہی ملیشیا کے قائم مقام وزیر اعظم
مہاتیر محمد کو ملیشیا کے بادشاہ نے قائم مقام وزیر اعظم خدمات جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے جس کے بعد ملک میں نئی حکومت کے قیام کیلئے سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے۔ 24؍ فروری کو مہاتیر محمد اچانک وزارتِ عظمی سے مستعفی ہوگئے تھے جس سے ملیشیا میں سیاسی بحران پیدا ہوگیا ۔ قائم مقام وزیر اعظم کا منصب سنبھالتے ہی مہاتیر محمد نے اپنی کابینہ تحلیل کرتے ہوئے دوبارہ حکومت سازی کیلئے جوڑ توڑ شروع کردی ہے۔ شاہی محل کے مطابق ملیشیا کے بادشاہ 222اراکین پر مشتمل پارلیمنٹ سے الگ الگ ملاقات کرکے صورتحال کا جائزلینے کے بعددیکھیں گے کہ کس امیدوار کو اکثریتی اراکین کی حمایت حاصل ہے اور اسکے بعد ہی کوئی نیا فیصلہ کریں گے۔ 94 سالہ مہاتیر محمد دنیاکے معمر ترین حکمراں ہیں اور پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ وہ 1981ء میں اقتدار پر فائز ہوئے تھے جب ملیشیا کو کئی معاشی چیلنجز درپیش تھے، کہا جاتا ہیکہ ان کے دور میں ملیشیا صنعتی شعبے میں کافی ترقی کی اور وہ 2003تک وزارتِ عظمی کے منصب پر فائز رہے۔اب دیکھنا ہیکہ مہاتیر محمد وزارتِ عظمی کے عہدہ پر برقرار رہتے ہیں یا پھر انکی جگہ کوئی اور وزیر اعظم کی حیثیت سے اقتدار پر فائز ہونگے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران ، ترکی کے صدر رجب طیب اردغان اور ملیشیا کے وزیر اعظم مہاتر محمد اس وقت مسلمانوں کے لئے اہم حیثیت رکھتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ہندوستانی مسلمانوں کی سلامتی کیلئے ۰۰۰
عالم اسلام کو ہندوستانی مسلمانوں کے لئے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے ۔ہندوستانی مسلمانوں پر فرقہ پرست عناصر کی جانب سے ظلم و ستم جاری ہے۔بھگوا حکومت نے ظلم و بربریت کا ایک نیا کھیل شروع کردیا ہے۔وزیراعظم نریندر مودی ان حالات میں اتنی خاموشی اختیار کرتے ہیں کہ انہیں کچھ دکھائی اور سنائی ہی نہیں دے رہا ہے۔ گجرات کے فسادات نے جہاں انکی ساکھ کو شدید متاثر کیا تھا آج وہی حالات پھر سے ایک مرتبہ دہلی میں ہوتے نظر آرہے ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں جس طرح مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں، انکی املاک کو ٹھہس نہس کردیا جارہا ہے۔ہندودہشت گردوں کی جانب سے پولیس کے سامنے کھلے عام مسلمانوں پر حملے کئے جارہے ہیں جس کے بعد عالمی سطح پر خصوصاً مشرق وسطیٰ کے حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ وہ ہندوستانی حکومت پر دباؤ ڈالتے ،تاکہ مسلمانوں کی جان و مال کی حفاظت اور سلامتی کیلئے انتظامات کئے جاتے۔ ایسا محسوس ہوتا ہیکہ عرب ممالک کے حکمراں وزیر اعظم نریندر مودی کو خوش رکھنا چاہتے ہیں ۔ اب دیکھنا ہیکہ اﷲ کے گھر پر حملہ ہونے کے بعد بھی عالمی سطح پر ہندودہشت گردوں کے خلاف کوئی عالمی قائد ہندوستانی حکومت کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتا ہے یا نہیں۔
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210822 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.