جس طرح سے ہم مختلف حالات میں مختلف رویّے اپناتے ہیں اور
مختلف کیفیات پر مخصوص ٹیگ لگا دیتے ہیں. ہمارے اس عمل کا تعلق ہماری
socialization سے ہوتا ہے اور ہماری تربیت کرنے والے کچھ سماجی ادارے ہیں
جن میں خاندان، تعلیم، دوست (صحبت) اور میڈیا وغیرہ بھی شامل ہیں. ہم سب
لوگ ان سماجی اداروں کے مختلف کردار ہیں. ہمارے طے کیے ہوئے پیمانے دوسروں
کے رویّوں کو ماپتے ہیں اور دوسروں کے معیار ہمارے رویوں کو ڈیزائن کرتے
ہیں. یہاں تک کہ ہمارے ذہن میں تصّور کے بننے میں بھی یہی سماجی ادارے اور
ان سے جڑے لوگ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں.
گزشتہ کچھ مہینوں سے مینٹل اور ایموشنل ہیلتھ کا مطالعہ کرتے کرتے میرے ذہن
میں ایک چین بن گئی کہ شاید بڑھتے ہوئے ذہنی اور جذباتی مسائل کی ایک بڑی
وجہ "ہمارے ذہن میں خوشی کا غلط تصّور ہے" جو کہ ہر شخص اپنے گردونواح میں
دیکھا دیکھی سے بنا لیتا ہے. اگر ہم اپنی روزمرّہ کی باتوں کا ہی جائزہ
لینے لگیں تو ہم دیکھیں گے کہ خوشحالی کو ہم ملکیت کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں.
اس کے علاوہ، یا تو خوشی کو صرف تہواروں تک اور ان میں کیے جانے والے
دکھاوے تک جوڑ دیا جاتا ہے یا پھر لوگوں سے ممتاز بنانے والی so called
کامیابیوں کے ساتھ. ان کامیابیوں میں اچھے گریڈز اور اچھی ملازمت وغیرہ
شامل ہیں. یعنی کہ خوشی کے دائرے کو بہت ہی تنگ کر دیا گیا ہے.
اگر میڈیا اور دورِ حاضر کے رائٹرز کا بھی جائزہ لیا جائے تو ان کی کہانیوں
کے کرداروں میں utopia پایا جاتا ہے. وہ امیر کرداروں کو خوش ترین اور خوش
قسمت ترین بنا کر پیش کرتے ہیں. اس طرح سے لوگوں میں خاص طور پر نوجوان نسل
میں ایک تصّور inject کیا جا رہا ہے کہ دولت کا حصول ہی دراصل خوشی کا
حصّول ہے. خوشی کی یہ تعریف دینے والا پورا سماج اور اسکے سماجی ادارے،
اندرونی سکون کو مادی سکون سے جوڑنے کی سنگین غلطی کرتے دکھائی دیتے ہیں.
یہاں self - contentment کو material resources سے جوڑ دیا گیا ہے. خوشیوں
کا متلاشی انسان اس جھوٹے تصور کے پیچھے دن بہ دن مزید خودغرض اور
materialistic ہوتا چلا جا رہا ہے. ایسے میں اگر وہ کچھ پا لیتا ہے تو وہ
وقتی خوشی جو اسے حاصل ہوتی ہے، ختم ہو جانے پر وہ دوبارہ سے کسی نئی so
called کامیابی کے پیچھے بھا گنے لگتا ہے. ہر جگہ خوشی ڈھونڈتا رہتا ہے
لیکن اپنے اندر نہیں ڈھونڈتا!
|