Pakistan Community Achievement Award International
PCAA) کی تقریب میں عابد شیر علی رہنما ن لیگ کے ھاتھوں سے ایوارڈ لینے سے
انکار، اِن کو چور کہہ کر پکارہ گیا۔ایک جاندار تازہ تحریر اُن لوگوں کیلئے
جو لبرل اور سیکیورلر اشرافیہ کیلئے ایک تازیانہ پیشی کرتے ہیں ۔ آج بھی
ملک پاکستان میں ایسے ہزاروں لوگ موجود ہیں جو لوگوں کے دلوں میں نفرت کا
پہاڑ لئے ہوئے ہیں ۔ جب وہ عوام میں جاتے ہیں تو لوگ اُنکو اپنا ری ایکشن
اپنے حساب سے دیتے ہیں ۔ اگر ان لوگوں میں عزت اور غیرت نام کی کوئی چیزہو
تو اِنکو چلو بھر پانی میں دوب مر نا چاہیے ۔ میں یہاں پر چند واقعات
قلمبند کرتاہوں 18سالہ دانیال کے ایک انکار سے اسلام آباد کی اشرافیہ کو
حیران نہیں بلکہ پریشان کر دیا ۔ انکا ر کا یہ واقعہ پاکستان نیشنل کونسل
آف آرٹس کے ڈراما ہال میں 6نومبر 2002ء کو پیش آیا ۔ جہاں وفا قی
دارالحکومت کے ایک معروف انگلش میڈیم اسکول کی تقریب انعامات جاری تھی ۔
رمضان المبارک کے باعث یہ تقریب صبع 10بجے سے 12بجے کے درمیان منعقد کی گئی
اور اتوار کا دن ہونے باعث ڈراما ہال طلباء و طالبات سے بھرا ہوا تھا ۔
والدین کے ساتھ ساتھ شہر کے لوگ بھی شامل تھے ۔ اس تقریب پر مغربی ماحول
اورمغربی موسیققی غالب تھی ۔ اس دوران اسکول کی طالبات نے جنید جمشید کے
ایک پرانے گانے پر رقص پیش کیا۔ یہ گانا ایک سانولی سلونی کے بارے میں تھا
۔ جو شہر کے لڑکوں کو اپنا دیوانہ بنا لیتی ہے ۔ ادھر طالبات نے اس گانے پر
دیوانہ وار رقص پیش کیا ۔ رقص کے بعد اسٹیج سے Oلیول اورAلیول کے امتحانات
میں نمایاں پو زیشن حاصل کر نے والے طلباء و طالبات کے نام پکارے جانے لگے
۔ گولڈ میڈل حاصل کرنے والی طالبات بعض اسکارف اور ہر قصے میں ملبوس تھیں ۔
ایک طالب علم ایسابھی تھا کہ جس کے چہرے پر نئی نئی دارڑھی آئی تھی اور جب
پرنسپل صاحبہ نے اسکے گلے میں گولڈ میڈل ڈالکر سکے ساتھ ہاتھ ملا نا چاہا
تو دبلے پتلے طالب علم نے نظریں جھکا کر اپناہاتھ کھینچ لیا ۔پرنسپل صاحبہ
نے پو چھا کہ کیا تم ہاتھ نہیں ملانا چاہتے ؟طالب علم نے نفی میں سرہلایا
اور اسٹیج سے نیچے اُتر آیا ۔ پھر دانیال کانام پکارا گیا جو Aلیول مکمل
کرنے کے بعد ایک امریکی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے اور صرف گولڈ میڈل وصول
کرنے کے لئے اسے پرانے اسکول کی تقریب میں بلایا گیا تھا ۔ وہ گولڈ میڈل
وصول کرنے کی بجائے پرنسپل صاحبہ کی طرف نہیں گیا بلکہ ڈائس پر جاکر کھڑا
ہوا اور مائیک تھام کر کہنے لگا وہ اسکول کی اتنظامیہ کا بہت شکر گزار رہے
کہ اسے گولڈ میڈل کیلئے نامزد کیاگیا ۔ لیکن اُسے افسوس ہے کہ اس تقریب میں
طالبات نے رمضان المبارک کے تقد س کا خیال نہیں کیا اور نہایت واہیات گانے
پر رقص کیا ۔ اُس نے کہا کہ مسلمانوں کے ملک میں رمضان المبارک کے تقد س کی
پامالی کے خلاف بطور احتجاجاً وہ گولڈ میڈل وصول نہیں کر ے گا۔ یہ کہہ کر
وہ اسٹیج سے اُترآیا اور ہال میں ہڑ بونگ مچ گئی ۔ کچھ والدین اور طلباء
تالیاں بجا کر دانیال کی حمایت کر رہے تھے اورکچھ چیخ چیخ کر گیٹ آؤٹ
طالبان کی آوازیں لگار ہے تھے ۔ ایسا محسوس ہو تات ھا کہ مخالفین حاو ی
ہیں۔ کیونکہ وہ بہت زیادہ شور کررہے تھے ۔ لیکن یہ کھلبلی وفا قی
دارالحکومت کی اشرافیہ میں ایک اور وافع تقسیم کا پتہ دے رہی تھی ۔ یہ
تقسیم لبرل عناصر اور بنیاد پرست اسلام پسندو ں کے درمیان تھی ۔
پرنسپل صاحبہ نے پھر خود مائیک سنبھال کرصورت حال پر قابو پایا اور تھوڑی
دیر کے بعد ہو شیاری سے ایک لبرل خاتون دانشور کو اسٹیج پر بلایا جنہوں نے
اپنی گرج دار آواز میں دانیال کوڈانٹ پلاتے ہوئے کہا کہ تم نے جو کچھ کیا
وہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی تعلیمات کے خلاف تھا۔ کیونکہ
بانی پاکستان رواداری کے علمبردار تھے ۔ پچھلی سیٹوں پر براجمان ایک اسکارف
والی طالبہ بولی کہ بانی پاکستان نے یہ کب ک ہا تھا کہ مسلمان بچیاں رمضان
میں اپنے والدین کے سامنے سانولی سلونی سی محبوبہ بن کر ڈانس کر یں ؟ ایک
دفعہ پھر ہال میں شورو غل بلند ہوا اور اس دفعہ بنیاد پر ست حاوی تھے ۔
لہذا پر نسپل صاحبہ نے دوبارہ مائیک سنبھالہ اور کہا کہ طالبات کے رقص سے
اگر کسی کے جذ بات مجروح ہو ئے ہیں تو وہ معذرت خواہ ہیں ۔
اس واقعے نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور
پر دیا سفارت خانے نے فوری طور پر ایک ماہر تعلیم کی خدمات حاصل کیں اور
اسے کہا گیا کہ اسلام آباد کے پانچ معروف انگلش میڈیم ،اسکولوں میں Oلیول
اورAلیول کے ایک سو طلباء و طالبات امریکی پالیسوں اور طالبان اور اسلام کے
بارے میں رائے معلوم کریں ۔سروے رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک عام گناہ گار
مسلمان بھی شعائر اسلامی کی توہین برداشت نہیں کرتا اور اس کے تحفظ کیلئے
وہ ہر حد عبور کرنے کو تیار ہوتاہے ۔ ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ کے ایک
ہونہار طالب علم محترمہ محمد خرم جنہوں نے 18جون 2002کو نیشنل آرت گیلری
اسلام آباد میں منعقد ہ تقریب تقسیم اکیڈمک ایکسیلنس ایوارڈ میں مہمانِ
خصوصی امریکی سفیر اینی پیٹر سن (Anne Pattercon)سے احتجاجاً ایوارڈ وصول
کرنے سے انکار کیا اور اُن سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر پرویز
مشرف کی حمایت کرتا ہے ۔ جو غیر صدر اور پاکستان کے عدالتی نظام کو تباہ و
بر باد کر رہاہے ۔ مزیدبراں امریکا ، ڈرون حملوں کے ذریعے وزیر ستان
بالخصوص مہمد ایجنسی پر بمباری کررہاہے ۔جس سے سینکڑوں معصوم اور بے گنا ہ
افراد شہید ہوتے ہیں ۔ لہذا بحیثیت پاکستانی آپ سے ایوارڈ لینا ہیں اپنی
ملی غیرت کے منافی سمجھتاہوں ۔
پنجاب لاء کالج کے سالانہ کنونشن کے موقع پر LLBکے امتحان میں پہلی پو زیشن
حاصل کرنے والے محبِ وطن طالب علم محترم محمد شاہد جنہوں نے 11اکتوبر 2003ء
کو مہمانِ خصوصی گورنر پنجاب سلمان تاثیر ، چانسپلر پنجاب یونیورسٹی سے
احتجاجاً گولڈ میڈل لینے سے انکار کیا اور کہا کہ آپ اسلام اور پاکستان کے
مفادات کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں ۔ نیز آپ نے مئی 2002ء کو کراچی کے
شرمناک واقعات کی کوئی مذمت نہیں کی ۔ لہذا میں آپ سے ایوار ڈ لینا اپنے
ضمیر کے خلاف سمجھتا ہوں ۔
اُو ،ایف ، پی گرلز کالج اسلام آباد کی Aلیو ل کے امتحان میں تمام مضامین
پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی غیور طلبہ محترمہ اسماء وحید جنہوں نے 22جنوری
2010ء کوکالج میں امتحانات میں نمایاں پو زیشن حاصل کرنے والی طالبات کے
اعزاز میں منعقدہ ایک تقریب میں مہمانِ خصوصی MQMکے مرکزی رہنماء اورسمندر
پار پاکستانیوں کے وفا قی وزیر ڈاکٹر فاروق ستار سے احتجاجاً سر ٹیفکیٹ
وصول کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ آپ کا شمار پر ویز مشرف کے قریبی
ساتھیوں میں ہوتا ہے ۔ جس نے کئی بے گناہ ساتھیوں کو بھاری ڈالروں کے عوض
امریکہ کے حوالے کیا ۔ جس میں ایک حافظہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی شامل ہے ۔
اس جرم میں آپ بھی برابر کے شریک ہیں ۔ لہذا آپ سے ایوارڈ وصول کرنا میں
اپنی ہتک محسوس کرتی ہوں ۔ دی یونیورسٹی آف فیصل آباد سے ٹیکسٹائل انجینئر
نگ میں تیسری پو زیشن حاصل کرنے والے نیک بخت طالب علم صاحبزادہ عطار رسول
مہاروں جنہوں نے 12نومبر 2003ء کو یونیورسٹی کے سالانہ کا نو کیشن میں
مہمانِ خصوصی گورنر پنجاب سلمان تاثیر سے احتجاجاً برونز میڈل وصول کرنے سے
انکار کیا اور حقارت سے کہا کہ آپ نہ صرف گستاخانِ رسول کی سر پر ستی کرتے
ہیں بلکہ توہین رسالت ایکٹ 236 cکو کالا قانون اور اُسے ختم کرنے کے بیانات
بھی جاری کرتے ہیں ۔ اس طرح آپ بذاتِ خود توہین رسالت کے مرتکب ہوئے ہیں ۔
لہذا آپ سے میڈل وصول کرنا میں گناہ سمجھتاہوں ۔
اسلام اور پاکستان کی سرحدوں کے اِ سن سچے محافظوں کو جب میں دیکھتا ہوں تو
اقبال ؒ کی دینی غیرت و حمیت کایہ مظاہرہ اﷲ کا خوف و خشیت رکھنے والے
والدین کی بدولت ہی ممکن ہوتاہے ۔ ان عظیم والدین کو سلام
غیرت بڑی چیز ہے جہاں تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
|