(عالمی یوم خواتین کے حوالے سے خصوصی تحریر)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عورت کے دم قدم سے ہی کائنات میں جاذبیت و
رعنائی ہے زمانہ قدیم میں عورت کوبھیڑ بکریوں کی طرح بیچ دیاجاتا تھا قبل
از اسلام بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیا جاتایا پھر زندہ درگور کر دیا
جاتا تھا8مارچ ہر سال خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس کا
تاریخی پس منظر یہ ہے کہ 8مارچ1907ء کو امریکہ کے شہر نیو یارک میں لباس
سازی کی صنعت سے وابستہ سینکڑوں کارکن خواتین نے مردوں کے مساوی حقوق اور
بہتر حالات کار کے لیے زبردست مظاہرہ کیا ان کامطالبہ تھا کہ دس گھنٹے محنت
کے عوض معقول تنخواہیں دی جائیں ان کے اس احتجاج پر پولیس نے لاٹھی چارج
کیااس واقعہ کے ایک سال بعد 8مارچ 1908ء کو نیو یارک ہی میں سوئی سازی کی
صنعت سے تعلق رکھنے والی1500 خواتین نے مختصر اوقات کار،بہتر اجرت، ووٹ کے
حق اور بچوں کی جبری مشقت کے خاتمہ کے لیے مظاہرہ کیا ان کے خلاف نہ صرف
گھڑ سوار دستوں نے کارروائی کی بلکہ ان پر پتھر برسائے اور ان میں سے بہت
سی عورتوں کو گرفتار بھی کیا گیا1909ء میں سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے
عورتوں کا دن منانے کی قرارداد منظور کی اور پہلی بار اسی سال 28فروری کو
امریکہ بھر میں عورتوں کا دن منایا گیا اور اس کے بعد 1913 تک ہر سال فروری
کے آخری اتوار کو عورتوں کا دن منایا جاتا رہا 1910ء میں کوپن ہیگن میں
ملازمت پیشہ خواتین کی دوسری عالمی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں جرمنی کی
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی کلارا زیٹکن نے ہر سال دنیا بھر میں عورتوں کا دن
منانے کی تجویز پیش کی جسے کانفرنس میں شریک 17ممالک کی100خواتین شرکا ء نے
متفقہ طور پرمنظور کیا1911ء میں 19مارچ کو آسٹریا،ڈنمارک،جرمنی اور سوئٹز
لینڈ میں پہلی بار خواتین کا عالمی دن منایا گیافروری 1913میں پہلی بار روس
میں عورتوں کا عالمی دن منایا گیا اور اسی سال اس دن کے لیے 8مارچ کی تاریخ
مخصوص کر دی گئی 1917ء میں سوویت انقلاب کے بعد اس دن کو روس میں نا صرف
سرکاری سطح پرتسلیم کیا گیا بلکہ یہ دن کیمونسٹ اور سوشلسٹ ممالک میں چھٹی
کے طور پر منایاگیا1922ء سے اسے چین میں کیمونسٹوں اور 1936ء سے ہسپانوی
کیمونسٹوں کی جانب سے بھی منایا جانے لگا یکم اکتوبر 1949ء میں عوامی
جمہوریہ چین کے قیام کے بعد ریاست کونسل نے 23دسمبر کو اعلان کیا کہ8مارچ
یوم خواتین کے طور پر منایا جائے گا اور اس دن سرکاری سطح پر آدھی چھٹی ہو
گی1975ء کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے رکن ممالک کو مدعو کیا اور 8
مارچ کو خواتین کے حقوق اور عالمی امن کے طورپر منائے جانے کا اعلان کیا اس
سال یعنی 2020ء میں یہ دن "I am Generation of Equality"کے تھیم کے تحت
منایا جارہا ہے خواتین بالخصوص مغربی عورت کو جس طرح اپنے حقوق کی خاطر جدو
جہد کرنا پڑی اور قربانیاں دینا پڑیں بلاشبہ وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش
باب ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس سب کے باوجود کیا عورت کو آج وہ حقوق حاصل
ہیں جس کی وہ اصل حقدار ہے بالخصوص مغربی معاشرے میں کیا عورت کو اس کا
جائز مقام مل سکا ہے یا پھر وہ بھی جدیددور کی مشینی زندگی میں ایک پرزہ بن
کر رہ گئی ہے عورت مشرقی ہو یا مغربی ہمیشہ سے ہی مظلوم رہی ہے اور ہر ایک
معاشرے میں اس کا استحصال ہوتا چلا آرہا ہے لیکن اسلام نے عورت کو جو عزت و
تکریم دی ہے اس کی مثال اس سے قبل نہیں ملتی اس حوالے سے معروف صحافی اور
مصنف صفدر ہمدانی کی وساطت سے الشیخ حسین بن عبدالعزیزآل سعود الشیخ کے ایک
مضمون کاپیراگراف پیش خدمت ہے وہ لکھتے ہیں کہ" عالم انسانیت نے آج تک کوئی
دین یا تہذیب ایسی نہیں دیکھی جس نے عورت کے معاملہ میں اتنی دلچسپی لی اور
اہتمام کیا ہو جتنا کہ دین اسلام نے کیا ہے اسلام نے عورت کے بارے میں
تفصیلی گفتگو کی ہے اور اس کا مقام و مرتبہ بیان کیا ہے اسے سربلند کیاہے
عالی مقام دیاہے اوراس کی قدرومنزلت بڑھائی ہے،عورت کا اسلام میں بڑا بلند
مقام ہے اسے ایک قابل احترام شخصیت قرار دیاگیا ہے اس کے حقوق متعین کیے
گئے ہیں اور اس کے فرائض وواجبات طے کئے گئے ہیں" بیٹیوں کی پرورش کے حوالے
سے فرمان رسالت مآبﷺ ہے "جس نے دو بچیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بلوغت
کو پہونچ جائیں ،وہ قیامت کے دن یوں میرے ساتھ (جنت میں) ہو گا اور آپ ﷺ نے
(دوانگلیوں کو جوڑ کر اشارہ کیا)۔ صحیح مسلم (عورتوں سے حسن سلوک کے بارے
میں رسول مکرمﷺ کا فرمان ہے "زیادہ کامل الایمان وہ ہے جو سب سے زیادہ حسن
اخلاق والا ہے اور تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر کی عورتوں کے لیے
اچھا ہے " (ابو داؤد،ترمذی،مسنداحمد)۔ یاد رکھیے کہ جس دن سورج سوا نیزے پر
ہوگا بڑے بڑے کروفر والے زمینی آقاؤں کی گردن اپنے ہی پسینوں میں ڈوبی ہوں
گی سب لوگ رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے جب انصاف کا ترازو لگادیا
جائے گاتو پھر چند کنال زمینوں، تھوڑے سے بینک بیلنس اورجھوٹی انا کی خاطر
ماؤں،بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی اجیرن کر نے والے کیا جواب دیں گے؟ اس دن
تو کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گااسی لیے اب بھی وقت ہے کہ اﷲ تبارک و
تعالیٰ کے احکام اور رسالت مآب ﷺ کے فرامین کی روشنی میں عورت کو وہ مقام
دیا جائے جس کی وہ حقدار ہے ۔بحیثیت انسان اور بالخصوص مسلمان ہونے کے ناطے
یہ ہمارا دینی و اخلاقی فرض ہے۔
|